ڈی اصغر
خوش آمدید رمضان۔ ایک اور رمضان المبارک آن پہنچا۔ الله تبارک تعالیٰ، ہم سب کو اس با برکت مہینے کی نعمتوں اور فضیلتوں سے مالامال فرمائے۔ آمین۔ ہمارےبھائی بند نہ جانے کیوں، اچھے بھلے رمضان جو کے ض سے ادا ہونا چاہیے، د سے ادا کرنے پر تل جاتے ہیں۔ رمادان مبارک، کیوں بھائی یہ اچانک آپ کو عربی بننے کا خیال کیوں آ جاتا ہے؟ کچھ کہیے تو بحث برائے بحث کا نا قابل تمام سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ بھائی پھر آپ کھجور کو کھجور مت کہیے تمور کہیے۔ رس کو رس مت کہیے شراب کہیے۔ شراب کے نام پر فور اً ناگواری کا اظہار ہوتا ہے۔اسی لئے یہ آدھے تیتر آدھے بٹیر کچھ جمتے نہیں۔
آگے بڑھتے ہیں۔ رمضان کا پہلا اشارہ چاند ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں چاند پر کبھی اتفاق نہیں ہوتا۔ آپ اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ صرف پاکستان میں ایسا ہوتا ہے۔، تو نہایت معذرت کے ساتھ جہاں جہاں ہمارے پاکستانی بھائی بستے ہیں، بشمول امریکا یہ مرض وہاں بھی پوری شدّت کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ ہمارے ایک مرحوم دوست بڑے ہی منفرد انداز میں یہ کہا کرتے تھے، کہ یہ مسلمان چاند پر تو اتفاق کر نہیں سکتے، یہ دنیا کی امامت کیا خاک کریں گے۔
الغرض ایک ایسی کشمکش رہتی ہے، ہر رمضان اور دونوں عیدین پر کہ خدا کی پناہ۔ معذرت کے ساتھ، یہ وضاحت بھی اب لازم ہو چلی ہے، جس خدا کا یہاں ذکر ہوا ہے، وہ الله رب العزت ہے۔ ورنہ بھائی لوگ اس بات پرفوراً اعتراض فرماتے ہیں، یہ تو فارسی کا لفظ ہے، اور کئی غیر مسلم بھی یہ لفظ اپنے اپنے معبودوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
کبھی آپ نے ان عالموں یا ملاؤں کو صفریا جمادی الثانی کے چاند پر بحث کرتے سنا ہے؟ ہر گز نہیں۔ مگر سارے کا سارا اسلام ان جلیل القدر علما کا بس ان تین ماہ یا بہت ہو گیا تو محرم کے چاند تک محدود ہے۔ اگر آپ سائنس یا محکمہ موسمیات کے حوالے یہ چاند کا حساب کرنا چاہیں تو یہ “بے تیغ سپاہی” اپنے عقیدے کا کوئی نہ کوئی سلسلہ ایسے بیان کرتے ہیں کہ، بندہ دل دل ہی دل میں کڑھتے ہوے یہ کہنے پر مجبور ہو جا تا ہے، “اب ان سے پنگا کون لے۔
اس گناہ گار کی نظر میں، یہ ماہ الله تبارک تعالیٰ نے انسان کی اندرونی بیٹری کو چارج کرنے کے لئے، مقرر کیا۔ ہے۔ گویا جتنا آپ اپنے نفس کو قابو کرنے کی کوشش کریں اتنا آپ کے لیے بہتر۔ بھوک اور پیاس کی حالت میں آپ کو دوسرے لوگ جو ان نعمتوں سے محروم ہیں، ان کی تکالیف سے روشناس کرواتا ہے۔ اس نقاہت اور کمزوری کو محسوس کر کے، آپ اپنے رب کی عطا کردہ مہربانیوں کے اور مشکور ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں اس قسم کا فلسفہ رمضان اب مفقود ہو چلا ہے۔ رمضان اب ایک نمائش اور کاروبار ہے اور ہم سب اس کے شکار ہیں۔
