بلوچستان لبریشن چارٹر۔ حصہ دوم

526d2e410e58d 
بلوچستان لبریشن چارٹرکو بلوچ قوم دوست رہنما حیربیار مری نے دیگر بلوچ قوم دوست دانشوروں کی مدد و مشاورت سے تربیت دیا اور اسے بلوچ سیاسی جماعتوں اور بلوچ عوام کے سامنے مزید ترمیم کیلئے پیش کیا ۔

حصہ دومII
*
۔جدوجہد کے جامع طریقے

شق: 9 150 بلوچ قومی جدوجہد برائے آزاد و جمہوری بلوچستان میں سب کو شامل کرنا ہے۔ یہ بلوچستان اور بلوچستان سے باہر رہنے والے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کے لیے ہے۔ اس میں سیاسی تعلق، نسلی پس منظر یا نظریاتی اور مذہبی عقیدے سے قطع نظر تمام آزادی پسند مرد، عورتیں اور بچے شامل ہیں۔
شق: 10 150 آزادی کے لیے بلوچ جدوجہد مختلف طریقوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں ایک آزاد اور خود مختار بلوچستان کے حصول کے لیے بلوچ یا بین الاقوامی حلقوں کی طرف سے ہرطرح کی مدد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے یہ جدوجہد پارٹی سیاست، اور ٹریڈیونینز، طلباء تنظیموں، خواتین کی انجمنوں، ادیبوں کی انجمنوں، وکلاء کی انجمنوں، صحافیوں کی انجمنوں، کسانوں کی انجمنوں وغیرہ جیسی منظم انجمنوں اور تنظیموں کے ذریعے ہوگی۔ اس میں پریشر گروپ؛ انسانی حقوق کے علمبردار، ماحولیات سے متعلقہ لوگ ، جدوجہد کے دوران شکار ہونے والے افراد کے اہل خانہ، جوہری ہتھیاروں کے خلاف جدوجہد کرنے والے، جنگوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے اور سول نافرمانی اور جدوجہد کے وہ طریقے جو کہ خود حفاظتی اقدام کے طور پر اختیار کیے جاتے ہیں، شامل ہوں گے۔
شق: 11 150 قابض ریاستوں کی جعلی پارلیمنٹ میں شامل ہونا اس منشور کی روح کے خلاف ہے۔ سامراج کی مرضی کے ان سامراجی اداروں میں حصہ لینا ہماری آزادی کے حصول کی جدوجہد میں رکاوٹ بنے گا۔ اس لیے کوئی فرد یا سیاسی تنظیم جو اس منشور کو منظور کرتی ہے وہ پاکستانی یا ایرانی جعلی پارلیمانی نظام میں شامل نہیں ہوسکتی۔
شق: 12 150 آزادی کے لیے کی گئی ہر قسم کی جدوجہد بین الاقوامی قوانین کی حدود کے اندر اور انسانی حقوق کی روایات کے عین مطابق ہو گی۔


