ڈاکٹر داؤد رہبر ،لاہور کے ایک علمی خانو ادہ کے چشم و چراغ ہیں۔ان کے والد گرامی پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمداقبال اورئینٹل کالج لاہور کے ناموراساتذہ میں سے تھے۔داؤدرہبر کی تعلیم بھی گورنمنٹ کالج اور اورئینٹل کالج لاہور میں ہوئی کیمبرج یونیورسٹی سے آپ نے’’تنز یہہ کا مسئلہ قرآن کی روشنی میں ‘‘پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔کچھ دیر لاہور میں ریسرچ کا کام کیا پھر ترکی میں ان کا تقرر انقرہ یورنیورسٹی میں پاکستانی تاریخ پڑھانے پر ہوا۔
وہاں سے فارغ ہوئے تو امریکہ آگئے۔کئی برس تک ہارٹفورڈ کے مدرسہ ء الہیات میں تدریس کی پھر بوسٹن یونیورسٹی میں علم الادیان کے پروفیسر کی حیثیت سے پڑھانے کے بعد ریٹائر ہوئے اور اب فلور یڈ ا میں مقیم ہیں اور شام غریباں کی آہیں سُر میں لاکر‘‘(صفحہ ۱۲)بھر تے رہتے ہیں ۔موسیقی کے اس شوق نے جو غالباً ان کے تا یا پروفیسر خادم محی الدین کی دین ہے،ان کی تنہائیوں کو شادوآباد رکھا۔
ڈاکٹر داؤد رہیر نے اپنے ملک اور کلچر سے دوررہنے کے باوجود اردو سے اپنا نا طہ نہیں توڑا۔اپنے دوست احباب کو اردو میں جوخط لکھتے رہے ان کی نقلیں محفوظ رکھتے رہے جو عام حالات میں اچنھبے کی بات ہے مگر اپنے کلچر سے دور رہنے والے’ ’ مہاجرت ‘‘ کی کسمپرسی کو اپنی زبان میں لکھی ہوئی تحریروں کی (خواہ وہ اپنی لکھی ہوئی ہی کیوں نہ ہوں)مہک سے آبادرکھنے کی اس ادا کو سمجھ سکتے ہیں۔مدتوں بعد وہی تحریریں’’نامہ وپیام‘‘کے عنوان سے چھپ کر دوسروں کو بھی فیض پہنچانے کا موجب بنیں۔میرا داؤد رہبر سے پہلا تعارف اسی’’نامہ وپیام‘‘کے مطالعہ سے ہوا ۔
’’پر اگندہ طبع لوگ‘‘ کے دیباچہ میں خودان کا کہنا ہے کہ پردیس میں اردو نویسی کے لئے فراغت بندہ کو ریٹائر ہو کر ملی ۔کچھ قصے دیس کے یاد آئے کچھ پر دیس کے۔داؤدرہبر نے ’’راوی‘‘بن کران قصوں کو بیان کر دیا۔روایت کا راستہ پل صراط سے زیادہ کٹھن ہوتا ہے مگر کتاب پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ راوی اس کٹھن منزل سے بخیرو خوبی گزر گیا ہے۔اگر چہ ا نہیں کرداروں کے ناموں اور مقاموں کی تلبیس کرنا پڑی مگر ایسا کرنا بہت ضروری تھا ورنہ اہل وطن یہی کہتے’’باہر رہ کر رہبر گمراہ نے کیا جھک مارا‘‘ہے کرداروں کے نام بد لنے سے ان کا کردار تبدیل نہیں ہوا اور دیس کے ان کرداروں کو جاننے اور پہچاننے والے بخوبی پہچان لیتے ہیں کہ کون معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں ۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جو کردار بدیسی ہیں ان کے بیان میں بھی راوی نے کوئی لگی لپٹی روا نہیں رکھی ہو گی۔
