سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے عسکری اتحاد پر ایک بار پھر پاکستان میں سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں اور اس پر تبصرے بھی کیے جارہے ہیں۔ اس بار یہ سوالات ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان اطلاعات کے بعد اٹھائے گئے، جن میں کہا گیا ہے کہ راحیل شریف اس عسکری اتحاد کی سربراہی سے دست بردار ہونے کا سوچ رہے ہیں۔
پاکستان کے بعض چینلز نے دعویٰ کیا ہے کہ راحیل شریف کو خدشہ ہے کہ یہ اتحاد دہشت گردی کے بجائے کسی ایک ملک کے خلاف ہوگا جب کہ سابق آرمی چیف اس اتحاد میں امریکی مداخلت پر بھی تحفظات رکھتے ہیں۔
روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کے مطابق پاکستان اس اتحاد کے حوالے سے حدود متعین کرتا رہا ہے تاکہ اس کے منفی اثرات سے بچا جائے۔ اخبار کا کہنا تھا کہ اپریل میں جب حکومت نے راحیل شریف کو اس اتحاد کی سربراہی کرنے کی اجازت دی تھی تو یہ خیال کیا جارہا تھا کہ اسلام آباد نے اس اتحاد میں شمولیت اختیار کرلی ہے لیکن ایک سرکاری ذریعے نے اخبار کو بتایا کہ اس اتحاد میں شمولیت کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ ابھی تک نہیں کیا گیا۔ لیکن کئی تجزیہ نگار اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ یہ فیصلہ صرف ایرانی تحفظات کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔
معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاکستان پر یہ بات پہلے دن سے ہی واضح تھی کہ یہ ایک ایران مخالف اتحاد ہے، تو اب یہ بات کرنا حیران کن ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں نواز شریف، پی پی پی یا پی ٹی آئی کسی میں بھی اتنی ہمت نہیں کہ سعودی عرب کے خلاف بولیں۔ نواز شریف ایسے مشکل سیاسی حالات میں سعودی عرب کو ناراض کیوں کریں گے۔ میرے خیال میں اس اتحاد کو چھوڑنے یا اس پر تحفظات کا اظہار کرنے کا فیصلہ راحیل شریف کا اپنا ذاتی فیصلہ ہوسکتا ہے۔ جس طرح کا سلوک ان کے ساتھ وہاں ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے اس سے انہیں محسوس ہوا ہو کہ وہ سلوک ان کے عہدے کے شایانِ شان نہیں ہے۔ جنرل صاحب نہ میاں صاحب کی اجازت سے وہاں گئے تھے اور نہ ہی وہ حکومت کے کہنے پر واپس آئیں گے۔‘‘
لیکن کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے خیال میں اس فیصلے کے عوامل ذاتی نوعیت کے نہیں ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ریاض کانفرنس کے بعد اب اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ اتحاد ایران کے خلاف ہے۔ پاکستان کے افغانستان اور بھارت سے پہلے ہی کشیدہ حالات چل رہے ہیں۔ ایسے میں ایران کو بھی ناراض کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ٹرمپ نے اس کانفرنس میں بھارت کا تو تذکرہ کیا لیکن پاکستان کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ یہ بھی ایک سبب ہے پاکستان کی ناراضگی کا۔ اس اتحاد میں امریکی مداخلت بھی باعثِ ناراضگی ہے کیوں کہ افغانستان میں امریکی مداخلت نے وہاں بھارت کے لیے راستہ ہموار کیا۔ اب ہمارا اس مداخلت کی وجہ سے افغانستان میں کوئی کردار نہیں رہا، جس کی وجہ سے پاکستان نا خوش ہے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں اگر حکومت نے اس اتحاد سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ بہت بہتر ہے کیونکہ ہم ایران کو ناراض نہیں کر سکتے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ایران وہ ملک ہے جس نے پاکستان کو اقوامِ متحدہ میں سب سے پہلے تسلیم کیا تھا۔ اس کے علاوہ ملک میں ایک بڑی تعداد اہلِ تشیع کی ہے۔ ایسے فیصلے ملک کی وحدت کے لیے بہت خطرناک ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس سے دور رہنا چاہیے‘‘۔
جب ڈوئچے ویلے نے اس مسئلے پر نقطہء نظر جاننے کے لئے حکومتی جماعت مسلم لیگ نون کے ایک اہم مرکزی رہنما سینیٹر راجہ ظفر الحق سے رابطہ کیا ، تو ان کا جواب تھا، ’’میں نے بھی ذرائع ابلاغ میں دیکھا اور پڑھا ہے کہ راحیل شریف کو اس اتحاد پر تحفظات ہیں اور یہ کہ حکومت کچھ ریڈ لائنز اس اتحاد کے حوالے سے بنا رہی ہے لیکن مجھے ان ریڈ لائنز اور راحیل شریف کے تحفظات کے حوالے سے کوئی تفصیلات معلوم نہیں۔ لہٰذامیں اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا‘‘۔
DW
♦