اپنے سانچے میں ڈھالنا


qazi-310x387
فرحت قاضی

جاگیردار
دیہاتیوں کوکیسے اپنے سانچے میں
ڈھال لیتا ہے

انسان نے جانوروں کو ہی نہیں وقت کے ساتھ ساتھ ہم جنسوں کو سدھانا بھی سیکھ لیا۔
امیر اور غریب دونوں انسان ہوتے ہیں۔
مگرجب دونوں ایک جگہ بیٹھے یا جارہے ہوتے ہیں تو ان میں پایا جانے والا امتیاز اور فرق واضح طور پر نظر آجاتا ہے ایک نگاہ ڈالنے پر ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ مالک کون ہے۔
جاگیردارانہ ہو یا سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام ہو ایک انسان دوسرے کو شیشے میں اتارنے میں لگا رہتا ہے تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ کا حصول ممکن ہو۔
ایک شوہر چاہتا ہے کہ بیوی کی تمام وفاداریاں اس کے لئے وقف ہوں ادھر اس کی زبان سے حکم نکلتا ہو اور ادھر اہلیہ دم ہلاتی پہنچ جاتی ہو چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لئے مخصوص تعلیم و تربیت اور ماحول کا ہونا شرط اولیں ہوتا ہے۔


خاتون معاشی لحاظ سے شوہر کی دست نگر ہو۔
اس کے گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھنے پر پابندی ہو تو وفادار ی کی شرح بھی نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔
ایک باپ کی بھی یہی تمنا ہوتی ہے کہ اس کا بچہ بڑا اور جوان ہوکر اس کا دست و بازو بنے لہٰذا وہ اسے اپنے ساتھ کبھی کبھار کھیت پر لے جاتا ہے اور ایسے تعلیمی ادارے میں داخل کراتا ہے جہاں کھیتی باڑی، ٹرک اور گاڑی چلانا ہی فقط نہ سکھایا جاتا ہو بلکہ باپ اور بڑے بھائی کے سامنے سرجھکاکر بات کا جواب دینے،محبت اور وفاداری سکھائی جاتی ہو۔
جاگیردار کے پاس جائیداد ہوتی ہے جس پر ہل چلانے،پودے لگانے،پانی دینے،کاٹنے اور حفاظت کے تمام مراحل طے کرنے کے لئے
کھیت مزدوراور چوکیدار کی ضرورت ہوتی ہے۔
چنانچہ کاشتکار اس کے کھیت میں ہل چلاکر بیچ ڈالتے ہیں وقتاًفوقتاً پانی دیتے ہیں فالتو گھاس نکالتے ہیں اور فصل پکنے پر کٹائی کرتے ہیں اور پھر اس فصل کو بازار لے جاکر فروخت کیا جاتا ہے۔