حصہ سومIII
*
سیاسی نظام کا جواز

شق: 13 150 بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کا منتہائے آخر بلوچ قوم کی قسمت کو بلوچ عوام کے ہاتھ میں دینا ہے۔
شق: 14 150 بلوچستان میں نافذ سیاسی نظام کا قانونی اور اخلاقی جواز بلوچستان کے آزاد لوگوں کے فیصلے ہوں گے جن کا اظہار وہ آزاد اور جمہوری طورپر منعقدہ عام انتخابات میں کریں گے، جن کی نگرانی اقوام متحدہ اور دیگر آزاد ادارے کریں گے اور جن کا مشاہدہ قومی و بین الاقوامی میڈیا کرے گا۔
شق: 15 150 بلوچستان میں کسی بھی سیاسی نظام کا اس وقت تک کوئی اخلاقی بنیاد اور قانونی جواز نہیں ہے جب تک وہ غیر قانونی قبضے سے آزاد نہیں ہوتا۔ بلوچستان میں نمائندہ جمہوریت اور عوام کی حکمرانی کو صرف اس وقت قانونی جواز ملے گا جب عوام سیاسی طاقت کو استعمال کریں گے اور یہ صرف بلوچ عوام کے نام پر استعمال نہیں ہوگی۔
شق: 16 150 قابض طاقتوں کا بنایا ہوا سیاسی قوت کا ڈھانچہ بلوچستان کے شہریوں کی آزاد منشا کی نفی کرتا ہے نہ کہ اس کی عکاسی کرتا ہے۔ اس طرح کا ظالمانہ سیاسی نظام آزادی اور جمہوریت کے منافی ہے۔
شق: 17 150 غلامی میں جمہوریت کی واضح دوغلاپن کو صرف محکوم قوم کو غیر قانونی قبضے سے نجات دلا کر ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ جب تک بلوچستان موجودہ نوآبادیاتی، جغرافیائی و سیاسی حد بندیوں اور قواعد میں مقید رہے گا، جمہوریت، انصاف اور انسانی حقوق کا احترام صرف کھوکھلے نعرے ہی ہوں گے
شق: 18 150 سماجی اور سیاسی حقوق صرف اس قوم کے لیے بامعنی ہوتے ہیں جس پر غیرقانونی قبضہ نہیں ہوتا اور جہاں شہری جمہوریت پسند بننا چاہتے ہیں اور اپنی مرضی سے خود کو اس سیاسی اقتدار کے حوالے کرتے ہیں، جو باہر سے مسلط نہیں کیا جاتا۔
شق: 19 150 تاریخی ناانصافیوں اور استحصال سے مکمل طور پر نجات حاصل نہیں کی جا سکتی۔ کسی طرح کا حکومتی نظام بھی ان تمام ناانصافیوں کا تدارک نہیں کر سکتا جو ایک قوم کے ساتھ ماضی میں کی گئی ہوں۔ البتہ آزادی، انسانی حقوق، سماجی انصاف، یکساں مواقع کی فراہمی، اور معاشی قابلیت کے اصولوں پر چلنے والا ایک جمہوری سیاسی نظام ہی وہ نظام ہے جو بلوچستان میں قابل عمل ہو سکتا ہے۔


حصّہ IV
بامعنی جمہوریت اور امن

شق: 20150 ایک بامعنی جمہوریت کی یقینی ذمہ داری لینے کیلئے، ایک لازمی شرط ایک جمہوری ماحول کی فراہمی ہے۔ اس کا مطلب ہے دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ایک آزاد میڈیا اور صحافت، خود مختار اور آزاد عدلیہ، آزاد اسمبلیاں اور ایسوسی ایشنز، معاشی مواقع میں برابری، موزوں تعلیم اور کثیر الجماعتی سیاست۔ ایک بامعنی جمہوریت اس وقت تک نافذ نہیں کی جاسکتی جب تک کہ ایک قوم کا معاشرہ، تہذیب، سیاست، قانون، اخلاقیات، زبان، معیشت اور ماحولیات ایک معاندانہ نوآبادیاتی قوّت کے شکنجے میں ہو۔ ان لازمی اجزاء کی غیر موجودگی میں جمہوریت فرضی سی رہتی ہے اور اس کو فوجی تسلط کے غلبہ کو چھپانے کے ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
شق: 21150 قابض ریاستوں کی تحویل میں موجود تمام بلوچ سیاسی قیدیوں کو فوری اور غیرمشروط طور پر رہا کیا جانا چاہیئے۔
شق: 22150 بلوچستان کے تمام گمشدہ افراد کے انجام کی تفتیش کرنے اور اِن جرائم کے مرتکب ہونے والوں کو بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے یو این او اورقومی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی زیرِ نگرانی ایک کمیٹی بنائی جانی چاہیئے۔
شق: 23150 تنازعہ کا حل کیا جانا
A)
جیسا کہ بلوچستان پر غیر قانونی طور پر قبضہ کیا گیا ہیتمام قابض قوّتوں کو بلوچستان سے غیر مشروط طور پر نکل جانا چاہئے۔ ورنہ یہ بین الاقوامی معاشرے کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ غیر قانونی قبضہ کو ختم کرنے کیلئے بلوچستان میں مداخلت کریں۔
B)
قابض قوّتوں کے نکل جانے کے بعد، عالمی برادری کو چاہیے کہ سرحدوں کو محفوظ بنانے اور سیاسی اور قانونی اداروں کے قیام کیلئے بلوچستان کی معاونت کرے۔
C)
بلوچستان کی عبوری حکومت 24 ماہ کے اندر عام انتخابات منعقد کرے گی اور سیاسی اقتدار بلوچ قوم کے منتخب نمائندوں کو منتقل کر دے گی۔
شق: 24150 تمام بین الاقوامی میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں اور امدادی ایجنسیوں کو لازمی طور پرمقبوضہ بلوچستان کے تمام حصّوں تک بلا روک ٹوک رسائی فراہم کیا جانا چاہیئے۔
شق: 25150 آزادی کی مزاحمتی تحریکوں اور مسلح تصادم کے حوالے سے قابض ریاستوں کے متعلق چوتھے جنیوا کنونشن میں طے کئے گئے اصولوں کا مکمل نفاذ ہونا چاہیئے۔


