خواتین اور معاشی مسئلہ

ریاض حُسین

WHBW 
انسان کا پیدائشی مسئلہ معاش کا مسئلہ ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ معاش انسانی زندگی میں کتنااہم ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے خوراک کو دین کا چھٹا اور سب سے اہم رکن قرار دیا تھا۔اُن کی منطق یہ تھی کہ جب تک انسان کا پیٹ نہیں بھرتا تب تک دین کے باقی ارکان اُس سے ممکنہ طور پر ادانہیں ہوسکتے ہیں۔

معاشی مسئلے کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ہمارے معاشرے کی عمومی سوچ اس مسئلے کو انسانیت کا مشترکہ مسئلہ جان کر مشترکہ حل ڈھونڈنے کے بجائے ایک صنف کو بوجوہ اس عمل سے لا تعلق کرتی ہے۔ اس سوچ کے مطابق عورت کا کام صرف بچہ پیدا کرنا ہے جبکہ معاشی کفالت کا ذمہ دارمرد ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عورت کو معاشی کردار کی ادائیگی سے محروم کرنا مناسب ہے؟

اللہ تعالیٰ نے معاشی مسئلے کے حل کے لئے مناسب ذرائع کو خلق کیا ہے جیسے زمین، پانی، پہاڑ اور اِن کے اندر کے خزانے وغیرہ اور انسان کو عقل جیسی نعمت سے سرفراز فرما کر کچھ رہنما اُصول بھی عطا کئے ہیں اور انسا ن یعنی مرد اور عورت دونوں کو اس آزمائش میں ڈال دیا ہے کہ وہ کیسے عمل کرتے ہیں۔ پرور دگار نے یہ قانون بنا یا ہے کہ عمل کی بنیاد پرانسان کی جزأ اور سزا کا تعین کیا جائے۔یہ آزمائش مرد اور عورت دونوں کے لئے ہے اس لئے کسی بھی صنف کو اس عمل سے محروم رکھناخدا کے ہاں بجائے خودایک جرم شمار ہوسکتا ہے۔

معروضی حالات اس طرح ہو سکتے ہیں کہ ایک عورت وقتی طور پر معاشی سرگرمیوں سے دور رہے لیکن اس طرح کے حالات مرد کو بھی پیش آسکتے ہیں ۔ مثلاً پاکستان میں ایسے مردوں کی کمی نہیں ہے جو مختلف قدرتی وجوہات کی بنأ پر یا اپنی بد اعمالیوں(جیسے نشے کی لت میں مبتلا ہونا) کی وجہ سے خاندان کی کفالت میں اپنا حصّہ ڈالنے کے بجائے گھر کی معیشت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ لہٰذا عورت کو معاشی سرگرمیوں سے بری الذمّہ قرار دینا زمینی حقائق کے بھی بر خلاف ہے۔

مزید یہ کہ معاشی مسائل کے لئے حل تلاش کرنے کے اس عمل میں معا شرے کے بہت سارے قواعد و ضوابط اور اقدار پرواں چڑھ جاتے ہیں جس سے ایک معاشرہ وجود میں آتا ہے۔مثلاً سابق سوویت یونین معاشرے کی بنیاد کمیونسٹ معاشی نظام پر مبنی تھی جو اپنے رہن سہن اور روّیوں میں باقی دنیا میں موجود سرمایہ دارانہ معاشروں کے رہن سہن اور روّیوں سے با لکل مختلف تھا اور یہ اختلاف زیادہ تر معاشی نظام میں اختلاف کی وجہ سے تھی۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معیشت اور اس سے جڑے ہوئے مسائل کس طرح معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں ۔لہٰذا عورتوں کو یا معاشرے کے کسی بھی طبقے کو معاشی سرگرمی سے دور رکھنے کا مطلب معاشرے کے قواعد و ضوابط اور اقدار پر اجارہ داری قائم کرنا ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے انسانی زندگی کے لئے رہنما اُصول مقرر کئے ہیں جن کے اندر رہ کر ہر زمانے کا انسان نہ صرف معاشی بلکہ کسی بھی مسئلے کا تخلیقی حل تلاش کرسکتا ہے جو اُ س زمانے کے لحاظ سے بہترین حل ہو سکتا ہے ۔

لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ وہی حل ہر زمانے کے اُن جیسے مسائل کے لئے بھی بہترین حل ہو۔ مثلاً ماضی قریب میں انسان زراعت کاکام ہاتھوں سے کرتا تھا جو شاید اُس وقت کے لئے ایک بہترین طریقہ تھا لیکن آج کے انسان نے زراعت کے نت نئے طریقے ایجاد کئے ہیں اور عین ممکن ہے کہ آنے والے دور کا انسان وہ حل تلاش کرے جس کے بارے میں آج کے انسان نے سوچا تک نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ بہترسیبہتر کی تلاش کا یہ عمل رکنے والا نہیں ہے کیونکہ یہی قانون فطرت ہے ۔ 

اس ارتقائی سفرکے نتیجے میں انسانی عقل کی نشو نما ہوتی ہے جو اس عقل کے خالق کا منشأ ہے۔ ظاہر ہے اس عقلی نشوو نما میں عورت اور مردبرابر کے شریک ہیں۔ تبھی تو قرآن پاک میں بے شمار جگہ میں عقل کے استعمال کے واضح احکا مات بلا تخصیص صنف آئے ہیں۔ نتیجے کے طور پر قانون قدرت یہ ہے کہ مسئلہ چاہے معاشی ہو یا کوئی اور اس کا کوئی مستقل حل پہلے سے موجود نہیں ہے۔ ورنہ عقلی اور عملی ارتقأ کا سفر کہیں رک جاتا ‘ اور اسلام کے اس آفاقی حکم کا جواز نہ ہوتا کہ انسان(نہ کہ صرف مرد) نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرے۔ 

اس ساری بحث سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ارتقأ کے اس انسانی سفر میں عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ عورتوں کے کارناموں سے بھرپور ہے۔میدان چا ہے تجارت کا ہویا طب کا یا کوئی اور میدان ہو‘ خواتین نے اپنی قابلیت اور صلاحیت کے وہ جھنڈے گا ڑے ہیں کہ رہتی دنیا تک اِن کی مثالیں انسانیت کی رہنمائی کرتی رہیں گی۔

البتہ یہ بدقسمتی ہے کہ چند ذاتی مفادات کی خاطرمختلف دور کے مردوں نے عورتوں کے حقوق پر ناجائز ضربیں لگائی ہیں جس کی وجہ سے یقینی طور پر انسانی ارتقاء کے فطری سفر میں خلل واقع ہوا ہے۔

ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی کتاب ’’تاریخ کی تلاش ‘ ‘ میں اُن محرکات کا تجزیہ پیش کیا ہے جو عورتوں کے لئے ایک مخصوص ذہن کی نشو نما میں کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ظاہر ہے یہ ایک معاشرتی ظلم ہے جس کو روکنا عین فرض ہے۔

One Comment