راوی نے ان کہانیوں کو لکھنے کا سبب یہ بیان کیا کہ ’’بندہ اگر خود پر اگندہ نہ ہوتا تو یہ کہانیاں نہ لکھتا ۔پر اگندہ کے لفظی معنی ہیں بکھراہوا آدمی ،حواس باختہ کھویا کھویا،میں نے اپنے ایک دوست سے کہا ممکن ہے دیگر پر اگندہ لوگ یاد آئیں اور میں ان کی کہانیاں بھی لکھوں،اس عزیز نے کہا دنیا پراگندہ لوگوں سے بھری پڑی ہے۔کس کس کی کہانی لکھو گے؟یہ کہانیاں پراگندہ لوگوں کی کہانیاں نہیں ہیں،پر اگندہ طبع لوگوں کی کہانیاں ہیں۔میرنے پراگندہ طبع کے لفظ کو جو معنویت دے دی ہے وہ محض بکھرے ہوئے ہونے حواس باختہ ہونے اور کھوئے کھوئے سے ہونے سے کہیں زیادہ عمیق اور متنوع ہے۔ پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ۔افسوس تم کو میرسے صحبت نہیں رہی!‘‘
انتظار حسین نے اپنے دیباچہ میں کہا؛ ’’کیا رنگارنگ کردار ہیں بھانت بھانت کی مخلوق ۔اسی سے مجھے شک ہوتا ہے کہ داؤد رہبر اگر عالم فاضل نہ ہوتے تو افسانہ نگار ہوتے‘‘۔اگر عالم فاضل نہ ہوتے تو افسانہ نگار ہونے والی بات بھی انتظار حسین ہی کہہ سکتا تھا۔ مجھے یاد ہے کچھ عرصہ پہلے پی ٹی وی پر انتظار حسین کے ساتھ گفتگو کا پروگرام ہورہا تھا جس میں غالب احمد کے علاوہ مسعود اشعر بھی تھے۔ جب مسعود اشعر نے اپنی روایتی’’دانشوری‘‘کاثبوت دیتے ہوئے انتظارحسین کے اسلوب افسانہ نگاری میں کوئی تاریخی عمق پیدا کرنے کی کوشش کی تو انتظار حسین نے صاف کہہ دیا جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں وہ میرے ذہن کے کسی گوشہ میں بھی نہیں تھا محض آپ کی دانشوری کا شاخسانہ ہے۔
داؤد رہبر نے بھی جو کچھ لکھا ہے وہ کسی تاریخی عمق یاز اویہ سے نہیں لکھا محض اس لئے لکھا ہے کہ’’وطن کے احباب انہیں بھولے ہی نہ رہیں۔۔اپنی ایک دوست سے کہتے ہیں؛چند مہینے قلمکاری میں گزرے۔سب کچھ اردو میں لکھ رہا ہوں میری یہ تحریریں پاکستان کے رسالوں میں چھپ رہی ہیں اس سے تعلقات کی تجدید ہو رہی ہے،پرانے دوستوں کو بھلا دینے سے مرجانا اچھا ہے۔(صفحہ۴۵)۔
یہ کتاب سوانح کے زمرہ میں شمار کی گئی ہے مگر یہ نری پری سوانح بھی نہیں ہے۔خاکے،افسانے ،سوانح اور فیکٹ اور فکشن کے ملغوبے’’فیکشن‘‘ کے بین بین کی کوئی چیز ہے جسے میں اپنی سہولت کے لئے ’’احوال نامہ‘‘کا نام دوں گا۔اس میں داؤد رہبر کی اپنی سوانح بھی بین السطور بیان ہوتی چلی گئی ہے۔ان کے خاندان کا،اعزہ و اقارب کا بچپن کے ہمجولیوں کا ،طلبا ء کا،اساتذہ کا سب کامذکور ہے اس کے مطالعہ سے ’’آتا ہے داغ حسرت دل کاشمار یاد‘‘ کامضمون بھی عیاں ہوتا ہے؛اس رنگیلے خاندان میں تمتع کے جوا مکانات تھے ان کے شعور سے نہ جانے میں کیوں کر بے بہرہ رہا(صفحہ ۱۶۹)۔
