شعور بڑھانے اور گھٹانے میں ذرائع ابلاغ کا کردار

qazi-310x387فرحت قاضی

کتاب میں لکھا ہے:۔
۔’’ عورت مرد سے کم تر ہے ‘‘۔
قدیم ادب میں یہ اور اس نوعیت کے تصورات ہمیں ملتے ہیں لیکن اگر ہم مرد اور عورت کی تصویر سامنے رکھیں تو ان میں ہر لحاظ اور حوالے سے مماثلت نظر آئے گی۔
بال،آنکھیں،ناک،ٹھوڑی،کندھے اورہاتھ
جب سب کچھ ایک ہے تو عورت مرد سے کم تر کیوں ہے کیا وہ ذہنی طور پر کم تر ہے یا جسمانی لحاظ سے کمزور ہے۔
عورت کے حوالے سے یہ قدیم خیالات
ظاہر کرتے ہیں کہ معاشرہ مدری سے پدری کی طرف بڑھ رہا تھا بہر طور،آج صورت حال بدل رہی ہے عورت نے ہر شعبہ میں اپنا لوہا منوالیا ہے اور عورت تو کیا مرد بھی یہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ مرد سے کم تر نہیں ہے ہاں البتہ جو انسان کتاب پرستی کا شکار ہوتا ہے وہ یہی کہے گا کہ عورت مرد سے کم تر ہے
کتاب پرستی کی یہ ایک بڑی خرابی ہے۔

اسی طرح وقت اور حالات نے کئی مشہور و مقبول کتابوں کے کئی دعوؤں کو غلط ٹھہرایا بائبل میں تھا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے جسے برونو، کوپرنیکس اور گلیلیو نے باطل ثابت کردیا بعینہٰ انسان صدیوں تک مظاہر فطرت اور جانوروں کی پوجا کرتا رہا ہے مذاہب اور نظریات کی تاریخ اسی حقیقت کی طرف نشاندہی کرتی ہے کہ جب ایک نیا طبقہ معاشرے میں کروٹ لیتاہے تو اسے اپنا مقام پیدا کرنے اوروجود منوانے کے لئے نئے تصورات کی ضرورت پیش آتی ہے چنانچہ ایک نیا نظریہ،عقیدہ اور مذہب پیدا کرنا پڑتا ہے تاکہ نئے معاشی رشتوں کے لئے نئے اخلاقی جواز اور قدریں پیدا کی جاسکیں جہاں مذاہب میں یہ کمی رہ گئی تو اسے نئی روایات، رواجات اور رسومات سے پُر کیا گیا آج کا سرمایہ دار طبقہ جانتا ہے کہ عوام کو اپنی مشروبات گرمی تو کیا سرد موسم میں بھی بیچنے کے لئے گرم گرم گوشت کھاتے ہوئے دکھاکرپلائی جاسکتی ہے۔

بالادست طبقہ کی نمائندہ حکومت نصاب تعلیم کی طرح ذرائع ابلاغ کے جملہ وسائل ریڈیو ، ٹیلی ویژن ،اخبارات اور رسائل بھی اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے ذرائع ابلاغ کو وہ اپنے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے استعمال کرتی ہے اس مقصد کی خاطر وہ ان کے لئے ایسے قوانین وضع کرتی ہے تاکہ وہ ان کے زیر اثر رہیں او ر وہ کوئی ایسی بات شائع یا نشر نہ کرسکیں جو بالادست طبقات کے مفادات سے ٹکراؤ رکھتی ہو چنانچہ حکومت جن طبقات کی ہاتھ میں ہوتی ہے وہ اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں اگر ملک میں آمریت ہو تو پھر آئین و قوانین کی بالادستی کے لئے دلائل نہیں دئیے جاتے ہیں بلکہ اقتدار پر قبضہ کے لئے سیاست دانوں پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔

اخلاقیات اور مذہب کا براہ راست سہارا لیاجاتا ہے عوامی تضادات کو منفی رنگ دیا جاتا ہے حادثات کی خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے توہمات کو پھیلایا جاتا ہے اور ذرائع ابلاغ آمریت کو جمہوریت کے مقابلہ میں عوام اور ملک کے لئے مفید ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اگر حکومت مذہبی پیشواؤں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے تو ذرائع ابلاغ کے تمام پروگرام مذہبی نوعیت کے ہوتے ہیں اور اس کا تمام مقصد و مدعا عوام کو اقتصادی صورت حال بہتر بنانے اور سیاست سے دور رکھنا ہوتا ہے یہ سعی کی جاتی ہے کہ وہ ذہنی طور پر بالغ نہ ہونے پائیں اوران میں شعور کا فقدان رہے۔

