سجاد ظہیر سولنگی
کچھ دن پہلے بلوچستان میں سندھی محنت کشوں کو نشانہ بناکر قتل کیا گیا ہے۔ یہ سانحہ گوادر کے ایک چھوٹے سے قصبے پشوکان میں پیش آیا ہے۔ جس میں 9 محنت کشوں کو قتل کیا گیا ہے۔ ایک ہفتے کے بعد بلوچستان کے اسی ساحلی علاقے کے دوسرے شہر تربت میں بھی محنت کشوں کو بھی ٹھیک اسی طرح قتل کیا گیا۔ مقتولین کا تعلق صوبہ سند ھ کے شہر کنڈیارو تحصیل کے ایک گاؤں سے تھا۔
یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہواہے۔۔تاریخ کو دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں ایسے رونما ہونے والے واقعات میں کم سے کم 44 نہتے محنت کش قتل کیے گئے ہیں۔ ان تمام محنت کشوں کا تعلق سندھ کے مختلف علاقوں سے ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے واقعات ہیں جن میں بھی محنت کشوں کو قتل کیا گیا ہے جن کا تعلق ملک کے دوسرے صوبوں سے ہے۔ اہل سندھ اور بلوچستان تاریخی اعتبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس وقت بھی سندھی اور بلوچی زبان بولنے والے ہزاروں خاندان دونوں صوبوں میں رہائش پذیر ہیں۔ دونوں صوبوں میں سندھی اور بلوچی بولنے کے باوجود ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں۔
اہل سندھ جو کہ ہمیشہ بلوچستان کہ دکھوں اور مشکل وقت میں اس کا ساتھی رہا ہے۔ سندھ کے محنت کشوں کا قتل سندھ کے عام محنت کش کے ذہنوں میں نئے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ مختلف سیاسی گروہوں کے آپس میں ذاتی مفاد ات جن کو اب سیاسی کہنے پر دل ہزار بار سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایسی جنگ میں مظلوم محنت کشوں کا قتل عام ورکر کے دلوں میں نفرت کی بنیاد ڈالنے میں کوئی دیر نہیں کریگا۔ دیکھا جائے تو اس عمل پہ بلوچستان کے جمہوریت پسندوں، بزرگ قوم پرستوں اور ترقی پسندوں کو شدید رد عمل اور مذمت کا اظہار کرنے چاہیے تھا۔ جو ہونے کے باوجود بہت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے۔
بلوچستان میں وسائل کی جنگ اور قومی سوال ایک الگ حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ایسے دہشت گرد واقعات کے بعد قومی سوال کا بھی جائزہ لیا جائے۔ اس پر ہونے والی سیاست کو سماجی سائنس کے اعلیٰ معیاروں اور سامراج مخالف عالمی ترقی پسند قومی آزادی کے تحریکی تناظر میں دیکھا جائے۔
یہ بلوچستان کا کا ساحلی علاقہ ہے۔ ان ساحلی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کا ذریعہ معاش ساحلی سرمایہ کاری پر نظر آتاہے۔ اکثر لوگوں کا کاروبار مچھلی کی خرید و فروخت ہے۔ بلوچستان کے وہ علاقے جس کے اطراف میں سمندر ہے ، ان پر بننے والی بندر گاہیں بھی بحَث کا مرکز رہی ہیں، کیوں کہ بلوچستان اراضی میں سب سے بڑا صوبہ جب کے محرومیوں میں سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا صوبہ ہے۔اگر احساسِ بیگانگی میں بلوچستان کو پہلے نمبر پر شمار کیا جائے تو یہ کہنا درست ہی ہوگا۔
