بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں سپریم کورٹ کے احاطے میں اتوار کے روز اس متنازعہ مجسمے کو دوبارہ تعمیر کر دیا گیا ہے جسے چند روز قبل ہی ’غیر اسلامی‘ ہونے کی بنا پر ہٹا دیا گیا تھا۔
چند قدامت پسند مذہبی عناصر نے اس مجسمے کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے اسے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا جس پر حکام نے جمعے کے روز اس مجسمے کو تعمیر کے صرف چھ ماہ بعد ہی ہٹا دیا تھا۔
تاہم حکومتی اقدام کے بعد آزاد خیال تنظیموں نے شدید احتجاج کیا اور ان مظاہروں میں پولیس اور شہریوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔
یہ مجسمہ ساڑھی میں ملبوس خاتون کا ہے جس کی آنکھوں ہر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ مذہبی گروہوں کا کہنا تھا کہ ایک ’یونانی دیوی‘ کی عکاسی کرتی ہے۔
بنگلہ دیش سرکاری طور پر ایک سکیولر ملک ہے تاہم بڑھتے ہوئے اسلام پسند مذہبی رجحانات نے شہریوں کو پریشان کیا ہوا ہے۔ مجسمہ ساز میران الحق نے بتایا ہے کہ حکام نے انھیں یہ مجسمہ دوبارہ تاہم احاطے میں ایک اور مقام پر نصب کرنے کے لیے کہا ہے۔
اتوار کو خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ انھوں نے سرکاری احکام کے مطابق اس مجسمے کو سپریم کورٹ کے احاطے میں ایک اور مقام پر منتقل کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ چند ماہ قبل ڈھاکہ میں اعتدال پسند اسلامی گروپ ’حفاظت اسلام‘ کے ہزاروں حمایتیوں نے سپریم کورٹ کے باہر انصاف کی دیوی کے مجسمے کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔ انھوں نے متنبہ کیا تھا کہ اگر دیوی کے مجسمے کو نہیں ہٹایا گیا تو ملک بھر میں مظاہرے کیے جائیں گے۔
مظاہرین کے مطابق دیوی کا مجسمہ جو دسمبر میں سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر لگایا گیا ہے بت پرستی کے مترادف ہے۔مظاہرے میں شریک ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’مجسمے یا کسی قسم کے بت پر اسلام میں ممانعت ہے۔ ہمارے مذہب میں کسی قسم کے مجسمے کی جگہ نہیں ہے۔ اس لیے سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر اس مجسمے کی اجازت نہیں دے سکتے‘۔
BBC
4 Comments