اس طرح تین مرحلے طے ہونے پر اس کے ہاتھ پیسہ آتا ہے جس کا حساب کتاب اور اسے بینک میں جمع کرانے کے لئے بھی ایک یا ایک سے زائد منشیوں کا ہونا اس کی مجبوری ہوتی ہے۔
اس لئے ایک جاگیردار کے پاس ،کھیت مزدور، ٹریکٹر ڈرائیور، بازار میں خرید وفروخت،بینک سے پیسہ نکلوانے اور جمع کرانے سمیت درجن بھر انسانوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔
جس کے پاس پیسہ ہوتا ہے اسے چوری کا خدشہ بھی رہتا ہے اور جان کا اندیشہ بھی رہتا ہے ۔
چنانچہ ان درجن بھر کے علاوہ اس کے جان و مال کی حفاظت کے لئے دو یا دو سے زائد باڈی گارڈ بھی ہوتے ہیں
خدمات کے ان الگ الگ مراحل کے لئے الگ الگ خصوصیات کا حامل ہونا بھی طے شدہ حقیقت ہے
کھیت پر محنت کرنے والا صحت مند اور محنتی ہو کام کرنا جانتا ہو اس میں رتی بھر چوری کی عادت نہ ہو وہ مالک کے عیوب پر پردہ ڈالتا ہو
ڈرائیور گاڑی چلانا جانتا ہو ا سے پرزوں کی شدبد بھی حاصل ہو۔
تخم خرید نے اور فصل بیچنے والے بابو سے حساب کتاب میں بھول نہ ہوتی ہو وہ اچھا بیج کم قیمت اور فصل زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کرنے کی مہارت رکھتا ہو
اس کے ساتھ ہی مالک کا پیسہ مالک کے ہی اکاؤنٹ میں پہنچاتا ہو اس میں سے ایک پائی بھی اِدھر اَدھر کرنے کا دل میں خیال نہ رکھتا ہو
چوکیدار اس کے پالتو جانوروں اور کھیت مزدوروں پر نظر رکھتا ہو۔
باڈی گارڈ فقط جسمانی طور پر تکڑا ہی نہ ہو بلکہ ضرورت پڑنے پر مالک کی خاطر جیل بھگتنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہو حتیٰ کہ وہ اس کی خاطر قتل کا ارتکاب بھی ۔کرسکتا ہو۔


دیہہ میں ایک جاگیردار کی ملازمت کے لئے یہ تمام شرائط ہوتی ہیں۔
کاشتکار فصل کو وقت پر پانی نہیں دیتا ہے فالتو اور نقصان دہ گھاس نکالنے میں ناکام رہتا ہے بابو حساب کتاب میں گھپلا کرتا ہے باڈی گارڈ بوقت ضرورت پیٹھ دکھادیتا ہے تو یہ ان کا یوم حشر ہوتا ہے ان کا دانہ پانی اٹھ جاتا ہے ان کو اپنے، بیوی اور بچوں کے پیٹ پالنے کے لئے کسی دوسرے جاگیردار اور مالک کے گھر پر دستک دینا پڑتے ہیں ایک ملازم کی وفاداری مشکوک ہوجاتی ہے تو اسے کام کا ملنا دشوار ہوجاتا ہے
جاگیردارانہ نظام میں پیشے بھی موروثی ہوتے تھے لہٰذا ایک مزدور کواچھے اور برے دونوں حالات میں کام کرنا ہوتا تھا
ایک بچے کے لئے اس کاباپ،دیگر افراد خانہ اور گھر سکول کی حیثیت رکھتے ہیں ایک باپ اپنا پیشہ بچوں کو منتقل کرتا ہے لہٰذا بچہ باپ کو جاگیردار کے سامنے سرجھکائے چپ چاپ کھڑے دیکھتا
اور سوالات کے جوابات
جی ہاں،جی ہاں،میں دیتے ہوئے پاتا ہے تو اس طرح اس کی بھی تربیت ہوتی ہے۔
علاوہ ازیں جاگیردار کھیت مزدور کے لئے مالک کی ہی نہیں استاد کی حیثیت بھی رکھتا ہے وہ اس سے سیکھتا ہے کہ بیوی اور بچوں کو کیسے سدھایا جاتا ہے ان کو اپنے مفادات کے سانچے میں ڈالا جاتا ہے
چونکہ ملازم کے مالک سے مفادات بندھ جاتے ہیں اس لئے مالک جس چیز اور فعل کو اچھا کہتا ہے وہ بھی کہنے لگتا ہے اور اس کے فائدے اس کو مالک کے کام کرتے ہوئے ہی نہیں بلکہ گھر میں بھی نظر آنے لگتے ہیں اس لئے ارادی اور غیر ارادی طور پر یہ مالک کے بنائے ہوئے سانچے میں ڈھل جاتا ہے اس کا عملی نمونہ الگ الگ مالک کے الگ الگ سلوک اور اس کے کھیت مزدور، ٹریکٹر ڈرائیور، بابو اور باڈی گارڈ کے رویوں میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
ایک مالک اپنے ملازم سے کھر درے،ترش اور سخت لب و لہجہ میں بات چیت کرتا ہے اسے سرزنش ہی نہیں مارتا پیٹتا بھی ہے تو یہ ملازم گھر میں یہی کچھ اہلیہ اور جگر گوشوں سے بھی کرنے لگتا ہے۔