حصّہ V
آئینی قانون اور انصاف

شق: 26150 عوامی جمہوریہِ بلوچستان ایک جدید سیکولر اور جمہوری آئین تیار کر کے اسے اپنائے گی
شق: 27150 ایک آزاد بلوچستان میں آمرانہ سیاسی نظاموں کی تمام صورتوں کو، چاہے وہ کسی بھی نام سے ہوں، عزم واستقلال کے ساتھ اورمکمل طور پرمسترد کر دیا جائے گا۔
شق: 28150 بلوچستان کا سیاسی نظام خصوصی طور پرشخصی آزادی، آزادیِ خیال و اظہار، ایک نمائندہ حکومت اور ایک خودمختار نظامِ عدل کے اصولوں پر مقرر کیا جائے گا۔ ان اصولوں کا حقیقی نفاذ اس چیز کو یقینی بنائے گا کہ بلوچستان کی خودمختار ریاست کو کسی قسم کی آمریت اور جامع نمائندگی کے بغیر سیاسی نظاموں سے بچایا جاسکے۔
شق: 29150 قانون کی نظر میں برابری کا فرمان بلوچستان کےآئین کا ایک مرکزی قانون ہو گا۔ اس قانون کے مطابق کسی کو بھی قانون کی اجازت کے بغیرکسی شخص کی آزادی، نجی معاملات اور جائیداد میں دخل اندازی کرنے یا دھاوا بولنے کی اجازت نہیں ہوگا۔
شق: 30150 عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کے بغیر آزادی، انصاف، امن و امان کا رواج، خود مختاری، تحفظ، اظہارخیال کی آزادی اور انصاف نہیں ہو سکتے۔ نظام انصاف چلائے جانے کیلئے، بلوچستان میں نظامِ عدل خود مختار رہے گا۔ کسی نظامِ عدل کی خودمختاری پابندی اور توازن کے نظام کار کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ استبدادیّت، جبر،غلط اور ناجائز انداز میں حکومت کے چلائے جانے اور ناانصافیوں کی روک تھام کرے گی اور قانون کے اندر آزادی کو یقینی بنائے گی۔
شق: 31150 عدل اور انصاف کو یقینی بنائے جانے کیلئے بلوچستان میں قانون کی عدالتیں کھلے اور منصفانہ انداز میں کام کریں گی۔
شق: 32150 ایک عوامی جمہوریہِ بلوچستان میں یہ چیز مقدم ترین اہمیت کی حامل ہے کہ ایک منصفانہ مواخذہ کے غیر مشروط اصول کا بول بالا کیا جائے اور اس کا تحفظ کیا جائے۔ غیر قانونی سرگرمی کے ہر ملزم کو ایک خود مختار اور غیر جانبدار ٹریبیونل کی جانب سے ایک منصفانہ سماعت کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ گناہگار ثابت ہو جانے سے قبل بے قصور تصور کئے جانے کا اصول تمام ملزمان پر لاگو ہوتا ہے۔دفاع کو یقینی بنانے کی کم از کم ضمانتیں تمام ملزمان کو فراہم کی جائیں گی۔ ہر ملزم/ملزمہ کو اس کے مقدمہ پر ایک بالائی ٹریبیونل کی نظرِ ثانی کا حق حاصل ہے۔
شق: 33150 قدرتی فطری عدل وانصاف بلوچستان کے نظامِ عدل کی بنیاد بنے گا۔ اس کے پہلے اصول کے مطابق کسی فرد کو اپنے ہی مقدمہ میں جج نہیں ہونا چاہیئے۔ ایک حقیقی اور منصفانہ عدلی فیصلہ پر صرف اس وقت ہی پہنچا جا سکتا ہے جب جج غیر جانبدار ہو۔قدرتی عدل کا دوسرا اصول یہ کہتا ہے کہ ہر کسی کو لازمی طور پر یہ حق حاصل ہونا چاہیئے کہ ان کی اپنے دفاع میں سماعت کی جائے۔ اگر ملزم کو اپنے حق میں سماعت کے حق سے محروم کیا جا رہا ہو تو یہ قدرتی عدل کے منافی ہو گا۔
شق: 34150 بلوچستان میں ہر فرد کو ایک جیسے قانونی حقوق کے ساتھ تحفظ دیا جائے گا۔ قانون ان سب افراد کو مساوی تحفظ فراہم کرے گا جن کی قانون کے تحت اقدام کی آزادیِ کو پامال کیا گیا ہو۔ تحفظ کی ان جہتوں میں شامل ہوں گے
a )
حفاظتِ ذاتی، b) حملہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی یا سول اقدام، c) غلط گرفتاری، حبسِ بے جا کے خلاف چارہ جوئی کا حق، d) گرفتار کئے جانے کی صورت میں، ضمانت پر رہائی کا حق، اور پَروانہِ حاضریِ ملزم کا حق۔
شق: 35150 زندگی کا حق ہر شخص کا لازم ترین بنیادی حق ہے اور اس کو کسی بھی شخص سے چھینا نہیں جا سکتا ہے۔سولی پر چڑھا کر سزائے موت، تشدد یا کسی بھی دیگر قسم کے غیر انسانی اقدام کے ذریعے ظالمانہ انداز میں کسی فرد کو زندگی سے محروم کر دیا جانا انسانیت کی روح، بلوچ اخلاقی ضابطیاوراقدار کیسخت منافی ہے۔ عوامی جمہوریہِ بلوچستان کے تحت یہ اقدامات کْلّی اور قطعی طور پر ممنوع ہوں گے۔


