امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دورہ سعودی عرب کے بعد اسرائیلی زمین پر پاؤں رکھتے ہی کہا کہ انہیں مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی نئی امیدیں نظر آرہی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب امن کا متضاد ابھی تک جنگ کو ہی کہا جاتا ہے تو پھر سعودی عرب کو 110بلین ڈالر کا جنگی سامان فوری فروخت کرنے اور آئندہ دس برسوں کے دوران 350 بلین ڈالر کے اسلحہ کی فراہمی جاری رکھنے کا معاہدہ کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی امیدیں کیسے نظر آرہی ہیں۔
اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ باتیں کسی کی سمجھ سے باہر ہیں توواضح رہے کہ امریکی صدر کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ جنہیں وہ اپنی باتیں سمجھانا چاہتے تھے اگرچہ وہ بھی کچھ سمجھ پانے سے قاصر ہیں مگر انہوں نے ایک سپر پاور کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخص کی ہاں میں ہاں ملا دی ہے۔ ویسے اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی باتیں کسی کی بھی سمجھ سے بالا ہیں تو اسے زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے متعلق مشہور ہے کہ وہ خود بھی زیادہ سوچ سمجھ کر باتیں نہیں کرتے۔
ہوسکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ یہ سمجھتے ہوں کہ جب امریکیوں سمیت دنیاکے لوگوں کی اکثریت سوچے سمجھے بغیر اپنے اہم ترین فیصلے کر گذرتی ہے تو پھر انہیں سوچنے سمجھنے جیسے کاموں میں الجھانے کی کیا ضرورت ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ لوگوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو کسی کھاتے میں لائے بغیر اس سعودی عرب میں اپنا اولین غیر ملکی دورہ کر نے چلے گئے جس کے متعلق چند ماہ قبل انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوراں نہ صرف انتہائی نامناسب الفاظ استعمال کیے تھے بلکہ امریکہ میں اس کے خام تیل کی درآمد کے تمام راستے مسدود کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران جب ٹرمپ نے سعودی عرب پر تحفظات کا اظہار کیا اس وقت سعودی عرب کے حریف ایران کو بھی ہدف تنقید بنایا تھا۔ سعودی عرب کو بے پناہ اسلحہ بیچ کر تو ٹرمپ اپنے تئیں امن کی راہ پر گامزن ہو گئے مگر ایران کے متعلق ان کے سوچ تبدیل نہیں ہوئی۔ ایران کے متعلق کسی کی سوچ میں جیسا بھی جمود ہوہو مگر انقلاب ایران کے کئی سال بعد اب ایسا لگ رہا ہے جیسے ایرانیوں کی اکثریت کی سوچ میں نمایاں تبدیلیاں آرہی ہیں۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کے دورے پر تھے اسی وقت ایران میں مسلسل غالب چلی آرہی قدامت پرست سوچ کو شکست دے کر حسن روحانی دوسری مدت کے لیے ایرانی صدر منتخب ہو ئے۔
اس سے قبل روحانی نے 2013 میں تبدیلی کے نعروں کے ساتھ صدارتی امیدوار کے طور پر اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تھا۔ حسن روحانی کو ایرانی عوام نے اس حد تک پذیرائی بخشی تھی کہ 1.42 فیصد ووٹوں کے معمولی فرق سے وہ 49.29 فیصد کے مقابلے میں50.71 فیصد ووٹ لے کر ایران کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ حسن روحانی جب پہلی مدت کے لیے صدر بنے تو ایران میں افراط زر کی شرح 40 فیصد تھے جسے وہ بہت جلد 10 فیصد تک لے کر آئے۔ان کی کامیاب مانیٹری پالیسیوں کی وجہ سے بین الاقوامی کرنسی مارکیٹ میں ایرانی ریال کی قدر مستحکم ہوئی۔ مغربی طاقتوں کے ساتھ جس جوہری معاہدے کے لیے بات چیت کا آغاز ہو چکا تھا روحانی نے اس عمل کو تیز تر کیا جس کے بعد 2015 میں یہ معاہدہ طے پانے کے بعد ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کا آغاز ہوا۔
اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کے بعد ایرانی خام تیل کی برآمد میں دوگنا اضافہ ہوا۔ ایران کے مبینہ ایٹمی پروگرام کی وجہ سے ایران پر جو معاشی پابندیاں عائد کی گئی تھیں ان میں سے بنکنگ کے شعبے کے علاوہ دیگر تمام پابندیاں2015 میں اٹھا لی گئی تھیں۔ روحانی کی حکمت عملی کی وجہ سے ایرانی تیل اور گیس کی مصنوعات کی پیداوار اور برآمدات میں اضافے کے ذریعے ملک کے ذرمبادلہ میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اقتصادی اور سماجی محاذوں پر کامیابیاں سمیٹنے کے بعد حسن روحانی نے ایک نئے عزم کے ساتھ دوسری مدت کے لیے 2017 کے صدارتی انتخاب میں اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔ اس دوران ملکی معیشت کے متعلق انہوں نے کھل کر کہا کہ سیاسی اور سیکیورٹی اداروں کے معاشی مفادات کی موجودگی میں ملکی معیشت آزادی سے ترقی کی جانب گامزن نہیں ہو سکتی۔
ا نہوں نے پنی خارجہ پالیسی یوں بیان کی ان کی سب سے بڑی خواہش ہے کہ ایران پر عائد تمام پابندیوں کا خاتمہ ہو مگرا س کے لیے درکار اقدامات پر عمل کی حتمی منظوری ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ انہوں نے علی خامنائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن کے ہاتھ میں ریاستی معاملات طے کرنے کا حتمی اختیار ہے وہ امریکہ سے معمول کے تعلقات قائم کرنا نہیں چاہتے۔
اپنی انتخابی مہم میں سماجی حقوق کی بات کرتے ہوئے روحانی کا کہنا تھا کہ وہ جنسی بنیادوں پر نہ تو کسی شہری سے امتیاز برتنے اور نہ استحصال روا رکھنے کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بلالحاظ جنس ہر شہری کے لیے مساوی حقوق پر مبنی نظام چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ شخصی آزادیاں اور معلومات تک رسائی ہر شہری کا حق ہونا چاہیے مگر یہ حق عوام کو دینا ان کے اختیار میں نہیں ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران حسن روحانی نے ایران کے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نوجوان نسل کی ترجیح آزادی اور ترقی ہے لہذا تشدد اور انتہاپسندی کے مبلغ سن لیں کے کہ نوجوان نسل انتخابات میں انہیں مسترد کر دے گی۔
حسن روحانی کے کہنے کے مطابق ایران کی نوجوان نسل نے عملاً تشدد اور انتہائی پسندی کو مسترد کیا مگر روشن خیالی کی طرف مائل ان نوجوانوں کو ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے اتحادی دوبارہ بنیاد پرستی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ جن اقتصاد ی پابندیوں کے خاتمے کے بعد ایران کی معیشت مستحکم ہونے سے وہاں کے عوام نے معتدل حسن روحانی پر زیادہ اعتماد کیا ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش ہے کسی بھی بہانے ایران پر ویسی پابندیاں پھر سے لاگو ہو جائیں۔ جو ایران تشدد، بنیاد پرستی اور انتہاپسندی کی فضا سے باہر آرہا ہے ڈونلڈ ٹرمپ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کا اس ایران کے متعلق کہنا ہے کہ یہ بین الاقوامی دہشت گردی کا سہولت کار ہے لہذا اس کے خلاف پھر سے اقتصادی پابندیاں عائد ہو نا چاہئیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے بیانات کے بعد اگر سعودی عرب کانفرنس میں بھی یہ کہا جائے کہ ایران دہشت گردوں کا سرغنہ ہے تو پھر حسن روحانی جیسا معتدل مزاج شخص بھی کہہ اٹھتا ہے کہ ریاض سربراہ کانفرنس کی حیثیت ایک شو سے زیادہ کچھ نہیں تھی اور کسی سپر پاور کو پیسے دے کر دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح کے تندو تیز بیانات کے ماحول اور اسلحہ ذخیرہ کرنے کی جاری دوڑ میں ڈونلڈ ٹرمپ کو حیرت انگیز طور پر مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی امیدیں روشن نظر آرہی ہیں۔ٹھہریں! کہیں حسب سابق یہاں بھی ٹرمپ کے بیان کو الٹ تو نہیں سمجھنا چاہیے؟کوئی دوسرا جیسے بھی سمجھے مگر یورپی یونین کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔
♦