اسی طرح اگر حکومت جمہوریت پرستوں کی ہے تو وہ اپنے نقطہ نظر کو اجاگر کرنے کے لئے ایسے پروگرام شائع اور نشر کرتے ہیں جن سے ان کے مفادات کی تکمیل ہوتی ہو یہ تمام قوتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ پر ایسے ڈرامے اور فلمیں دکھاتے اور بحث و مباحثہ کا اہتمام کرتے ہیں جن سے اسے تقویت پہنچتی رہے۔

آج کل عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے ٹی وی پر دن رات کرکٹ میچز دکھائے جاتے ہیں اور اس دوران ماحول کو انتہائی جذباتی بنایا جاتا ہے تاکہ عوام ان کے خلاف اپنے دلوں میں باغیانہ جذبات کو جگہ نہ دے سکیں کسی بھی واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کی صورت میں اس کا الزام ہمسایہ ممالک کی ایجنسیوں پرلگایا جاتا ہے نان ایشو کو ایشو بنایا جاتا ہے سیاست سے بے زاری پیدا کی جاتی ہے اور باقاعدہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تمام بحرانوں کا ذمہ دار سیاست دانوں اور عوام کو ٹھہرایا جاتا ہے دراصل ان ساری کاوشوں کی آڑ میں عوام کو سیاست کے اسرارورموز اور معاشی مسائل سے دور رکھنا ہوتا ہے۔

اس طرح اخبارات ،رسائل اور مختلف نجی ٹی وی چینلز مختلف طبقات کی بالخصوص طبقہ اشرافیہ کی نمائندگی کرتے ہیں اس لئے یہ حکومت پر اپنے مخصوص طبقاتی نقطہ نظر سے تنقید کرتے ہیں اس سب کا واحدمقصد حکومت میں زیادہ سے زیادہ شراکت داری ہوتا ہے یہ سارا کھیل اور جنگ عوام کے کندھوں پر بندوق رکھ کر لڑی جاتی ہے ان کی مثبت سوچ کو منفی رخ دینے کی پوری سعی کی جاتی ہے جبکہ ترقی پسند اقتصادی حالات کو بہتر بنانے ، ہمسایہ ممالک سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے، عوام کو مذہبی و سیاسی آزادیاں دینے اور اقلیتوں کے ساتھ مساوی سلوک کے مطالبات کے علاوہ عوا م کی ایسے خطوط پر تربیت کرنا چاہتے ہیں جس سے ان کو یہ محسوس کرایا جائے کہ ملکی و قومی وسائل پر مخصوص طبقات کی طرح ان کو بھی برابر کا حق حاصل ہے۔ 

