افسانہ
رابعہ کے بغیر مانگے، ویٹر نے کافی کا کپ اس کے سامنے رکھ دیا اور اس کے ’’تھینک یو‘‘ پر مسکرا کر ’’یوں آر ویلکم‘‘ کہہ کر پیچھے کھسکنے لگا۔ سانولے چکنے چہرے پر چمکتے سفید دانت، درمیانہ قد، گٹھیلا بدن اور انگریزی کی ضرورت بھر جانکاری۔ مشن کا ہائی اسکول پاس، اوسط منڈا نوجوان۔ وہ آج چھ دن سے رابعہ کی میز پر تعینات رہتا تھا۔ پہلی بار تو رابعہ کو اکیلے اندر آکر بیٹھتے دیکھ کر کوئی اس کی میز پر آرڈر لینے نہیں آیا۔ میز بجا کر اس نے تین ویٹروں او رمنیجر کا دھیان اپنی طرف کیا۔ چھوٹے سے شہر میں ایک عورت کا اکیلے کسی ریستوران میں کھانا کھانے آنا، آج بھی حیرانی کی بات ہے۔ شاید وہ لوگ جھنڈ بناکر یہی بات کررہے تھے۔ تین بار میز بجانے کے بعد باقی ویٹروں نے صلاح مشورہ کرکے اس نوجوان کو اس کے پاس بھیجا۔ کھانے کا آرڈر لیتے ہوئے اس نے ہمت کرکے پوچھا تھا۔۔۔
’’میڈم اکیلی ہیں؟‘‘
’’ہاں! اور رات کا کھانا لگ بھگ اسی وقت روز یہیں کھائیں گے۔‘‘
اس ویٹر کی آنکھوں کی حیرانی بڑھ گئی اور برابر بڑھتے ہوئے اس وقت اپنی چرم سیما پر پہنچ گئی جب رابعہ نے کافی منگوائی اور دودھ چینی ڈالے بناپی گئی۔ دو دن کے بعد اس حیرانی کی جگہ سواگت کی مسکراہٹ نے لے لی جو تہذیب کی دوری رکھ کر اپنا پن بنائے رکھتی تھی۔ خاص مشن ٹریننگ۔ آج ساتویں دن اس کی پسندیدہ کافی، بغیر کہے، بنا دودھ اور چینی کے، اس کے سامنے آگئی۔ لیکن اس وقت نہ تو رابعہ کا دھیان کافی پر تھا نہ ہی جیکب منڈا کی جھینپتی مسکراہٹ پر۔ اس کے کان تو ٹھیک اپنی پیچھے والی میز پر بیٹھے چار نوجوان لڑکے لڑکیوں کی باتوں پر لگے تھے۔ اب تک کی ان کی بات چیت سے وہ اتنا تو سمجھ ہی گئی تھی کہ ان میں سے ایک لڑکی اور ایک لڑکا نئے آئی اے ایس ہیں، جو جھارکھنڈ کاڈر ہونے کی وجہ سے فیلڈٹریننگ کے لئے، یہاں کھومٹی میں تھے۔ دوسری لڑکی ریونیو سروس کی تھی اوربہار سے نئے نئے الگ ہوئے جھار کھنڈ کو وراثت میں ملے، کرپشن کا رونا بیچ بیچ میں رولیا کرتی تھی۔ چوتھا لڑکا پترکار جیسا کچھ تھا۔چاروں کی بات چیت گھوم پھر کر اسی مدعے پر آجاتی تھی جس میں رابعہ کی دلچسپی تھی۔ آخر رابعہ سے رہا نہیں گیا۔ گنگنی کافی کے دو گھونٹ بھر کر، بِل دیکھ کر، ٹرے پر پیسے رکھتے ہوئے وہ اٹھی اور ان کی میز پر گئی۔
’’ایکسکیوزمی، آپ لوگ کس کے اریسٹ کی بات کررہے ہیں؟‘‘ تین افسروں کے چہروں پر پردہ ساگر گیا۔ انہیں اسے گرنے کی مشق، لال بہادر شاستری نیشنل اکادمی آف ایڈمنسٹریشن، مسوری کے فاؤنڈیشن کورس سے ہی شروع کروادی جاتی ہے اور دوسال کی ٹریننگ میں، یہ عادت ان کے وجود کا حصہ بن جاتی ہے، تاکہ کوئی ان کی آنکھوں میں ان کے دل کا حال نہ پڑھ لے۔ نہ جانے یہ نوجوان عشق کیسے کرتے ہوں گے؟ خیر پتر کار شاید اپنی اُتسکتادبا نہیں پایا، رابعہ کو گھورتے ہوئے بولا۔۔۔’’آپ؟‘‘
رابعہ نے اپنا ہاتھ بڑھایا جسے گھبرا کر وہ پتر کاریوں پیچھے ہوا جیسے وہ ہاتھ نہیں کوئی کٹا ہو۔
’’میں رابعہ صداقت ہوں۔ اس علاقے میں کوئی سترہ دنوں سے ہوں۔‘‘
لڑکی کے چہرے سے پردہ ذرا سر کنا شروع ہوا۔۔۔ ’’آپ لیکھک ہیں نا؟‘‘
رابعہ کے دل نے گروکی انگڑائی لی۔ جو بھی کہیے، ایک وقت میں تو آئی اے ایس کو بہت پڑھنا پڑتا ہے، بعد میں ان کا جو بھی حشر ہوتا ہو۔ مسکرا کر پوچھا۔۔۔’’آپ نے میرا لکھا کچھ پڑھا ہے؟‘‘
’’جی نہیں، ڈی سی صاحب آپ کے بارے میں بتارہے تھے۔‘‘