علاوہ ازیں ایک جاگیردار کے پاس ضرورت ،آسائش اور تعیشات کی ہر چیز بافراط موجود ہوتی ہے تو کھیت مزدور کے پاس ہل، بیل، درانتی، بیلچہ، گھڑا، چارپائی اور ہزار دو ہزار روپیہ ہوتا ہے مالک کو قیمتی اشیاء کی چوری کا خدشہ رہتا ہے اور چوری کو وہ برا تصور کرتا ہے تو ملازم کو بھی یہ خدشات ستاتے ہیں مالک سے قیمتی کار کی چوری اس کے لئے کوئی بڑی بات یا معاملہ ہو یا نہ ہو مگر کھیت مزدور سے کوئی درانتی چھپا لیتا ہے تو یہ اس کے لئے بڑا نقصان ، بری بات،واقعہ یا واردات ہوتی ہے۔
چونکہ دونوں میں یہ فعل مشترک ہوتا ہے لہٰذا کیا مالک کیا کھیت مزدور کیا بابو یا ڈرائیور سب ہی اسے برا کہتے ہیں اور اسے برا کہنے میں وہ سب حق بجانب بھی ہوتے ہیں کیونکہ انسان مہینہ بھر اور سالہا سال محنت کرکے کچھ بنالیتا ہے اور ایک دوسرا اسے چھپ چھپا یا زور زبردستی چھین لیتا ہے ملازم مالک کی نقالی اور اپنی ناخواندگی کے باعث اس کے اتنے زیادہ زیر اثر ہوتے ہیں کہ ان کو بعض افعال سے پہنچنے والے نقصانات کا خیال بھی نہیں آتا ہے۔


ایک جاگیردار سماج میں اپنی حیثیت منوانے،مقام پیدااور قد وقامت بڑھانے کے لئے شادی اور فوتگی کے مواقع پر کئی دیگ پکواتا اور شاندار ضیافت کا اہتمام کرتا ہے تو اس کے پاس یہ سب کچھ کرنے کے لئے وسائل اور پیسہ بھی ہوتا ہے علاوہ ازیں اس کو فائدہ بھی ہوتا ہے۔
ایک ملازم اپنی برادری میں ناک اونچی رکھنے کے لئے ایسا کچھ کرتا ہے تو اسے قرضہ لینا پڑتا ہے جس سے وہ مالک کا مزید دست نگر ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر مزید پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے
اسی طرح مالک اسے سرزنش کرتا اور مارتا پیٹتا ہے اور پھروہ گھر میں اہلیہ اور بچوں کو گالیاں دیتا یا پٹائی کرتا ہے تو ارادی یا غیر ارادی طور پر وہ مالک کی آمریت اور آمرانہ رویہ کو پروان چڑھانے میں اس سے تعاون کرتا ہے ملازم کی اس نقالی سے جاگیردارانہ نظام کے فلسفہ حیات کو تقویت ملتی ہے۔
جاگیردار تو یہی چاہتا ہے کہ اس کی ہر بات اور ہر عمل کو اپنایا جائے چنانچہ غریب محنت کش اپنے گھروں میں انجانے طور پر اس انداز گفتگو اور سوچ پر عمل کرتے ہیں تو جاگیردارانہ سوچ و فکر کو مزید پھلنے پھولنے کا موقع ملتا رہتا ہے چنانچہ عوام اس کے بنائے ہوئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں جس سے انکے مصائب کے شب و روز طویل ہوجاتے ہیں۔

Comments are closed.