پاکستان میں جہاں ایک طرف سوشل میڈیامیں فوج پر تنقید کرنے والوں کو گرفتارکیا جارہا ہے تو وہیں دوسری طرف فرقہ واریت، انتہا پسندی اور دہشت گردی میں ملوث مذہبی تنظیمیں سوشل میڈیا میں انتہائی متحرک ہیں اور کوئی بھی حکومتی ادارہ انہیں لگام دینے کے لیے تیار نہیں۔
کئی پاکستانی حلقوں نے ایک بار پھر انتہا پسندتنظیموں کے سوشل میڈیا پر متحرک ہونے پر تشویش ظاہر کی ہے۔ تنظیموں کی عملی سرگرمیوں اور سوشل میڈیا پر نفرت آمیز مواد اپ لوڈ کرنے پر سارے ملک میں بحث شروع ہے۔
اگر پاکستان کی تقریباً تمام انتہا پسند تنظیموں کا نصاب کا مطالعہ کیا جائے تو وہ نفرت پر مبنی ہے۔اس کے علاوہ یہ مختلف موضوعات پر پمفلٹ بھی شائع کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سوشل میڈیا کا استعمال بھی شروع کر دیا ہے۔
انگریزی روزنامہ ڈان کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق فیس بک پر کالعدم و فرقہ وارانہ تنظیمیں کھل کر نفرت آمیز مواد اپ لوڈ کررہی ہیں۔ ان تنظیموں کے کئی ہزارکارکنان اور ہمدرد ہیں جو اس مواد کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کو پسند بھی کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فیس بک پر سب سے زیادہ متحرک اہلِ سنت ولجماعت ہے، جسے اے ایس ڈبلیو جے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
اس جماعت کے قائدین ماضی میں سپا ہ صحابہ نامی تنظیم کے پلیٹ فارم سے کام کرتے رہے ہیں، جس کو مشرف کے دور میں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ جب اس تنظیم نے ملتِ اسلامیہ کے نام سے کام کرنے کی کوشش کی تو اسے دوبارہ خلافِ قانون قرار دے دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس ملتِ اسلامیہ کے قائدین نے اہل سنت والجماعت کے نام سے کام کرنا شروع کردیا ، جسے رپورٹ کے مطابق سن 2013 میں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 64 تنظیمیں کالعدم قرار دی جا چکی ہیں، جس میں سے 41 اب بھی فیس بک پر موجود ہیں اور 25 ملین کے قریب ملکی صارفین ایک کلک پر ان تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
اس حوالے سے جب ڈوئچے ویلے نے اہلِ سنت والجماعت کے رہنما انیب فاروقی سے دریافت کیا تو انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے آفیشل پیج کو چار یا پانچ دن پہلے بلاک کر دیا گیا تھا۔ ہمارے تین سے پانچ ہزار کے قریب لوگ ہیں جبکہ ہماری تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ کئی لوگوں نے ہمارے نام سے اکاونٹس بنائے ہوئے ہیں اور وہ فرقہ وارانہ نعروں کو فروغ دے رہے ہیں لیکن اب ہماری پارٹی کسی کو کافر قرار نہیں دیتی اور نہ ہی ہم فرقہ واریت یا فرقہ وارانہ نفرت کو فروغ دیتے ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا ،’’ایف آئی اے یا کسی اور حکومتی ادارے نے ہمیں کوئی نوٹس نہیں دیا ہے، جس میں یہ کہا گیا ہو کہ ہم فیس بک کے ذریعے نفرت آمیز مواد کو اپ لوڈ کر رہے ہیں۔ انہوں نے ہم سے ایسے افراد کی نشاندہی میں مدد مانگی ہے، جو نفرت انگیز مواد کو پھیلا رہے ہیں اور کچھ کو انہوں نے گرفتار بھی کیا‘‘۔
انیب فاروقی نے تنظیم کو کالعدم قرار دینے کے حوالے سے کہا،’’ ہمیں کالعدم بھی قرار دیتے ہیں پھر انتخابات میں ہم سے حمایت بھی مانگتے ہیں۔ حکومت خود اس مسئلے کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہے‘‘۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اسد بٹ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایاکہ ریاست کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ان تنظیموں کو تخلیق کیا ہے اور وہ ان کے خلاف کوئی تادیبی قدم کیسے اٹھا سکتے ہیں۔ بٹ مزید کہتے ہیں،’’سپاہ صحابہ، جماعت الدعوۃ اور ایسی دوسری تمام تنظیمیں کھلے عام سرگرم ہیں اور سوشل میڈیا پر نفرت بھی پھیلا رہی ہیں جبکہ حکومت سیاسی کارکنان اور روشن خیال لوگوں کے خلاف کریک ڈاون جاری رکھے ہوئے ہے‘‘۔
اسد بٹ کے مطابق لوگوں کو اظہار رائے کے جرم میں اٹھا کر غائب کیا جا رہا ہے لیکن حافظ سعید سمیت سپاہ صحابہ کے لوگ دنداناتے پھر رہے ہیں اور یہ صورتِ حال ملک کے لئے بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے فاروق طارق کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جہادی و فرقہ وارانہ تنظیموں کے لئے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کا نرم گوشہ ہے۔ فاروق طارق نے یہ بھی کہا کہ نفرتوں کی وجہ سے ملک پہلے ہی انتشار کا شکار ہے اور نفرت آمیز مواد اپ لوڈ کرنے کے عمل روکا نہ گیا تو ملک میں پیدا ہونے والی شدید مذہبی انتہا پسندی تباہی کا باعث بنے گی۔
DW/Daily Dawn
♦