اس لئے یہ کتاب ایک حد تک داؤد رہبر کی خود نوشت سوانح عمر ی ہے اور بہت سے لوگ اپنی سوانح عمر ی کو’’احوال الر جال‘‘ کے پیرائے میں لکھنا پسند کرتے ہیں۔
اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں صرف وہ افراد موضوع سخن بنے ہیں جن کاراوی سے براہ راست رابطہ رہا۔اس میں دوسروں کی بیان کی ہوئی باتوں کی پذیر ائی نہیں ہوئی۔جن باتوں کا راوی کو علم نہیں ان کے بارے میں راوی نے صاف کہہ دیاہے کہ اسے ان باتوں کا علم نہیں۔گویاراوی کی روایتیں سماعی یاشنید نہیں اس لئے مستند ہیں۔شنیدنی میں مبالغہ کاقوی احتمال رہتا ہے ۔داؤد رہبر نے شنیدہ کورد کر کے دیدہ پر انحصار کیا ہے کہ شنیدہ کے بود مانند دیدہ!
اس کتاب میں دومکمل خاکے بھی ہیں جن میں راوی نے ناموں کی تلبیس نہیں کی۔’’ن۔م اور نیاز مند‘‘ن ۔م۔ راشد کا خاکہ ہے اور ’’دھیان بیٹھک ‘‘ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ کا۔ ن۔م۔راشدان کے والد گرامی کے شاگردرہے اس لئے ان کے دل میں راوی کے لئے ایک گوشہ نرمی کا تھا،راوی نے بھی انہیں اپنا بزرگ ہی جانا اس لئے اپنے کونیاز مندکہہ کر متعارف کروایاہے۔ اس خاکہ سے راشد صاحب کی شخصیت کے دوعقدے واہو کر سامنے آتے ہیں۔ایک توریڈ یو کی سروس کے دوران ان کی خشونت اور اپنے ماتحت کام کرنے والوں سے ان کی درشت کلامی۔
حمید نسیم نے اپنی خودنوشت میں راشد صاحب کی خشونت کو ان کی کپتانی کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔راشد صاحب نے ان سے خود کہا؛پطرس بخاری ’’مجھ پر خاص مہربان تھے‘‘ ایک روز انہوں نے ’’چند لفظوں میں فہمائش کی کہ اگر تمہارے ساتھیوں یا ماتحت (کام کرنے والوں میں سے کوئی ایسا نالائق یا غیر ذمہ دار ہے کہ محکمہ کے کام اس سے چوپٹ ہورہے ہیں تو اسے نوکری سے برخاست کرنے کی تجویزلکھ بھیجو اور اگر کوتاہیاں چھوٹی چھوٹی ہیں توانہیں معاف کردو اور تحمل سے تعلقات خوشگوار رکھو۔ایسی نصیحت کی توقع مجھے ہر گز نہ تھی۔ایک محسن کی فہمائش کا مجھ پر ایسا اثرہوا کہ جلدی میری مشتعل مزاجی دور ہوگئی اور ہمکاروں، شناساؤں اور دوستوں سے خندہ پیشانی اور ملنساری کا سلوک کرنے لگا‘‘(صفحہ ۲۵۰)۔