اخبارات کے مالکان کا تعلق بھی کسی نہ کسی طبقہ اور سیاسی جماعت سے ہوتا ہے یاپھرکسی پارٹی کے لئے ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں کئی مالکان محض تجارتی بنیادوں پراخبار نکالتے ہیں اس لئے ایسے اخبارات حکومت سے فوائد سمیٹنے کی خاطر اس کی تعریف میں مبالغہ کرتے رہتے ہیں بعض اوقات یہ تنقید کا سہارا بھی لیتے ہیں لیکن ان تمام چیزوں کا انحصار عوام پر ہوتا ہے اگر وہ تعلیم یافتہ اور باشعور ہیں تو پھر اخبارات بھی حکومت کی غلط پالیسیوں پرتنقید کرنے کی جرائت کرتے ہیں ذرائع ابلاغ میں کام کرنے والے زیادہ ترافراد کا تعلق غریب یا متوسط طبقات سے ہوتا ہے وہ ملازمت کے چھوٹنے کے خوف سے وہی کچھ لکھنے پر مجبور ہوتے ہیں جو مالک چاہتا ہے علاوہ ازیں ان کی تحریروں میں اثر اور گہرائی اس لئے نہیں ہوتی کہ انہوں نے ان ہی سکولوں اور تعلیمی درس گاہوں میں تعلیم حاصل کی ہوتی ہے جن کی پالیسیاںیہی حکومتیں بناتی ہیں چنانچہ انجانے میں ایسی باتیں لکھتے رہتے ہیں جو ان کے طبقاتی مفادات کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ 
مختلف زبانوں میں چھپنے والے اخبارات مخصوص طبقات اوراپنے علاقوں کے مخصوص لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں اس لئے ان کی تنقید کو بھی اسی طرح دوستانہ یا مخاصمانہ انداز میں لیا جاتا ہے ایک مقامی یا اردو اخبار کی نسبت انگریزی اخبارات میں لکھنے کی زیادہ آزادی ہوتی ہے کیونکہ اسے ہمارے ملک کے بالادست طبقات اور بیوروکریسی پڑھتی ہے ان کی تنقید کو گھر کا معاملہ سمجھا جاتا ہے پھر ان کی تنقید عوام کے نقطہ نظر سے مطابقت نہیں رکھتی اور نہ ہی عام لوگ اسے پڑھ سکتے ہیں۔ 
اخبارات میں چھپنے والے مواد کا انحصار علاقے یا ملک کے عوام کی ذہنی سطح پر بھی ہوتا ہے اگر لوگ تعلیم یافتہ اورباشعور ہوں تو اخبارات میں کئی چیزیں چھاپنے کی اجازت ہوتی ہے لیکن اگر متعصبانہ ماحول ہوتو صحافی پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں ان کو حکومت اور بعض ریاستی اداروں کے علاوہ مذہبی گروہوں اور دہشت گردوں کے تشدد کا نشانہ بننے کا بھی دھڑکا لگا رہتا ہے۔ 
گو یہ ذرائع تعلیم و تربیت اور عقل بڑھانے کے لئے ہونے چاہئیں لیکن ان میں قتل اور ہلاکتوں کے خبروں کی بھر مار سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ملک پر کن طبقات کی حکمرانی ہے اوروہ اس قسم کے پرچار کے حامی ہیں جس کے نتیجہ میں حالات جوں کے توں رہیں اخبارات اور رسائل کے لئے وقتاً فوقتاً نئے قوانین اور ضوابط بنا کر ان کو شکنجوں میں جکڑا جاتا ہے تاکہ بالادست طبقات کے کرتوت اور کرپشن عوام کے سامنے نہ آسکے آج کے بدلے ہوئے حالات ظاہر کرتے ہیں کہ بعض گروہوں کا قد اپنے آقاؤں سے اونچا ہوگیا تھا اور پریس کو تھوڑی سی آزادی دیکر اب نیچے لانے کی سعی کی جارہی ہے۔ 

تعلیمی پالیسی کی طرح ان ذرائع کا تعلق بھی اس چیز پر ہے کہ ملک پر کون سے طبقات حاوی ہیں اور ان کو کس قسم کے عوام کی ضرورت ہے ان ذرائع کے موثر نہ ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ملک میں شرح خواندگی کم ہے بعض علاقوں میں تاحال ٹیلی ویژن نہیں پہنچا ہے جبکہ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں اس کے دیکھنے کو بھی گناہ تصور کیا جاتا ہے ایک عام آدمی اخبار خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے چونکہ اخبارات کو مختلف بندشوں کا سامنا ہے لہٰذا ان کا پیٹ ایسی خبروں اور کالموں سے بھر ا جاتا ہے جو عوام کے مابین تضادات کو بڑھانے کا موجب بنتے ہیں پھر بعض اخبارات اپنی اشاعت بڑھانے کی خاطر خبروں پر مرچ مصالحہ لگا کر پیش کرتے ہیں۔ 

بہرحال، بعض صحافی سچ لکھنا چاہتے ہیں لیکن جب وہ دیکھتے ہیں کہ اس نظریاتی مملکت میں کئی سیاست دانوں ،دانشوروں اور صحافیوں کو اغواء کیا گیا مارا پیٹا گیا اور ہلاک کردیا گیا اس کے باوجود عوام کی جانب سے کوئی شدید ردعمل نہیں ہوا تو وہ دو قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں ایسے ممالک میں جہاں ایک صحافی کے قتل کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور اس وقت تک چھین سے نہیں بیٹھتے ہیں جب تک کہ قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے وہاں صحافی بھی کھل کر لکھتے ہیں اور حکومت اور بااثر لوگوں کے کرتوت بھی سامنے آجاتے ہیں اور ایسا ملک ترقی بھی کرتا ہے۔ 

ہمارے پاس کتابیں ہی ایک ایسا ذریعہ رہ جاتا ہے جو دیگر ذرائع کی نسبت قدرے آزاد اور بہتر ہے جبکہ آج کل کسی بھی کتاب کو اٹھاکر دیکھو تو اس کی قیمت عام شہری کے بس سے باہر ہوتی ہے بہر طور اگرکسی کو اپنے علم اور عقل میں اضافہ کرنا ہے تو پھر اسے ان تمام ذرائع سے مدد لینی چاہئے اور کتاب بینی کوتو خصوصاًاپنی عادت بنالینا بہت ہی مفید رہے گا۔ 

Comments are closed.