ہم مانتے ہیں کہ وہاں کوئی بھی چھوٹی بڑی چہل پہل وہاں کے محنت کشوں کے دکھوں کو جھنجوڑ دیتی ہے۔ گوادر بلوچستان کا وہ علاقہ ہے ، جہاں مختلف ممالک کے سمندری مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ بلکہ خود بلوچستان کے سا حل پہ بسنے والے ماہی گیروں کا روزگار بھی اسی بندرگاہ سے جڑا ہوا ہے ۔ کیا اس کا مطلب دوسرے صوبوں کے محنت کشوں کو چن چن کرقتل کرنا ہے۔ نہیں کبھی بھی نہیں ؟
ہم مانتے ہیں کہ ملک میں مارشل لانافذ ہو تے رہے ، جس کی وجہ سے بلوچستان کے عوام کوتشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بلوچستان کے لوگوں کو قتل کیا گیا۔ اہل بلوچستان کا رنگ، نسل اور ڈھنگ کے بناء پر بھی استحصال کیا گیا۔ مگر اس کا مقصد کسی بھی برادری کے محنت کش کو قتل کرنا یہ انصاف نہیں ؟بلکہ نسل پرستی ہے، جس کی حمایت کرنا سیاسی جرم ہے۔ اور ایسے اقدام کی حمایت کسی قیمت پر نہیں کی جاسکتی۔بلوچستان میں جہاں طبقاتی سوال موجود ہے، وہاں اس سے زیادہ قومی سوال اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔
اہلیانِ بلوچستان کے قومی سوال کو کسی بھی قیمت پر نظر انداز کرنا نظریاتی سیاست سے غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ مگر محنت کشوں کے قتل کا سوال ہماری نظریاتی سیاست کا امتحان لیتا ہے۔ محنت کشوں کے ایسے بہیمانہ قتل پر سندھ اور بلوچستان کے محنت کشوں اور سیاسی کارکنان کی خاموشی کا عمل، محنت کشوں کے حقوق کے ساتھ، کیا یہ غداری نہیں ہوگی؟
یہ بات طے ہے کہ بلوچستان کے حقیقی باشندوں کی حالتِ زار اہل سندھ سے کوئی مختلف نہیں ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بلوچستان کا صوبہ اتنا بڑا سرمایہ پیداکرتا ہے مگر اہلِ بلوچستان پانی کے قطرے قطرے کو ترستے ہیں۔بلوچستان وسائل کے اعتبار سے بہت خوشحال ہے۔ان کا سرمایہ کس کی جیبوں میں جاتا ہے، اس پہ ہمارے حکمران سامراجی کردار ادا کرتے ہیں۔جس کا سوال بلوچستان کی عوام کو وہاں کے سرداروں اور نوابوں کی گٹھ جوڑ حکومت سے کرنا چاہیے ۔
اس کامطلب یہ نہیں کہ دیگر صوبوں کے محنت کشوں کو قتل کرکے اس کا حساب کتاب اسی طرح کیا جائے۔ محنت کشوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا ناروا سلوک رکھا جائے اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے محنت کشوں کے ایسے قتل کو دہشت گردی کہا جائیگا۔ بلوچستان کا حقیقی سامراج مخالف سیاسی کارکن خاموش رہنے کے بجائے اپنا کردار اداکرے۔
معدنیات کے حوالے سے یہ خطہ امیرسمجھا جاتا ہے ان تمام وسائل کی مالکی نہ ہونے کی وجہ سے اس خطے کو لوٹا جاتا رہا ہے ،جب اس صوبے کے مظلوم محنت کش مالکی کی بات کرتے ہیں تو ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے یہاں تیل گیس ،سونا اور پیتل جیسے معدنیات کے ذخائر وافر مقدار میں موجودہیں۔یہ وسائل ان کے مستقبل سے دور کیے جارہے ہیں لوٹے جارہے ہیں ، اہل بلوچ کے ذہنوں میں احساسِ بیگانگی نے بھی جنم لیا ہے۔بلوچستان کے حقیقی باشندوں کو ان وسائل کی لوٹ اور بڑھتی ہوئی احساس بیگانگی پربلوچ نمائندگان سے سوالات کرنے چاہیے۔ بھوک اور افلاس کے ستائے ہوئے غریب مزدوروں پر گولیوں کی برسات نہیں کرنی چاہیے۔
