داعش کے سائے پاک سرزمین پر

sibte hasanسبط حسن گیلانی ۔ لندن


گزشتہ ہفتے خبر دی گئی کہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں داعش کا ایک کوارٹر پکڑا گیا۔اب معلوم نہیں یہ ضلعی ہیڈ کورٹر تھا یا صوبائی؟وہاں سے ہتھیاروں سمیت جدید کمپیوٹر اور لٹریچر بھی قبضے میں لیا گیا۔اس خبر کی گرد ابھی بیٹھنے نہیں پائی تھی کہ خبر آئی ایسا ہی ایک اڈہ لاہور میں بھی چل رہا تھا۔ایسی خبر کسی بھی ایسے شخص کے لیے حیرت کا باعث نہیں ہے جو پاک معاشرے کے تارو پور سے صرف واجبی سی آگاہی رکھتا ہے۔

داعش جیسی تنظیموں کے لیے کسی بھی عرب معاشرے سے زیادہ زرخیز کوئی زمین ہے تو وہ پاک سرزمین ہے۔آج سعودی عرب کو داعش سے سب سے زیادہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔اس کے لیے جو زمین ہموار ہوئی۔وہ کسی دوسرے نے نہیں بلکہ انہوں نے خود کی۔جو کسی دوسرے کے گھر کے سامنے گڑھا کھودتا ہے اس کے اپنے گھر کے سامنے گلُ وگلزار تو نہیں کھلتے۔داعش اور اس طرح کی کسی بھی دوسری مسلح دہشت گرد تنظیم کے لیے پاک سرزمین کو بارآور کیا صرف ضیا جیسے آمروں نے بنایا تھا؟

یہ حقیقت اپنی جگہ تاریخی ہے کہ ضیا نے اس سرزمین کو ایسے طریقے سے تیار کیا تھا۔ جیسے ایک کسان گیہوں کی فصل اگانے کی خاطر کرتا ہے۔ لیکن دوسرے سب اس سے لاتعلق رہے؟۔یا اپنی اپنی بساط کے مطابق اس خار دار فصل کو سیراب کرتے رہے۔حقیقت یہ ہے کہ آمریت کا دؤر ہو یا جمہور کا سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ کسی ایک نے بھی اسے تلف کرنے کی دل سے کوشش نہیں کی۔غیر جمہوری قوتیں ان کے ہاتھ میں ہتھیار تھما کر انہیں چلانے کی تربیت اور سہولت فراہم کرتی رہیں اور جمہور والے ان سے ووٹ بٹورنے کے لیے ان پر صدقے واری ہوتے رہے۔

لہولہان ہوتے رہے تو صرف عوام۔کچلے جاتے رہے تو ان کے بچے۔تباہ ہوتے رہے تو ان کے مسقبل۔آج تو سلطانی ء جمہور کا دؤر ہے۔لیکن حکمرانوں کے اطوار وہی ہیں۔سب کچھ بدل گیا لیکن یہ نہیں بدلے۔آج بھی اس بات سے انکاری ہیں کہ یہاں داعش کا کوئی وجود ہے۔ابھی دو تین سال پہلے ہمارے دوست مجاہد حسین کی کتاب ’’پنجابی طالبان‘‘ سامنے آئی تو پنجاب کے حکمرانوں نے بڑی ناک بھوں چڑائی۔ کہا یہ سب پروپیگنڈہ ہے۔ بھلا پنجاب اور طالبان۔ یہ کیسے ممکن ہے۔

لیکن زمینی حقائق عاقبت نا اندیش حکمرانوں کے پابند تو ہوتے نہیں۔ وہ اپنا آپ منوا کر رہتے ہیں۔آج بھی ان کے یہی طور طریقے ہیں۔ مان کر نہیں دے رہے۔نیشنل ایکشن پلان پر قومی عسکری ادارے اپنے حصے کا کام سر انجام دے رہے ہیں اور اس کے اثرات بھی اب دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں۔لیکن سول حکومت اپنے حصے کا کام دل جمی سے نہیں کر رہی۔وہ اب بھی لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔جو حکومت لاوڈ سپیکر پر پابندی اور فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر کو لگام نہیں ڈال سکتی اس سے کیا امید کی جاسکتی ہے۔اب داعش اور اس جیسی مسلح دہشت گرد تنظیموں کے وجود پر نظر ڈالتے ہیں۔