جواب سن کر فخر کی انگڑائی آدھے میں سنبھل گئی۔ لیکن ڈی سی اسے جانتے ہیں یہ باقی تینوں کے لئے کافی پریچے تھا۔ لڑکوں میں سے ایک لپک کر ایک او رکرسی لے آیا۔
’’دراصل میں یہاں ایک ریسرچ پروجیکٹ کے سلسلے میں آئی ہوں۔۔۔’’نکسل آندولن میں عورتوں کا استھان، آپ کی بات چیت سے لگا کہ کچھ نکسلی آج گرفتار ہوئے ہیں۔‘‘ پردہ پھر نیچے سرکنے لگا۔ رابعہ نے سوچا پوری بات دو چار جملوں میں کہہ دے تو شاید فائدے میں رہے۔ ’’دیکھئے، آپ نہ بتانا چاہیں تو نہ بتائیں۔ جان تو میں جاؤں گی۔ آج رات نہ سہی تو کل صبح۔ ڈی سی ہی بتادیں گے۔ انہیں بتانا پڑے گا کیونکہ انہوں نے مجھے اور آگے جاکر نکسلیوں سے سیدھا سمپرک کرنے سے روکا ہے، اس آشواسن پر کہ اگر کوئی نکسلی پکڑے گئے تو میری ان سے ملاقات ضرور کروائیں گے۔ آپ لوگ اگر ابھی بتادیں تو کل ملنے کا انتظام کرلوں۔‘‘
پتر کارذرا نربھِک بھی تھا اور شاید’’پروفیشن‘‘ کے چلتے لاپرواہ بھی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رابعہ کو اپنے ہی جیسا سمجھا ہو۔ باقی تینوں سے پہلے بولا۔۔۔’’جی ہاں، پولیس کو ایک بڑی کامیابی ہاتھ لگی ہے۔ شاید وہ کھونٹی سے ہی کسی نے’’ٹپ آف‘‘ کیا ہے۔ چودہ نکسلی اُلی ہاتو کے پاس کے جنگل سے پکڑے گئے ہیں۔‘‘
’’چودہ! یعنی بڑا گروپ ہوا۔‘‘
’’ان کی میٹنگ تھی شاید! دوسرے علاقوں سے بھی نکسلی آئے تھے۔ آج شام کو کھونٹی جیل پہنچائے گئے ہیں، کل صبح عدالت میں پیش کئے جائیں گے۔‘‘
’’تو مجھے چلنا چاہیے۔ کل تڑکے سویرے شاید ملاقات کا موقع ہو۔‘‘
’’لیکن میڈم آپ تو ’’نکسل آندولن میں عورت کے استھان‘‘ پر کام کررہی ہیں۔ جہاں تک میں جانتی ہوں اس گرفتاری میں ایک بھی عورت نہیں ہے۔‘‘
رابعہ نے رُک کر آئی اے ایس لڑکی کو دھیان سے دیکھا۔ کیوں عورت بھی یہی سمجھتی ہے کہ اس کا ہونا یا نہ ہونا، اس کی موجودگی پر منحصر کرتا ہے۔’’کیا آپ ایسا سمجھتی ہیں کہ جسمانی طور پر موجود ہونے پر ہی عورت اپنے وجود کا احساس کراسکتی ہے؟‘‘
لڑکی رابعہ کی طرف طنز سے مسکرائی جیسے وہ کہہ رہی ہو۔۔۔ ’’آپ مصنف ہیں۔ بے سرپیر کی باتیں کرنا کا آپ کو پورا حق ہے۔‘‘
ڈی سی کے فون اور اپنی پہلے سے کچھ جان پہچان ہونے کی وجہ سے رابعہ کو کھونٹی جیل میں جانے کی اجازت مل گئی۔ کھلے میدان کو پار کر کے، اس لال چوکور عمارت کی چار دیواری میں گھستے ہوئے رابعہ کو یاد آیا کہ کرانتی کاری بر سامنڈا کو بھی پہلی گرفتاری پر اسی جیل میں رکھا گیا تھا، رانچی جیل بھیجنے سے پہلے۔
جیلر ایک بنگالی صاحب تھے، تمیز دار، باقاعدہ، خوبصورت او رکچھ ساہتیہ او رکلا کی طرف جھکاؤ رکھنے والے۔ کمرے کی دو کرسیوں میں سے ایک پر رابعہ کو بٹھاتے ہوئے انہوں نے ایک سپاہی کو حکم دیا۔۔۔’’کل رات والوں کو یہاں بلاؤ۔‘‘
’’آپ بُرا نہ مانیں تو میں ہی اندر چلی جاؤں۔ویسے بھی ابھی بہت سویرا ہے۔‘‘
آدی واسی علاقہ ہونے کی وجہ سے آج بھی یہاں جرم کم ہے اس لئے انگریزوں کی آدھے ایکڑ پر بنی چھوٹی سی جیل کو بڑھایا نہیں گیا ہے۔ آج بھی یہ آدھے سے زیادہ خالی رہتی ہے۔ ایک دن میں چودہ قیدیوں کا لایا جانا اس جیل کو بھی حیران کرگیا ہوگا اور اگر اینٹوں پتھروں کو یادرہتا ہے تو اس عمارت کو بھی یاد دلارہا ہوگا کہ جب برسامنڈا اور اس کے بائیس ساتھی 1894ء میں یہاں لائے گئے تھے۔
گلابی جاڑوں کی ہلکی دھوپ میں وہ چودہ لوگ زمین پر گول دائرہ بناکر کچھ سمجھا رہا تھا۔ وہی ان کا سرغنہ لگتا تھا۔ جیلر نے اسی سے بات کی۔۔۔‘‘ توکامریڈ، اسٹڈی سرکل جاری ہے۔‘‘