داؤد رہبر کا کہنا ہے کہ؛ راشد صاحب کے چہر ے پر مجھے خشونت محسوس ہوا کرتی تھی ایک روز بستر پر گاؤتکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے اپنی ایک تقریر کے مسود ے پر نظر ثانی کر رہے تھے، دم لینے کو انہوں نے اپنی عینک اتار کر میز پر رکھ دی ،میں نے ان کے چہرے کی تبدیلی محسوس کی ،عینک اتری تو چہر ے کی خشونت جاتی رہی چشم میں خشم کا نام تک نہ تھا‘‘(صفحہ ایضاً)
راقم الحروف کا اپنا تجربہ بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔راشد صاحب سرگودھا آئے ہوئے تھے۔سرگودھا وزیر آغا کے ہاں پہنچا تھا۔چند قریبی دوستوں کو انہوں نے خاص طور سے راشد صاحب سے ملوانے کے لئے کھانے پر مد عو کر رکھا تھا۔ان سے گفتگو کیا رہتی ہم لوگ دم بخودبیٹھے اتنے بڑے شاعر کی باتیں سنتے رہے جن میں بڑی اپنائیت اور ملائمت تھی۔جب وہاں سے اٹھ کر اکادمی کے اجلاس میں پہنچے ۔
راشدصاحب نے کلام سنانا شروع کیا تو محسوس ہوا کہ شعر خوانی شروع کرتے ہی راشد صاحب کے چہرے پر عجیب سی خشونت پیدا ہو گئی ہے۔ایک تو نظم معریٰ پھرراشد صاحب کا پڑھنے کا انداز،جہاں ہم لوگ ان کی سحر طر از نظم خوانی سے متاثر تھے وہیں یہ بھی احساس ہو رہا تھا کہ شاید راشد صاحب کسی بات پر ناراض ہو گئے ہیں ۔نظم تھی حسن کوزہ گر‘‘اور کتاب تھی لامساوی انسان ۔راشد صاحب بڑے ولولہ سے پڑھ رہے تھے سامعین ہمہ تن گوش تھے ۔
راشد صاحب کی چاند پرپسینے کے قطرے چمک رہے تھے ناک پر موٹے فریم کی کالی عینک تھی۔یکایک راشد صاحب نے عینک اتاری اور ماتھے سے پسینہ پونچھا۔معلوم ہوا راشد صاحب کے چہرے پر محبت اور ملاطفت نے سایہ کر لیا ہے۔یہ تبدیلی بہت سے دوستوں نے محسوس کی۔اب مدتوں بعد داؤد رہبر کی بات پڑھ کر سر گودھا اکیڈمی کا وہ اجلاس آنکھوں کے سامنے پھرنے لگا۔میری راشد صاحب سے بس وہی ایک ملاقات ہوئی ۔میں نے کسی کو ان سے بہتر نظم معریٰ کی نظم خوانی کرنے والا کوئی اور نہ دیکھا ۔ان سے سن کو معلوم ہوا کہ نظم معریٰ میں کتنی معنویت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ جو تقسیم ہند کے بعد پنجاب یونیورسٹی چند ی گڑھ کے پنجابی کے صدر شعبہ اور نامور استاد ہوئے انگریزی زبان وادب میں ایم ،اے ہونے کے باوجود اور ئینٹل کالج لاہور میں پنجابی کے استاد تھے۔اور ئینٹل کالج کا چھوٹا سالان (جسے ہم نے بھی بہت برتا اور چاہا ہے)اس کے بارہ میں داؤد رہبر نے لکھا ہے؛جاڑوں میں اس لان پر دھوپ سینکنے اور سگریٹ پینے کو حافظ محمود خاں شیرانی اکثر آکھڑے ہوتے۔