اشیائے خورد نوش سے لے کر ضرورت کی چیزیں بجائے سستی ہونے کے اور مہنگی ہو جاتی ہیں۔ بڑی ڈھٹائی سے منہ مانگے دام وصول کیے جاتے ہیں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے، ہم سے زیادہ سرمایہ دارانہ نظام کا کوئی حامی نہ ہوگا۔ ویسے آپ گھنٹوں ہم سے انگریزوں اور ان کے ایجاد کردہ سرمایا دارانہ نظام پر تبرّہ کروا لیجیے، مگر منافع اور وہ بھی نا جائز، پانچ یا چھ گنا زیادہ، اس کے ہم ماسٹر ہیں۔ حتیٰ کے حج ہو یا عمرہ، مقامات مقدسہ کی زیارات ہوں یا محرم الحرام کی محافل و مجالس، سب معاشیات کے بنیادی اصول یعنی مانگ اور فراہمی جسے انگریزی میں ڈیمانڈ اورسپلائی بھی کہا جاتا ہے، اس کا ہم خاص خیال رکھتے ہیں۔
یہ بھی آپ سنتے آئے ہوں گے کہ، اس ماہ شیطان مردود مقید کر دیا جاتا ہے۔ پر آپ اس کی چالاکی دیکھئے اپنا سارا نظام اپنے چیلے چانٹوں کے حوالے کر کے ہی، منحوس چھٹی پرروانہ ہو جاتا ہے۔ تبھی غور فرمایئے کہ اس کا کوئی کام معطل نہیں ہوتا۔ قتل، جنگ، چوری، لوٹ مار، عصمت دری، الغرض ہر گناہ کبیرہ اور صغیرہ اپنے حساب سے چلتا رہتا ہے۔ منافقت کے کیا کہنے، پوری آب و تاب سے نمایاں نظر آتی ہے۔ یہ ایساشعبہ ہے، جس کے ہم پاکستانی چیمپئن ہیں۔
ذرا یہ ٹی وی آن کیجئے، اور دیکھئے، کیسے مرد حضرات ہلکی داڑھی اور قومی لباس میں ملبوس اور خواتین حجاب مگر پورے میک اپ کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں۔ سب ایسے اپنے خالص مسلمان ہونے کا مظاہرہ کرتے پائے ہیں، گویا بس یہی اس ماہ کا اصل مقصد ہے۔ نمود نمائش اور مصنوعی مذہبیت کا پرچار قریب قریب ایک تماشے کی طرح ہوتا ہے۔ بیچ بیچ میں اشتہار ایسے چلتے ہیں کہ آنکھ کے روزے کا تو فی الفور ختم ہونے کا امکان رہتا ہے۔ ملا حضرات بھی لوگوں کے سوالات کا تسلی بخش جواب دینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اہل ایمان ایسے ایسے سوالات کی بوچھاڑ کرتے ہیں، کہ کیا کہنے۔ سحر اور افطار میں کوئی نہ کوئی خصوصی ٹرانسمیشن چلتی ہے اور اس کے لئے چنیدہ ما ہرین کا انتخاب ہوتا ہے۔ جو لفاظی اور بناوٹ کے اس گورکھ دھندے میں اچھی طرح ناظرین کو الجھا سکیں، وہ ان خدمات کے منہ مانگے دام پاتے ہیں۔
جیسے ہی چاند رات کا اعلان ہوتے ہی، یہ سب اپنی ٹوپیاں اور مصنوعی حجاب کو خیر باد کہتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ تمام حمد نعت کی محافل، رقص اور دھمال میں بدل جاتی ہیں۔ لوگ ایسے دکھائی دیتے ہیں کہ شاید رمضان کبھی ان کر چھو کر بھی نہ گزرا ہو۔ ایسا پانسا پلٹتا ہے، وہ بھی چند گھنٹوں میں کہ کیا کہنے۔
خدا بھلا کرے ضیاء مرحوم کا جنہوں نے احترام رمضان کا خصوصی قانون نافذ کیا ۔ اس کی بدولت روزے کے اوقات کے دوران کچھ کھانا پینا یا کھلانا پلانا قابل سزا جرم قرار دیے گیے ہیں۔ اب چاہے آپ مسافر ہوں، بیمار ہوں، یا غیر مسلم یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ آپ آخر دوسرے اہل ایمان کوکیوں للچا رہے ہیں۔ کمال کی بات ہے، یہی سب لوگ بیرون ملک جہاں معمول کی زندگی چل رہی ہوتی ہے، سب کو کھاتے پیتے دیکھتے ہیں اور پھر بھی اپنے روزے کی حفاظت کر پاتے ہیں، ایسا کیوں کر ممکن ہوتا ہے، اگر آپ سمجھ پائے ہوں تو اس کج فہم کو بھی ازراہ کرم سمجھا دیجئے۔
♦
One Comment