’’کیا کریں، آپ نے تو کسی کام پر ہمیں لگایا ہی نہیں۔‘‘
’’کیسی بات کرتے ہیں کامریڈ۔ آپ لوگ ڈیٹینو ہیں۔ آپ سے کام کروا کر مجھے مرنا ہے۔ کل آپ کی بھی تو سرکار بن سکتی ہے۔‘‘
’’اس لئے کل رات ہم سب کی جم کر دھنائی کی گئی؟‘‘
’’اب کیا کیا جائے کامریڈ۔ آپ لوگ پولیس والوں پر گولیاں برسائیں گے، گوریلا وارفےئر کے نئے نئے طریقے اپنا کر، مائنز بچھا کر، سرکاری جیپوں کے قافلے اڑادیں گے اور آپ میں سے کچھ اگر ہمارے ہاتھ لگ جائیں تو ہم انہیں ماریں بھی نا؟‘‘ جیلر مسکرائے۔
’’یہ تو مرغی پہلے یا انڈا پہلے والی بات ہوگئی۔ آپ ہم پر اتیاچارکریں، مہاجنوں کا ساتھ دیں، ہماری لڑکیوں کو اٹھائیں، ہمارے جنگل دخل کریں او رہم چپ رہیں۔ وہ سب نہ کریں جو آپ گنوا رہے ہیں۔ پہلے آپ نے جنگل اجاڑے یا پہلے ہم نے نگر برباد کئے۔۔۔
آپ؟‘‘ اس نے رابعہ کی طرف سوالیہ نظر اٹھائی۔
’’رابعہ جی یہ مہر ہیں۔ یہ رابعہ صداقت، آپ لوگوں سے ملنا چاہتی ہیں۔‘‘
’’کیوں! ہم لوگ جنگل سے پکڑے کوئی نئے ’’اسپیسیز‘‘ تو نہیں ۔۔۔ سگریٹ دیتے جائیے۔‘‘ مہر نے جاتے ہوئے جیلر سے کہا۔
رابعہ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھا۔۔۔’’لال سلام کامریڈ۔‘‘
مسکراتے ہوئے مہر نے دنوں ہاتھ چوڑ کر نمسکار کیا۔۔۔ ’’کسی آندولن کو ختم کرنے کا سب سے اچھا طریقہ اس کے ’’سلوگن‘‘ کو چرالینا ہوتا ہے۔
’’اتنی بڑی ڈکیتی کر پانے کا مجھ میں نہ تو ہمت ہے نہ صلاحیت۔‘‘ رابعہ نے ان کے پاس زمین پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
جیلر اسے ذرا حیرانی سے دیکھتا ہوا واپس دفتر چلا گیا۔ ابھی ان لوگوں کی پیشی سے پہلے اسے بہت کام تھا۔ ان میں سے کسی کے لئے’’بیل کی اپیلی کیشن‘‘ نہیں ہوں گی لہٰذا اسے اس وقت کی بھی تیاری کرنی تھی جب انہیں الگ الگ جیلوں میں بھیجا جائے گا۔
اس کے چلے جانے کے بعد رابعہ نے ان باقی تیرہ لوگوں پر نظریں گھمائی۔ مہر کو چھوڑ کر باقی سب آدی واسی تھے، منڈا، اراؤں اور شاید اکادھ کھسیہ بھی۔ پھر اچانک اس کی نظر گھومتے گھومتے ایک کم عمر لڑکے پر رُک گئی۔ اس نے کوشش کی کہ وہ آگے بڑھے لیکن نظر تھی کہ بار بار اس لڑکے پر لوٹ آتی تھی۔ کیوں؟ کیا اس لئے کہ اس کی شکل دوسروں سے الگ تھی۔ رنگ اس کا بھی سیاہ تھا لیکن اس میں سنہری ریت کی سی چمک تھی۔ لمبی سی ستواں ناک، بڑی بڑی، ذراپریشان سی آنکھیں جو بار بار مہر پر ٹک جاتی تھیں۔ نارنگی کی پھانک جیسے تراشے ہونٹ، کانوں میں چاندی کے بالے اور سر پر۔۔۔ ہاں اسی وجہ سے تو وہ الگ لگ رہا تھا۔ باقی سب کی پگڑیاں سفید تھیں اور چھوٹی تھیں۔ اس کی چٹک لال رنگ کی پیچدار پگڑی جیسی گجرات یا راجستھان۔۔۔ ٹھیک ٹھیک، وہ شکل سے ہی راجستھانی لگ رہا تھا۔
خود پر رابعہ کی نظر گڑی ہوئی دیکھ کر ایک پل کو اس کی بڑی بڑی آنکھوں نے ٹھہر کر ذراسی حیرانی دکھائی، پھر واپس مہر کی طرف مڑکر اس سے سہارا مانگنے لگا۔ مہر کی آنکھوں نے اسے حوصلہ دلاتے ہوئے ایک ہلکا سا اشارہ زمین پر بنی ہوئی لکیروں کی طرف کیا جسے ایک اور قیدی جلدی جلدی مٹا رہا تھا۔
رابعہ مہر سے بولی۔۔۔’’آپ کا ساؤدھانی برتنا جائز ہے۔ میں آپ کو ایسا کوئی ثبوت بھی نہیں دے سکتی ہوں جس سے آپ کو بھروسہ ہوجائے کہ میں جاسوس نہیں ہوں۔ بس اتنا کہوں گی کہ میرا مقصد آپ نہیں ہیں۔ میں آدی واسی آندولن میں عورتوں کے مقام پر کام کررہی ہوں۔ ایک کتاب لکھنا چاہتی ہوں۔‘‘