حصّہ VI
حق تلفی کے خلاف اور مساوی مواقع کے حق میں

شق: 36150 ایک آزاد اور جمہوری بلوچستان کرپشن کے خلاف ایک مضبوط اور بلا سمجھوتہ نقطہِ نظر رکھے گا اور اس کو ہر سطح پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے ہر کوشش کرے گا۔
شق: 37150 ریاست کے ایک ذمہ دار آلہِ کار کو مؤثر اور فرض شناس انداز میں کام کرنے کیلئے اداروں کے ایک مستعد، شفاف اور قابلِ مواخذہ نظام کی تشکیل درکار ہوتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے کسی قومی یا مقامی حکومت کے سول ملازمین کا تقرر کھلے مقابلہ کے ذریعے میرٹ کے بنیاد پر کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ، سول ملازمین کو لازمی طور پر غیر سیاسی اور غیر جانبدار رہنا ہو گا۔ یہ چیز مختلف منتخب حکومتوں کے ساتھ غیر جانبداری کے ساتھ اور منصفانہ ذہن کے ساتھ کام کرنے کیلئے بجا ہے۔
شق: 38150 ایک آزاد بلوچستان جنس، پسِ منظر، عقیدہ، عمر اورنسلی بنیاد پر کسی بھی امتیازی سلوک کے خلاف جدوجہد کی حمایت کرے گا۔ بلوچستان میں تمام نسلی اور مذہبی اقلیّتوں کو اپنے عقائد پر عمل پیرا ہونے اور اپنی زبانوں اور روایات کو برقرار رکھنے اور ان کا تحفظ کرنے کیلئے آبادی کے باقی حصوں کی طرح بالکل ایک ہی پیمانے پر ایک جیسے حقوق حاصل ہوں گے۔
شق: 39150 تعلیم، صحت اور قانونی تحفظ تک رسائی کے حق کیلئے؛ ایک آزاد بلوچستان مساوی مواقع کے اصولوں پرعمل اور ان کے مطابق کام کرے گا۔ مساوی مواقع کے نفاذ کو ایک کھلے، شفاف اور قابلِ مواخذہ انداز میں بجا لایا جائے گا۔ اس کو خاندانی تعلقات، اقرباء4 پروری یا طرف داری کے بجائے انفرادی میرٹ کے اصول پر چلایا جانا چاہیئے۔
شق: 40150 ریاستِ بلوچستان تعلیم کو اپنی چوٹی کی ترجیحات میں سے ایک بنائے گی۔ 16 سال کی عمر تک تعلیم لازمی اور مفت ہو گی۔ حکومتِ بلوچستان یہ یقینی بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرے گی کہ ایک بامعنی تعلیمی نظام تمام بچّوں کیلئے دستیاب، قابلِ رسائی، موزوں اور اپنائے جانے کے قابل ہو۔ طلباء4 کی جسمانی اور ذہنی توقیر کے احترام کو فروغ دینے اور ان کی فطری استعدادوں، صلاحیتوں اور امکانی مواقع کی تعمیر کو ترجیح دی جائے گی۔
(
جاری ہے)

Comments are closed.