یہی معمول ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ کا بھی تھا۔پہلی بار میں نے ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ کو سگریٹ پیتے دیکھا تو دیکھتا رہ گیا۔مسلمان کو شراب پیتے دیکھ کر حیرت نہیں ہوتی لیکن سکھ کے منہ میں سگریٹ؟۔۔۔ملک تقسیم ہواا ور تیس برس گزرچکے تو آپ بوسٹن تشریف لائے میرے گھر میں بیٹھے تھے یکایک انہوں نے پگڑی اتار کر صوفے پر رکھ دی ان کا گھُٹا ہوا سر دیکھ کر مجھے یقین نہ آیا۔‘‘(صفحہ ۲۱۷)پیری مریدی کی پریکٹس یہ صرف مغربی ملکوں میں کرتے ہیں۔۔بوسٹن کے ایک بازار میں ایک روز میں نے انہیں دیکھا ایک کمسن چیلی ان کے ہاتھ میں ہاتھ دیے ان کے ساتھ تھی۔عمر کا تفاوت دیکھنے والے چونک چونک اٹھے لیکن یہ دونوں ایسی ترنگ میں تھے گویا کلیلیں کرنے کو تیار ہیں اس وقت آپ کی عمر پچھتر نہیں تو ستر تو ضرور ہوگی۔(صفحہ۲۲۲)۔
پراگندہ طبع لوگ ‘‘اس لحاظ سے بھی دلچسپ کتاب ہے کہ راوی کو جو بات جیسے جیسے یاد آتی گئی وہ روایت کرتا گیا۔زمانی اور مکانی ترتیب کا خیال نہیں کیا۔تذکرہ غوثیہ اور دیوان سنگھ مفتون کی آپ بیتی اسی لئے مزے کی کتابیں ہیں کہ ان میں قصے اٹکل اٹکل ہیں۔۔اگر تاریخ وار بیان ہوتے تو ڈائری کے اندراج ہو کر رہ جاتے اور ان میں بادصباکے جھونکوں والی بات نہ ہوتی‘‘(صفحہ ۲۶۷)۔
قاری کو جو چیز سب سے زیادہ اپنی جانب کھینچتی ہے وہ داؤد رہبر کی بے تکلفی اورنرم روی ہے’’جہاں ہم پیدا ہوئے(یعنی لاہور)وہاں سمندر کا ساحل کہاں ہم توراوی کے کنارے پیدا ہوئے ہمارے تحت الشعور میں ندی بہہ رہی ہے‘‘(صفحہ ۱۳۷)مریکہ میں ساری زندگی گزار دینے کے بعد بھی انہیں لاہور اور لاہور کی بے تکلفیاں نہیں بھولیں’’ ڈبی بازار۔ گمٹی بازار۔ قلعہ گوجر سنگھ،مزنگ اور اچھرہ کے ہمسایوں کے درمیان جو قرب اور بے تکلفیاں ہیں وہ ماڈل ٹاؤن کے ہمسایوں کے درمیان ہو ہی نہیں سکتیں۔ میں نے اپنا بچپن ماڈل ٹاؤن میں گزار ا اس بستی کے باشندوں میں گرمجوشی ہر گز نہ تھی ہمسایوں کے بچے البتہ مل کرکھیل لیتے تھے۔پھر اس بنگلستان کو بیگانستان کیوں نہ کہیں؟۔۔بنگلستان کے پروردگان میں وہ حوصلہ ہو ہی نہیں سکتا جو گلیوں کے رہنے والوں میں ہوتا ہے ۔
اقبال گلیوں میں پل کر جس طرح حوصلہ مند ہوئے سول لائنز میں پل کر کبھی نہ ہو پاتے۔ وہ شاعر جو بھاٹی دروازہ کا مکین نہیں رہا شکوہ جیسی نظم نہیں کہہ سکتا۔‘‘(صفحہ ۱۲۴)لاہور نے جو حوصلہ راوی کو دیا یہ اسی حوصلہ کی دین ہے کہ اس نے مظلوموں، کمزوروں، بدحالوں اور بے حالوں کے قصے کہے ہیں اور ان کے احوال کے بیان سے توانائی پائی ہے۔ غصیلے لوگ کمزوروں کی تاک میں رہتے ہیں اور ان پر جھپٹ کر اپنا غصہ نکالتے ہیں افسر دہ لوگ بشاش لوگوں کی صحبت ڈھونڈتے پھرتے ہیں یادُکھی دُکھی کے پاس جابیٹھتا ہے کہ دُکھ سکھ کرے۔کھاتے پیتے آدمی پر مصیبت آئے تو وہ بے گھروں بھکاریوں اور فاقہ مستوں کا حال دیکھ کر اپنے آپ کو تسلی دیتا ہے۔غرض سکت اور حوصلہ کا تکیہ بڑی حد تک ہم جنسوں اور ہم نفسوں کے احوال پر ہوتا ہے ۔زندگی قوت کے لین دین کا بازار ہے۔(صفحہ۹۸)۔