مہر مسکرایا۔ زمین پر ساری لکیریں مٹ چکی ہیں، یہ دیکھ کر اس نے ایک سگریٹ ڈبیا میں سے نکالی اور سلگاتے ہوئے بولا۔۔۔’’ہاں مہاشویتادیوی نے گیان پیٹھ اور دوسرے پُر سکا جیت کر آدی واسیوں پر لکھنا فائدے کا سودا بنادیا ہے۔ سنتے ہیں، بیچ میں پلاننگ کمیشن کی ایڈوائزربھی تھیں۔ آپ کہاں تک پہنچنا چاہتی ہیں؟‘‘
’’پہنچنا تو آدی واسی عورتوں کی مانسکتا تک ہے، لیکن وہ بہت دور کی منزل ہے۔ ابھی تو اس لڑکے کے بارے میں ہی بتادیجئے۔ کے نام سے تھا رو؟‘‘
’’منّے پنّا لال کہیں سے۔‘‘ وہ لڑکا مہر کے اشارہ کرنے سے پہلے بولا۔ اس کی آنکھوں میں وہ خود اعتمادی اتر آئی تھی جو کسی پرائی کی بولی میں اپنی مٹی کی خوشبو پہچان لینے سے آتی ہے۔
’’آپ اس کے علاقے کی ہیں؟‘‘ مہر کا دماغ تیزی سے دوڑ رہا تھا۔
’’کہہ نہیں سکتی۔ ابھی تک تو ٹھیک سے بات بھی نہیں ہوئی ہے۔۔۔ آپ کی وجہ سے۔‘‘ اس کے طنز پر مہر نے جھنجھلا کر سگریٹ زمین پر رگڑ کر بجھایا۔۔۔’’طنز او رشکوہ بعد میں کریں گے، اگر میرے لئے کوئی بعد ہوا۔ آپ اگر مخبر نہیں تو ہماری ایک مدد کیجئے۔ یہ لڑکا ہمارا کامریڈ نہیں ہے۔ تین مہینے پہلے ہی آکر ہم سے ملا ہے۔ ہم میں سے کسی کی ضمانت نہیں ہوگی۔ کوئی مانگے گا بھی نہیں۔ آپ بعد میں اس کو اس کے ٹھکانے پہنچا دیجیے۔‘‘
رابعہ نے ہاتھ اُٹھاکر ان کے جملے کو بیچ میں روک دیا۔۔۔’’کیا مطلب ہے آپ کا۔۔۔ اگر آپ کے لئے کوئی بعد ہوا؟‘‘
’’میرے خلاف بہت سے کیس ہیں۔ تین تو پولیس والوں کے خون کے ہی ہیں۔ کئی او رکیس پولیس’’سولبھ‘‘ کر پانے کی شاباشی کے لئے میرے سرمڑھ دے گی۔ مقدمہ اپنے انجام تک پہنچا تو مجھے سزائے موت ہوگی۔ چونکئے مت، مجھے پھانسی نہیں ہوگی۔ مقدمہ ختم ہونے سے کافی پہلے، میں جیل توڑ کر بھاگ نکلوں گا۔۔۔ ایسا بیان پولیس والے جاری کریں گے۔ پیچھا کرتے ہوئے پولیس والے مجھے رکنے کو کہیں گے اور میرے ایسا نہ کرنے کی صورت میں’’انکاؤنٹر‘‘ میں میری موت ہوگی۔ اس لئے وقت بہت کم ہے؟ آج ہی ہم لوگوں کو الگ الگ کر دیا جائے گا۔ کورٹ لے جانے والی گاڑی آنے سے پہلے پنّا سب کچھ سمجھ لے تو اچھا ہے۔‘‘
’’پنّا، تیرا نام دیوی پرساد ہے۔ یہی نام یہاں رجسٹر میں بھی درج ہے۔ گاؤں کے آس پاس کے گاؤں کا نام بتانا اور جہاں تک ہوسکے سچ بولنا۔ کہنا کہ باپ کے پنڈدان کے لئے گیا جارہا تھا۔ گاڑی خراب ہوگئی۔ تو ویسے ہی نیچے گھومنے اُترا اور گاڑی اچانک چل دی۔ تودوڑا بھی لیکن چڑھ نہیں پایا۔ پھر جنگلوں میں بھٹکتارہا او رہم سے ٹکرا گیا۔ گاڑی کے خراب ہونے کی تاریخ، جگہ وغیرہ صحیح بتانا، وہ جانچ لیں گے۔ اور باقی سب باتوں پر بھی وشواس کرلیں گے۔ کہنا کہ تجھے پتہ نہیں تھا کہ ہم کون ہیں۔ کل ہمارے ساتھ پکڑا گیا تو تجھے پتہ چلا۔ تجھے زیادہ سے زیادہ چھ مہینے کی قید ہوگی۔ کاٹ لینا۔ وہاں سے نکل کر دیکھنا تو کیا کرنا چاہتا ہے۔ چھ مہینے بعد بھی اگر تیرا مقصد وہی رہے جو آج ہے تو تجھے کہاں پہنچنا ہے وہ ابھی سمجھایا اور اگر اپنے گاؤں لوٹنا چاہے تو ان کو کہنا، یہ بیکانیر کی گاڑی میں بیٹھا دیں گی۔ مجھ سے اب ملنا نہیں ہوگا۔‘‘
مہر مڑ کر دوسرے ساتھیوں سے منڈاری میں بات کرنے لگا۔ رابعہ کی نظریں پنّا پر جمی تھیں جس کی بڑی بڑی آنکھیں مہر کے چہرے کے، شریر کے، ہر حصہ کو اس نظر سے دیکھ رہی تھیں جیسے اسے اپنے دل میں نقش کرلینا چاہ رہی ہوں۔ کیسی جلن تھی ان آنکھوں میں جن میں اب کبھی آنسو نہیں آئیں گے، جو پتھرائیں گی یا نرجیو نہیں ہوگی، بس جیون کا احساس لئے دھڑکتی رہیں گی۔ جن میں کچھ کر ڈالنے کی للک اس ویران کو ہمیشہ پیچھے ڈھکیلتی رہے گی۔ جس کی آہٹیں زندگی کے الگ الگ موڑوں پر بار بار دل میں اترنے کی کوشش کرتی ہیں۔
