سعودی عرب : شیعہ رہنما سمیت 47 افراد کا سر قلم

0,,18837837_401,00

سعودی عرب نے ہفتہ کے روز شیعہ رہنما نمر النمر سمیت 47 افراد کا سرقلم کردیا۔

پچھلے تیس سال میں یہ پہلا واقعہ ہے جب سعودی عرب میں اتنی بڑی تعد اد کا سرقلم کیا گیا ہے۔شاہ سلیمان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اب تک ڈیڑھ سو افراد کا سرقلم کیا جا چکا ہے۔تجزیہ نگاروں کے مطابق سرقلم کرنے میں داعش اور سعودی حکومت میں کوئی فرق نہیں۔

اے پی کے مطابق سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز الشیخ نے شیعہ عالم کو دی جانے والی موت کی سزا کا دفاع کرتے ہوئے کا ہے کہ ’یہ قیدیوں پر رحم ہے کیونکہ اب انھیں مزید گناہ کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔‘

مشرق وسطیٰ کے سرکردہ شیعہ سیاسی حلقوں اورایران نے سعودی شیعہ رہنما نمر کو دی گئی سزائے موت کی سخت مذمت کی ہے۔ ایران کے آیت اللہ خاتمی کے بقول نمر کی موت سعودی عرب پر حکمران ’آلِ سعود کے زوال‘ کی وجہ بنے گی۔

نمر النمر کی عمر 56 برس تھی اور وہ ان 47 افراد میں شامل تھے، جن کو سعودی عرب میں دہشت گردی کے جرم میں سنائی گئی۔ سزائے موت پر آج ہفتہ دو جنوری کے روز عمل درآمد کر دیا گیا۔

ان افراد میں سے کئی ایک نے عرب اسپرنگ کے دوران 2011ء میں سعودی عرب میں ہونے والے ان مظاہروں میں حصہ لیا تھا، جن کا مقصد خلیج کی اس ریاست میں شیعہ مسلم اقلیت کو معاشرے کے مرکزی دھارے سے دور رکھے جانے کے خلاف احتجاج تھا۔ ان مظاہروں کے دوران سعودی عرب کے زیادہ تر شیعہ اقلیتی آبادی والے مشرقی صوبے میں کئی افراد مارے گئے تھے اور بیسیوں گرفتار بھی کر لیے گئے تھے۔

مختلف نیوز ایجنسیوں کے مطابق ان 47 افراد میں سے، جنہیں سزائے موت دے دی گئی، نمر کے علاوہ چند دیگر شیعہ رہنما بھی شامل تھے۔ تاہم ان میں بڑی اکثریت سنی جہادی مسلمانوں کی تھی۔ ان سب افراد پر دہشت گردی کے ارتکاب کا الزام تھا۔

نمر النمر کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کی اطلاع ملنے اور سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی وژن کی طرف سے اس سزا پر عمل درآمد کی تصدیق کے بعد تہران میں ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ ریاض حکومت کو اس کی ’بہت بھاری قیمت‘ چکانا پڑے گی۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان حسین جابر انصاری نے نمر کی موت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا، ’’سعودی حکومت خود تو انتہا پسندوں اور دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتی ہے لیکن ملک کے اندر سے کی جانے والی تنقید کا جواب جبر اور موت کی سزاؤں کے ساتھ دیا جاتا ہے‘‘۔

اکثریتی طور پر شیعہ آبادی والی اسلامی جمہوریہ ایران اور سنی اکثریتی آبادی والی بادشاہت سعودی عرب علاقائی اور بین الاقوامی سیاست میں ایک دوسرے کے بڑے حریف ہیں۔ نمر اور دیگر شیعہ مظاہرین کو سنائی گئی سزائے موت کے حوالے سے تہران حکومت نے سعودی عرب سے کئی بار مطالبہ کیا تھا کہ وہ ان سزا یافتہ سعودی شہریوں کے لیے معافی کا اعلان کرتے ہوئے انہیں رہا کر دے۔ اس سزائے موت پر عمل درآمد کے خلاف تہران میں کل اتوار کو سعودی سفارت خانے کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا جائے گا۔

آلِ سعود کے زوال‘ کی پیش گوئی

نمر النمر عرف عام میں شیخ النمر کہلاتے تھے۔ ایران کے سرکردہ مذہبی رہنما آیت اللہ خاتمی نے کہا کہ نمر کی موت سعودی عرب پر حکمران اور ’آلِ سعود‘ کہلانے والے خاندان کے زوال کی وجہ بنے گی۔ آیت اللہ احمد خاتمی کے ایران میں حکمران طبقے کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ خاتمی نے کہا کہ سعودی حکومت ان کے بقول جس جبر اور انتقام کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، وہ حکمران خاندان کو زوال سے دوچار کر دے گا۔

بحرین میں مظاہرین کے خلاف آنسو گیس

نمر النمر کے سزائے موت دیے جانے کے خلاف خلیج کی عرب ریاست بحرین میں آج درجنوں مظاہرین نے احتجاج کیا، جنہیں منتشر کرنے کے لیے عینی شاہدین کے مطابق پولیس کو آنسو گیس استعمال کرنا پڑی۔ یہ مظاہرہ بحرین کے دارالحکومت میں کیا گیا اور مظاہرین النمر کی تصویریں اٹھائے ہوئے تھے۔ بحرین خلیج کی ایک ایسی ریاست ہے جہاں آبادی کی اکثریت کا مسلک شیعہ ہے لیکن جہاں اقلیتی سنی آبادی سے تعلق رکھنے والے شاہی خاندان کی حکمرانی ہے۔

شیعہ، سنی خلیج

نمر النمر کو سزائے موت دیے جانے کی لبنان اور عراق میں ایران نواز شیعہ حلقوں نے بھی مذمت کی ہے۔ لبنان میں حزب اللہ نے اسے سعودی حکومت کا ’ایک جرم‘ قرار دیا جبکہ بغداد میں عراقی حکومت نے کہا کہ نمر النمر کی موت شیعہ سنی مذہبی اختلافات کی خلیج کو مزید وسیع بنا دینے اور کشیدگی میں اضافے کا سبب بنے گی۔

DW

Comments are closed.