ان منظم جماعتوں کا وجود دو چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ایک نظریہ ۔بیانیہ ۔منشوریا آئیڈیالوجی۔جو ان کو اصل بنیاد اور جواز فراہم کرتا ہے۔دوسرا نمبر تلوار اور بندوق کا آتا ہے۔تلوار اور بندوق والوں کے خلاف تو ایکشن لیا جارہا ہے۔لیکن انہیں نظریاتی جواز فراہم کرنے والوں کے خلاف کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔طالبان۔ القاعدہ۔داعش اور دیگر طرح طرح کے ناموں سے سامنے آنے والی جماعتیں بظاہر تو الگ الگ ناموں اور پرچموں تلے جمع ہوتی اور جدوجہد کرتی ہیں۔لیکن ان کا ایجنڈہ تقریباً ایک جیسا ہی ہے۔

ٹھیک اسی طرح انہیں نظریاتی جواز فراہم کرنے والی قوتیں بھی الگ الگ پلٹ فارم سے متحرک ہیں۔ لیکن ان کا ایجنڈہ بھی تقریباً ایک جیسا ہی ہے۔جو اس مسلح جدوجہد اور نام نہاد جہادو قتال کو جواز فراہم کرتا ہے۔فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم مذہبی جماعتیں، مذہبی سیاسی جماعتیں،مذہبی تعلیم دینے والے مدارس،عام سرکاری تعلیمی اداروں میں مذہبی انتہا پسندنظریات کے حامل اُستاد،آئمہ مساجداور خاص کر مذہبی رجحانات رکھنے والے اخبار نویس اور ٹی وی سکرین پر منعقد ہونے والے مذاکروں میں گفتگو کرنے والے دانش ور اور تجزیہ کار۔جو الگ الگ شناخت اور پلیٹ فارم سے یہ زمین ہموار کر رہے ہوتے ہیں۔

آئیے اس آئیڈیالوجی کے چند بنیادی نکات پر نظر ڈالتے ہیں تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔

نمبر۱۔جمہوریت غیراسلامی طرزِ حیات و حکومت ہے۔
نمبر 2۔مغرب اسلام اور مسلمان دشمن ہے۔
نمبر3۔اسلام کے خلاف تمام غیر مسلم کفار اکٹھے ہیں اور ان کے خلاف جہادوقتال جائز ہے۔
نمبر4۔ملکی سرحدیں غیر اسلامی و غیر شرعی ہیں۔
نمبر5۔بھارت پاکستان اور اسلام دشمن ملک ہے۔
نمبر6۔پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کے اقتدار پر قابض حکمران ٹولے کو بزور تلوار اکھاڑ پھینکنا چاہیے۔
نمبر7۔ووٹ سے کسی بہتری کی کوئی امید نہیں۔
نمبر 8۔سیکولر اور لبرل ازم مکمل طور پر غیر اسلامی بلکہ اسلام دشمن نظریات ہیں۔
نمبر9۔سیکولر تعلیم کی بنیاد پر قائم تمام علوم و مشائدات مچھر کے پر سے بھی زیادہ حقیر ہیں۔
نمبر10۔سود مکمل طور پر غیر اسلامی شے ہے اور اس کی بنیاد پر کھڑا ہونے والا اقتصادی ڈھانچہ اسلام دشمن ہے۔ جس کے خلاف ہر مسلمان کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔
نمبر۱۱۔امریکہ اسلام دشمن سپر پاور ہے۔
نمبر 12۔مسلم اُمہ ایک حقیقت ہے،اور تمام دنیا کے مسائل حل کرنے کی قوت رکھتی ہے۔

یہ چیدہ چیدہ نکات میں نے یہاں رقم کیے ہیں ورنہ ان کی فہرست خاصی طویل ہے۔اب ان کے تناظر میں اپنے ارد گرد پر نظر دوڑائیں ۔ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ ان دہشت گرد جماعتوں کو کس کس کے نظریاتی دستر خوان سے فکری خوراک میسر آ رہی ہے۔اور ہماری حکومت و ریاست ان سے کتنے کڑے ہاتھوں سے نمٹ رہی ہے؟اور سب سے بڑھ کر اس بیان کے مقابل دلائل کو کس حد تک سہولت بہم پہنچا رہی ہے۔

Comments are closed.