پھر جیلر اور اس کے ساتھ تین چار سپاہی آگئے او رمہر ہنس کر بولا۔۔۔’’چلا بھائی، شاہی سواری آگئی ہے۔‘‘
جیلر زمین کی طرف دیکھتے ہوئے بولا،’’سب کو نہیں، ابھی صرف آپ کو ہی جانا ہے۔‘‘
مہر کا چہرہ گمبیھر ہوگیا، پھر ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کی آنکھوں تک آئی اور اوجھل ہوگئی۔۔۔’’تو آج ہی ہوجائے گا انکاؤنٹر۔ جج پر بھروسہ نہیں یا وقت برباد نہیں کرنا چاہتے۔ کیا کہیے گا؟ کہ میں کورٹ لے جاتے وقت بھاگ نکلنے کی کوشش کی۔ جو بھی کہیں، میں تو سننے کے لئے رہوں گا نہیں۔ ٹھیک ساتھیو۔۔۔ لال سلام، آگ بجھنے نہ پائے۔‘‘
بارہ آدی واسی اسے ایک ٹُک دیکھ رہے تھے۔ انہیں اپنوں کو قربان کردینے کی عادت تھی، ویسے ہی جیسے’’دیکو‘‘ کے ہاتھوں مارکھانے کی، اپنی زمین ہڑپ جانے کی، جنگل کے بارے میں اوٹ پٹانگ قانون تھوپے جانے کی۔’’دیکو‘‘ نے تو ان کے بھگوان تک کو دخل کرلیا۔ لیکن پنّا ان میں سے نہیں تھا۔ اچانک ایک چیخ سنائی دی جو کئی پل جیل کے احاطے میں استبدھ رہی۔’’بھئی سا۔۔۔‘‘ وہ دوڑکر مہر سے لپٹ گیا۔ مہر نے اسے زور سے بھینچ لیا اورا س کے کان میں پھسپھسایا۔ ’’جیسا کہا ویسا کرنا۔ اب جا۔‘‘ اسے دھکیل کر مہر تیزی سے باہر نکل گیا۔
*
اگلے دن ایک مہر مشرا کی انکاؤنٹر میں مارے جانے کی خبر چھپی۔ پولیس اسے کورٹ لے جارہی تھی کہ اس نے بھاگنے کی کوشش کی اور لاچار پولیس کو فائر کرنا پڑا۔ اس کے بعد مہر کے جرائم کا خلاصہ تھا او رپولیس کی تعریف جو اتنے خطرناک نکسل وادی کو پکڑ بھی پائی او رمار بھی سکی۔ پنّا کو چار مہینے کی جیل ہوئی۔ رابعہ واپس اپنے گھر چلی آئی اور اس کے چھوٹنے سے ایک دن پہلے کھونٹی آگئی۔ اب تک اس نے کچھ اورسمپرک اس علاقے میں بنالیے تھے اور چارڈنام کے برسائت گاؤں میں ٹھہری تھی۔
پنّا کے چھوڑے جانے کے وقت وہ کھونٹی گئی او رمہر کی بات یادرکھتے ہوئے جہاں تک ممکن ہوسکا سچ بولی۔ اس کا نانکا اجمیر، راجستھان میں تھا۔ نانامےؤ کالج میں پڑھاتے بھی تھے اور ٹونک میں ایک چھوٹی سی زمینداری بھی تھی، پنّا کاخاندان بہت پہلے ان کے کاشتکار تھے، اسی لئے جب اس سے چار مہینے پہلے ملنا ہوا، اور سب پتہ چلا تو آج وہ اسے لینے آگئی۔ راجستھان سے یہاں جھاڑ کھنڈاس کے آنے کی کیا وجہ تھی اسے نہیں معلوم، مگر یہ بات تو جیلر نے بھی مانی کہ لڑکا سیدھا سادھا او راچھا تھا۔
جیل سے نکل کر کھونٹی میں اسے کھانا کھلاتے ہوئے رابعہ نے اسے بتایا کہ وہ اس کے ساتھ دلّی جانے والا ہے اور اس کے بعد وہ اسے بیکانیر جانے والی گاڑی میں بٹھادے گی۔ وہ چپ چاپ سنتا رہا۔ کھانا ختم کرلینے کے بعد بولا۔۔۔’’آپ نے اپنی طرف سے تو ٹھیک ہی کیوسے بائی سا، پر منے تو مہر بھئی ساکی ڈگر پکڑنی سے۔‘‘
’’کیوں تھارے گھر گرا میں کوئی نہ سے؟‘‘ رابعہ نے سوال کیا۔
’’ہے نہ بائی سا۔ چھوٹو بھائی سے، بہن سے، چار بیگھے زمین سے، مائی بھی سے۔‘‘
’’تب! اور باپو؟ باپونہ سے تھارے؟‘‘
’’باپو کا پنڈدان کرنے تو گیا جارہے تھے، میں او رمائی۔‘‘
’’ایک بات بتا پنّا، تیری اتنی سی تو زمین ہے۔ گھر دُوار بھی چھوٹا ساہی ہوگا۔ ریگستان کی زندگی، کیا بچتا ہوگا۔ تو اپنی باپوکا پنڈکرنے ٹونک سے اتنی دور گیا کیوں جارہا تھا؟‘‘