مگر تقدیر ایک ندی ہے،اسباب سے نتیجے نکلتے ہیں اور نتیجے اسباب بن جاتے ہیں۔اسباب اور نتائج کا یہ تعاقب اسی طرح ہے جس طرح ندی میں پانی اور پانی کا تعاقب۔ آگے بھی پانی پیچھے بھی پانی!‘‘ (صفحہ ۲۴)۔
یہ تعاقب اس کتاب میں بھی جاری ہے۔دوردیس امریکہ میں رہنے والے دوبھائیوں کی گفتگو:عیدالفطر کے روز مختار نے پچھلے پہر دوسرے شہر سے بڑے بھائی کو فون کیا ۔عید مبارک کہہ کر پوچھا کیا ہورہاہے بھائی جی نے کہا ہم عیدپارٹی سے واپس آئے ہیں وہاں میں نے اردو میں تقریر کی مجھے اردو میں تقریر کرکے بہت مزا آتا ہے ۔مختار نے پوچھا تقریر کامضمون کیا تھا ،بھائی نے کہا ’’اپنی تہدیب ‘‘۔میں لوگوں سے کہتا ہوں اخلاق اسلام ہی سے درست رہتا ہے ۔امریکی کردار کی تقلید میں تباہی ہے ۔یہ سارا معاشرہ روحانی اورجسمانی امراض میں مبتلا ہے ،اپنے بچوں کو ارکان دین کا احترام سکھائیے ۔پاکستانیوں کی کوئی پارٹی ہوتی ہے تو میں ضرور اس میں شریک ہوتا ہوں اوراپنے آپ اٹھ کراردو میں اس مضمون کی تقریر کردیتا ہوں ،ساری برادری میری ممنون ہے‘‘ (صفحہ۸۹)
پراگندہ طبع لوگ میں جوغیر ملکی کردار زیر بیان آئے ہیں وہ کم وبیش سب مہاجر ہیں کوئی کہاں کاکوئی کہیں کامگران لوگوں پر بھان متی کا کنبہ کا گمان نہیں ہوتا ۔سب کا دکھ درد مشترکہ ہے اور روایت کرنے والے نے بڑی چابک دستی سے اس دکھ کو لفظوں کی لڑی میں پروردیا ہے ۔دواؤدرہبر کے ہاں چھوٹے چھوٹے خوب صورت فقرے بھی بہت ہیں جو قاری کو اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتے اورراوی انہی کے سہارے قاری کے ساتھ لئے لئے چلتا ہے ۔’میں جہاں بھی رہا ہوں ستم کو ستم ظریفی سمجھ کر ہنسا ہوں ‘‘ (صفحہ ۱۰۱) لمبے سکوت کی بجائے مجھے سکوت کا وہ چھوٹا سا وقفہ پسند ہے جو اچھی گفتگوکے جملوں کے درمیان ہوتا ہے‘‘ (صفحہ۲۱۹)۔
داؤرہبر کی کتاب میں جو جمعیت ہے اس سے ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ وہ ’’پراگندہ ‘‘ہیں البتہ ’’پراگندہ طبع‘‘ضرور ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارہ میں میرؔ کا کہا پہلے روایت ہوچکا کہ ’افسوس تم کومیرؔ سے صحبت نہیں رہی ‘۔
**
ڈاکٹر داؤد رہبر پانچ اکتوبر 2013 کو انتقال کر گئے تھے۔