بلوچستان کے وسائل پر صرف اہلِ بلوچستان کا حق ہونا چاہیے۔اس بات سے کسی کوئی بھی اختلاف نہیں ہے اور نا ہونا چاہیے۔ اہل سندھ کی تمام قوم پرست اور ترقی پسندرہنما اس بات کے لیے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔لیکن دہاڑی دار مزدور جب اپنی تما م کشتیاں جلا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ بلوچستان کا رخ کرتا ہے ، تو نتیجے میں انہیں گولیوں کی نیند سلایا جاتا ہے۔ ایسے ظالمانہ اقدام کو کو روکنے لیے بھی بلوچ عوام کو آگے آنا پڑیگا۔
محنت کشوں کے ایسے قتل کے بعد اگر جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے تو ایسے عمل کو قوم پرست سیاست میں نسل پرستی کی آخری شکل دی جائے تو کم نہیں ہوگا۔بھوک اور بدحالی کے ستائے ہو ئے کمزوروں کے ساتھ یہ رویہ سیاست نہیں بلکہ چنگیزی ہے۔ مقامی لوگوں کے حقوق کا خیال وہاں کی حکومتوں کو کرنا چاہیے۔ اور ہمارا احتجاج بھی محنت کشوں کو جوڑکر حکومتی ہتھکنڈوں کے خلاف ہونا چاہیے۔ ایسے واقعات حکومت اور قانون لاگو کرنے والے اداروں پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ محنت کشوں کاتحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اورحکومت ایسے اقدام کرنے میں ناکام رہی ہے۔ وفاقی سرکار محنت کشوں کے قتل کی آزادنہ تحقیق کروائے۔ اس عمل میں شامل جوابداروں کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے۔ بلوچستان میں کام کرنے والے محنت کشوں کوحکومتِ بلوچستان تحفظ دینے کے لیے فوری اقدام کرے۔شہید ہونے والے محنت کشوں کے لیے 30 لاکھ جب کہ زخمیوں کو 15 لاکھ کمپن سیشن کے طور پر ادا کرے۔
ہم سوشلسٹ مارکسزم اور لینن ازم کی روشنی میں قومی مسئلے کا حل چاہتے ہیں ، اس میں کوئی زور زبردستی نہیں۔دنیا کے پہلے عظیم کمیونسٹ اکتوبر انقلاب نے قوموں کے نجات کی بنیاد رکھی۔ عظیم ، لینن کی قیادت میں پسے ہوے محنت کشوں نے اقتدار قائم کیا سویت یونین کے نام سے جنم لینے والے اس انقلاب نے تمام عالم میں بغیر کسی شرط کے قومی آزادی کی تحاریک کو پروان چڑھایا۔ظلم اور تشدد کے تمام طریقے کسی بھی قوم کو نہیں جوڑ سکتے۔اسی کے ساتھ عظیم لین نے کہا تھا کہ مظلوم کی قوم پرستی اور ظالم قوم کی قوم پرستی میں فرق ہے۔
بلوچستان کے سوال پر بہت سارے نظریاتی قوم پرست اور سوشلسٹ بھی رومانویت کا شکار ہیں۔ وہ قومی سوال خاص طور سے بلوچ قومی سوال کا تنقیدی جائزہ لینے کے بجا ئے وہ اپنی پارٹی کا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ ہم سب اس خطے میں رہتے ہیں ، سماجی سائنس کے طالب علم ہیں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم غلط تحریک ، انارکسٹ اور طفلانہ رویوں کا جائزہ لیں۔ایسے عمل کو اپنے سخت موقف سے تنقید کا نشانا بنائیں۔جو بھی سیاسی قیادت ایسے اقدام کو تقویت دے یا حمایت کرے،ہمیں ان لوگوں کے سیاسی عمل کا بائے کاٹ کرنا چاہیے۔
بلوچستان کی انقلابی تحریکوں اور بائیں بازو کے کارکنان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور ایسے سفاک عمل کے خلاف احتجاج بھی کرنا چاہیے۔ ایک روشن خیال اور محنت کشوں کی ساتھی جدوجہد ہی بلوچستان کی خودمختاری کی ضامن بنے گی۔
♦