’’اس کی اکال مرتیوتھی نابائی سا۔ وہ تو بڑوٹاٹھاں تھا، مرنے کو کوئی نا تھا۔ ریگستانی اونٹ۔ چار چار آدمیوں کاکام اکیلے کرتا تھا او رسب کرکے ، تھک ہار کے، راون ہتھالے کر بجاتا او رتڑکے سویریے تک مانڑھ گاتا۔‘‘
’’تو پھراچانک کیا ہوا؟‘‘
’’پانی کوئی نہ سے مہاری زمین پر۔ جتنا اوپر سے گرے ہے بس وہی سے گجارے کو۔ پھر ایک دن کچھ سرکاری لوگ آئے جی۔ مہاری پنچایت کے سنگھ گھنی بات کری۔ پانی کی نہر نکلنی تھی اور گاؤں مہارا اس کے راستے میں تھا۔ تو جی گاؤں کو ہٹنا تھا۔ سرکار ہمیں تھوڑی دور بسانے کو اور راتی ہی زمین دینے کو راضی تھی۔ پروہ تھا جنگل جسے ہمیں صاف کرکے اپنے برابر کی زمین گھیر لینی تھی۔ اور جی ہمیں مفت پانی دینے کا وعدہ بھی کیا۔ جس دن مہارے گاؤں کو ڈھانے کاکام سرکار چالو کرنے والی تھی، اس سے پہلی رات باپوسویرے تک راون ہتھا بجاکرنا چتا رہا، گاتا رہا۔ خوب پی جی سب نے۔ گاؤں اجڑنے کا جشن بھی منتا ہے یہ اور کہیں نہیں سنا ہوگا جی آپ نے۔ پھر ہم دومیل دور، نئی جگہ چلے گئے۔ جنگل صاف کرکے، گھر کی چھپّر ڈال کے ہم پانی کی ہاٹ جونے لگے۔ پانی کے درس میں چھ سال بیت گئے۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہو، راجستھان والی نہر تو کب کی بن گئی۔‘‘
’’بن تو گئی جی پر ہمیں پانی کوئی نہ ملیا۔ پینے کا پانی بھی چار میل دور ہوگیا۔ مائی چار مٹکے بھر کر لاتی روز؟‘‘
’’اور پنچایت، انہوں نے کچھ نہیں کہا؟‘‘
’’کہا جی، ٹونک تک گہارلگائی۔ جب نہرمہارے سامنے سے بہہ رہی ہے تو مہارے لئے پانی نہ چھوڑنے کا کے مطلب سے۔ دفتر کا بابوبولیا، مفت میں پانی کوئی نہ چھوڑیں گے۔ ڈیڑھ لاکھ کا انتظام کرو اور بڑے بابو سے سنوائی کا الگ۔ نئی زمین بنجر ہونے لگی، مائی کی صحت گرنے لگی، پھر بھی وہ جنگل سے کھانے کا جگار کرتی، باپو گلّے پالتا۔ پھر جی، الیکشن آیا اور راج کماری جی مہارے اوہاں بھی آئی ووٹ مانگنے۔ ہم سب دیکھنے گئے۔ کبھی راج کماری دیکھی نہیں تھی۔ راج کماری جی پانی پر بڑا بولی۔ بولیا ایسی سرکار جو ہمیں پانی تک نہیں دے سکتی اسے مار بھگانا چاہیے۔ سرپنچ ہم سے بولا کہ ہم تو راجاؤں کے سمے ہی سکھی تھے۔ چلو، اسی کو ووٹ دیں۔ مانگ بھی کیا رہی سے، کوئی مہارے گھر دُوار، کپڑے لتے تو نہیں۔ پتا چلیاراج کماری جیت کررانی بن گئی۔ باپو نے حل کو دھار دی۔ سب بڑے بابو کے پاس پہنچے، پوچھنے کہ پانی کب چھوڑا جائے گا۔ بابو بولا۔۔۔’’کون سا پانی؟‘‘ سرپنچ بولا۔۔۔’’وہی جو راج کماری جی نے دینے کا وعدہ کیا تھا۔‘‘
بابو بولا۔۔۔’’ٹکالائے ہو؟‘‘
سرپنچ بولیا۔۔۔’’کون سے پیسے، راج کماری نے مفت پانی دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ہم نے اس کے بدلے میں ووٹ دیا تھا۔‘‘
بابو خوب ہنسا بولا۔۔۔’’واہ رے ٹھگ! مفت کے ووٹ کے بدلے لاکھوں کا پانی، سودکا در تو دیکھو۔‘‘
باپویا تو ہنس مکھ مست یا غصیل زبردست۔ اسے کوئی ٹھگ کہے اور وہ چپ سن لے! اس نے بڑے بابو کا گلا پکڑلیا۔ اس کے بعد تو جی کیا پوچھنا، حکم سرکار، چھوٹے حکم سرکار سب نکل آئے۔ سرپنچ نے ییچ بچاؤ کروایا۔
یہ سب بات چیت چل رہی تھی کہ چار پانچ گاؤں سے بھی لوگ آگئے، نئی سرکار کو اس کے وعدے یاد دلانے۔ شام ہوتے ہوتے بڑے حکم سرکار کے دفتر کے سامنے ہزاروں آدمی جمع ہوگئے۔ پھر تین چار ٹرک بھر کر پولیس بھی آگئی اور ہمیں گھیر کر کھڑی ہوگئی۔ بڑے حکم سرکار باہر آئے اورکھلا ہاتھ۔۔۔ نچا نچا کر کہنے لگے۔۔۔’’میں کچھ نہ کرسکتا، میرے ہاتھ بندھے سے، میری مجبوی سمجھو، اپنے اپنے گھر جاؤ۔‘‘
اب جی چھ سال تو پانی ملنے کی آس میں کاٹ دیے۔ مہاری اپنی زمین پر بنی نہر ہمیں ہی پیاسا رکھے تھے۔ بڑے حکم کی ایسی بات سن کر کچھ لوگ چلانے لگے، کچھ آگے بڑھنے لگے۔ پولیس نے گھیرا ڈال کر ہمیں پیچھے دھکیلا۔ کچھ بوڑھے لوگ گرگئے۔ پھر کیا تھا جی، جوان لڑکوں نے بھی لاٹھیاں تان لیں او رلڑنے کو تیار ہوگئے۔ ایسے میں نہ جانے کہاں سے ایک بھنبھناتا ہوا پتھر آیا اور بڑے حکم کے ماتھے پر لگا۔ بھل بھل کر کے اپنا خون بہتا دیکھ وہ چیخنے لگا۔۔۔’’فائر۔ فائر!‘‘ پہلے تو جی میں سمجھا’’’فائر فائر‘‘ مطلب’’خون خون‘‘۔ پھر جب دھوم دھوم آواز آئی اور میرا باپو کھڑے سے ایک دم زمین پر گر گیا اور اس کی چھاتی سے نکلتا خون اس کے سفید کرتے پر لال دھبّے بن کر پھیلتا ہوا سنہری ریت پر رسنے لگا جب سمجھ میں آیا ’’فائر‘‘ مطلب بندوق چلانا۔ پانی کے لئے سات لوگوں نے جان دی، ستائیس گھائل ہوئے۔
ساتوں کو پھونکنے کے بعد، برہمن بولیا۔۔۔’’پنّا، تیرے باپو کی اکال مرتیوہوئی سے، اس کی مکتی نہیں ہوگی۔‘‘ یہ سن کر مائی آنگن میں لوٹنے لگی۔ بولی۔۔۔’’جیسے بھی کرو، اس کو مکتی دلاؤ چائے مہارا سب کچھ لے لو۔‘‘ پنڈت بولیا۔۔۔’’لین دین کو تیرے پاس بچاہی کیا سے۔ کرسکے تو چھورے کے ہاتھ سے گیا میں پنڈدان کرادے۔ اس کی مکتی کا یہی ایک اُپائے سے۔‘‘
مائی او رمیں گیا چل پڑے۔ پہلے دلّی، پھر وہاں سے کلکتہ کی گاڑی پکڑی۔ ٹکٹ خریدے، کبھی بنا ٹکٹ، بھرے ڈبّے میں گٹھری بنے بہار پہنچے۔ رات کا کوئی ایک بجا تھا کہ گاڑی اچانک رُک گئی۔ مائی سورہی تھی او رمیں بھی اونگھ رہا تھا۔ باہر دیکھا تو اسٹیشن نہیں گھنا، جنگل تھا۔ ساتھ کے کچھ اور لوگ بھی جگ گئے اور سارے ریلوے گارڈ نیچے اُتر آئے۔ ایک بابو جی جو بہار کے ہی تھے او رچھٹ پوجا میں گھر جارہے تھے بتانے لگے کہ یہ سہسرام کا علاقہ ہے او ریہ اُگووادیوں کا علاقہ ہے۔ پہلے تو بات کچھ میرے پلّے نہیں پڑی کیونکہ وہ ایک لفظ بار بار دو ہرار ہے تھے۔۔۔ نکسلی۔ پھر اسی کے ساتھ ایک او رلفظ بولنے لگے۔۔۔ ماؤ وادی۔ ویسے یہ بڑے بابو بڑے شریف تھے، مائی کو ماتا جی او رمجھے بیٹا کہہ رہے تھے۔ سوچاان سے پوچھنے میں کچھ ہرج نہیں کہ یہ نکسلی او رماؤدادی کون ہوتے ہیں۔ بہت کچھ جو انہوں نے بتایا وہ میرے پلّے نہیں پڑا۔ بس اتنا سمجھ میں آیو کہ یہ لوگ پولیس والوں کو مارتے ہیں۔ آج ٹرین کی پٹری پر پیڑکاتنا بھی انہیں لوگوں نے پھینکاتھا۔ ایکسیڈنٹ ہوتا اگر ڈرائیور اتنا چوکس نہیں ہوتا اور وقت پر گاڑی روک نہ دیتا۔بیچ بیچ میں ایک مدھم سی روشنی دور جنگل میں دکھائی دیتی او رغائب ہوجاتی۔ میری آنکھوں کے سامنے ان پولیس والوں کے چہرے ناچنے لگے جو ہم لوگوں کو پانی کی جگہ گولیاں دے رہے تھے، پھر باپو کے درد سے بھنچے ہوئے ہونٹ اور وہ انگلیاں جو راون ہتھا کے تاروں پر ایسی نازکی سے ناچتی تھی، آج کیسی آکلتا سے اپنی مٹھی میں ریت بھینچ کر، دھرتی سے اپنا سمپرک بنائے رکھنا چاہ رہی تھیں اور دھرتی تھی کہ بابو بن کر انگلیوں سے پھسل جارہی تھی۔
پتا نہیں کب میں گاڑی سے اتر آیا او رجہاں روشنی دکھی تھی اس طرف چل پڑا۔ جنگلوں میں بہت انتر نہیں ہوتا اور میں راجستھان کے جنگلوں کے انداز میں چل پڑا۔ کوئی دو گھنٹے بعد مجھے پیچھے سے کسی نے دبوچ لیا اور چلّانے سے پہلے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا۔ میری آنکھوں پر پٹّی باندھ کر بڑی دور لے گئے۔ بس، اور بتانے کے لئے کچھ نہیں ہے۔‘‘
’’اور یہ جو تو پکڑا گیا؟‘‘
’’یہ تو پہلے ہی مہر بھائی سانے کہہ دیا تھا۔ تین مہینے میں چار بار ہم پکڑے جانے کے قریب تھے۔ مہر بھائی ساکی ہوشیاری سے بچ گئے۔ میں نے سب سیکھ لیا ہے جی او ریہ بھی سمجھ لیا ہے کہ اگر میں پولیس کو مار پایا تبھی میرے باپو کی مکتی ہوئے گی۔‘‘
’’لیکن پنّا، یہاں کی پولیس تو ٹونک کی پولیس نہیں ہے جس نے تیرے باپو کو مارا۔‘‘
’’سب پولیس ایک ہے۔‘‘
اس کا رابعہ کیا جواب دیتی۔ کچھ دیر تک چپ رہی پھر بولی۔۔۔’’لیکن تُو ان تک پہنچے گا کیسے؟‘‘
’’مہر سانے راستہ بتادیا ہے۔‘‘
’’اور تیری مائی؟ اس کا کیا؟‘‘
’’اس نے جیون بھرگنوایا ہی ہے۔ کھونے کی اس کی عادت ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے ابھی سوجا، صبح بات کریں گے۔‘‘
رات کو پتا نہیں کب وہ اُٹھ کر چلا گیا۔ نہ جانے اس نے بم بنانا، گولی چلانا، یا لائن بچھانا سیکھا تھایا نہیں۔ لیکن ایک بات اس نے ضرور سیکھ لی تھی۔۔۔ کسی باہر والے پر بھروسہ نہ کرنا۔
*
رابعہ کونوئیڈا کے اس فلیٹ میں بسے ہوئے کوئی اٹھارہ برس ہوگئے تھے۔ ان اٹھارہ برسوں میں اس کی مرثیہ پڑھنے کی دھاک یہاں کے شیعہ مسلمانوں میں بن گئی تھی ۔ محرم کے آٹھ دن اس کے پاس مجلسیں پڑھنے کے بلاوے آتے۔ کبھی کبھی شام کو دو دو مجلسیں پڑھتی۔ اکثر لوگ اس کے مطابق مجلس کا وقت رکھتے۔ امام حسین اور ان کے پورے خاندان کا، جس میں عورتیں او ربچے بھی تھے، مکہ سے شام(عراق کا ایک شہر) کے لئے چلنا اور کربلا ندی کے کنارے پڑاؤڈالنا۔ ریگستان کی تپتی گرمی میں، زور وابرسے بنے خلیفہ یزیدکا،ندی کے کنارے پہرا لگادینا او رشرط رکھنا۔۔۔’’حسین یزید کو خلیفہ منظور کرے یا جان سے ہاتھ دھوئیں‘‘ او رحضرت حسین کا کہنا ہے کہ خلیفہ کا جمہوری چناؤ ہونا چاہیے، اسے زبردستی چھیننا اسلام کے خلاف ہے۔ حسین کا چھ مہینے کے اصغرکو گود میں لے کر، فوج سے اس کے لئے پانی کی بھیک مانگنا او رایک سپاہی کا اس ننھے سے بچے کی گردن پر تیر چلانا او رحسین کا اس جھلستی ریت کو کھود کر اپنے ننھے سے بیٹے کو دفن دینا۔
امام حسینؓ کی عظیم قربانی کی داستان سنانارابعہ کو اچھا لگتا تھا۔ آنے والی نسلیں یاد رکھیں اس آدمی کو جس نے غلط بات پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے موت کو چنا۔ اس سال بھی بلاوے بہت آئے لیکن اس نے کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر انہیں نامنظور کردیا۔ محرم کے سات دن اس نے اکیلے گزار دیے۔ لیکن آج اس کی چھوٹی نند کے گھر پر مجلس تھی۔ انکار کر پانا مشکل تھا۔ کاغذ قلم لے کر وہ بیٹھی تو تھی، کہ کیا کہے گی اس کے کچھ پوائنٹ بنالے۔ مگر بار بار اس کے دل میں وہی سوال اٹھ رہا تھا۔۔۔ وہ کس کا سوگ منانے جارہی ہے، کس کی شہادت کا بکھان کرے گی، کس کی موت پر روئے گی؟ امام حسین کی؟ یا وہ اس کسان کے لئے سوگ منارہی تھی جو اپنی زمین پر بہتی نہر سے کچھ بوندیں اپنے کھیت کے لئے مانگنے گیا تھا۔ جسے اپنی زمین کا بنجر ہوجانا منظور نہیں تھا۔ جس نے ہاتھ پھیلائے، بھیک مانگی، گڑگڑایا او رجسے پانی کی جگہ گولی ملی۔ جس کے جسم سے خون بہت کم رسا اور ریتیلی زمین نے اسے بہت جلد سوکھ لیا۔ جس کا بیٹا ایک ایسی راہ پر چل پڑا تھا جس سے واپسی کا کوئی اُپائے نہیں تھا۔ جس کی شہادت کا اتہاس گواہ نہیں رہے گا کیونکہ وہ کسی پیغمبر کا نواسہ نہیں، ایک ادنیٰ سا معمولی کسان تھا۔
♦