یورپ کے مسلمانوں کو دو طرفہ آفتوں کا سامنا

asaf jilani

آصف جیلانی

ایک طرف شام کی خانہ جنگی کے نتیجے میں یورپ میں پناہ گزینوں کے سیلاب سے بھڑکنے والی فاشسٹ قوم پرستی اور دوسری جانب داعش کے جہادیوں کے دہشت گرد حملوں کی آفت نے یورپ کے مسلمانوں کی جان عذاب میں ڈال دی ہے۔ داعش کے حملوں کی آفت سے پہلے ہی پناہ گزینوں کے سیلاب کے نتیجے میں یورپ میں فاشسٹ قوم پرستی کی لہر اسلام دشمنی کی آگ کو ہوا دے رہی تھی ، لیکن اب نہ صرف مسلمان اس آگ سے جھلستے نظر آتے ہیں بلکہ جرمنی اور فرانس کی موجودہ سیاسی قیادت بھی اس کی لپیٹ میں آتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ صورت حال اس وجہ سے پریشان کن ہے کہ اگلے سال دونوں ملکوں میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ 
سب سے زیادہ خطرہ جرمن چانسلر انگلا مرکل کو ہے جنہوں نے اس سال دس لاکھ کے قریب شامی پناہ گزینوں کے لئے اپنی ملک کے دروازے کھول کر انسانی ہمدردی اور فراغ دلی کا ثبوت دیا تھا جب کہ یورپ کے دوسرے ملکوں نے ان پر اپنے کواڑ بھیڑ دئے تھے۔ جب سے میونخ میں ایک ہفتہ میں چار دھشت گرد حملے ہوئے ہیں جن میں داعش کے نظریات سے متاثر پناہ گزیں ملوظ تھے ، پناہ گزینوں کے بارے میں چانسلر مرکل کی پالیسی کے خلاف آوازیں بلند ہونی شروع ہوگئی ہیں ۔ 
گوچانسلر مرکل نے بڑی دلیری سے ان آوازوں کو مسترد کردیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ حالیہ دھشت گرد حملوں کے باوجود پناہ گزینوں کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل نہیں کریں گی ، لیکن جرمنی کی اسلام دشمن تنظیم پیگیڈا( مغرب میں اسلامایزیشن کے خلاف محب وطن یورپی)نے جس کے پچاس ہزار سے زیادہ اراکین ہیں ، داعش کے حامیوں کے حملوں کا ذمہ دار چانسلر مرکل کی پالیسیوں کو قرار دیا ہے اور اس کی بناء پر چانسلر کی مقبولیت میں تیزی سے کمی ہوئی ہے ۔
جرمنی میں ایک اور مسلم دشمن تنظیم ’اے ایف ڈی ‘پناہ گزینوں کے مسئلہ کو مسلمانوں کے ساتھ چانسلر مرکل کے خلاف بھڑکارہی ہے۔ اے ایف ڈی ،ایک عرصہ سے جرمنی میں مساجد کی تعمیر اور نقاب و حجاب پر مکمل پابندی کی مہم چلا رہی ہے ۔ اب پناہ گزینوں کے مسئلہ پر اس نے جرمن عوام کے جذبات کو ہوا دینی شروع کی ہے جس کی لپیٹ میں چانسلر مرکل بھی آرہی ہیں۔
مبصرین کے نزدیک جرمنی میں داعش کا خطرہ اتنا شدید نہیں ہے جتنا یورپ کے دوسرے ملکوں میں کیونکہ جرمنی سوائے افغانستان کے کسی اور مسلم ملک میں خاص طور پر عراق، لیبیا اور شام میں فوجی مداخلت میں ملوث نہیں رہا ہے۔ ویسے بھی میونخ میں جو دھشت گرد حملے ہوئے ہیں ان میں وہ پناہ گزیں ملوث رہے ہیں جو نفسیاتی مریض تھے اور جن کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی تھی لیکن جرمن حکومت کے لئے انہیں ملک بدر کر کے جنگ زدہ شام میں بھیجنا نا ممکن تھاکیونکہ یہ اقدام انسانی ہمدردی کے منفی قرار دیا جاتا۔
یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ پناہ گزیں ، اجنبی ملک میں غیر یقینی کے عالم میں مایوسی کا شکا ر تھے جس کی بنیاد پر انہوں نے داعش کا سہارا لیا اور دھشت گردی کی راہ اپنائی۔ جرمنی میں مسلمانوں کی اکثریت ترکوں کی ہے جنہوں نے دوسری عالم گیر جنگ کے بعد جرمنی کی تعمیر نو میں اہم رول ادا کیا ہے۔ گذشتہ 80برس میں یہ ترک دھشت گردی کی کسی کاروائی میں ملوث نہیں رہے۔
فرانس میں دھشت گردی کے مسئلہ کا تعلق پناہ گزینوں کے سیلاب سے نہیں ہے ۔ گذشتہ نومبر سے کارٹون جریدہ شارلی ہیب دو پر قاتلانہ حملے کے بعد جتنے بھی دھشت گرد حملے ہوئے ان میں فرانس میں پیدا اور پروان چڑھنے والے شہری ملوث تھے اور ان میں بھی زیادہ تر وہ تھے جو شام میں داعش کی سپاہ کے ساتھ کاروائیوں کے بعد وطن واپس آئے تھے۔ شارلی ہیب دو پر حملہ کا محرک تو واضح طور پر اشتعال
انگیز کارٹوں کی اشاعت تھا لیکن اس کے بعد دھشت گرد حملوں کی اصل وجہ افریقہ سے لے کر عراق و شام تک عالم اسلام میں فرانس کی فوجی مداخلت ہے۔ لیکن بڑی وجہ فرانسسی تاریخ سے وابستہ ہے۔ 
فرانس میں مسلم اکثریت فرانس کی شمالی افریقہ میں پرانی نو آبادیوں خاص طور پر ، الجزائر، مراکش اور تونس سے تعلق رکھتی ہے۔ گو الجزائر میں فرانس سے آزادی کی جنگ جو 1954سے1962تک رہی اسے ختم ہوئے اب نصف صدی ہونے کو آئی ہے لیکن نوآبادیاتی ماضی ختم نہیں ہوا اس کی یاد کا تسلسل اب بھی جاری ہے۔ لاکھوں فرانسسیوں کی یادیں جنہیں الجزائر کی آزادی کے بعد وہاں سے فرار ہونا پڑا ، الجزائر سے وابستہ ہیں۔
ان کے علاوہ وہ ہزاروں مسلمان جو الجزائرمیں فرانس کا ساتھ دے رہے تھے اور جو۔ حرکی ۔کہلاتے ہیں فرانس میں آباد ہیں۔ فرانس کے نوآبادیاتی ماضی کا اثر نہ صرف حکومت بلکہ عوام الناس کے ذہنوں پر ہے ۔ ان کے نزدیک اچھے مسلمان وہ ہیں جو اسی طرح دبے اور سہمے رہیں جس طرح وہ فرانس کے نوآبادیاتی دور میں رہتے تھے، لیکن اب فرانس کی پرانی نو آبادیوں کی تیسری نسل فرانس میں آباد ہے ان سے اس رویہ کی توقع حقیقت پسندی نہیں۔ در اصل یہی تضاد موجودہ معرکہ آرائی کی وجہ ہے۔ 
فرانس میں مسلمانوں اور حکومت کے درمیان کشمکش کی ایک وجہ ، فرانس کا منفرد سیکولرزم ہے ، جو لادینی ہونے کے بجائے دین کے خلاف نظر آتا ہے۔ پچھلے دنوں اسکولوں اور یونیورسٹیوں اور سر عام برقعہ، حجاب اور نقاب اور مذہبی علامات پہننے پر سخت پابندی اس امر کا مظہر ہے۔ اب حالیہ دھشت گرد حملوں کے بعد وزیر اعظم مینیول والس نے اس بات کا امکان ظاہر کیا ہے کہ فرانس کی مساجد کی غیر ممالک سے رقومات کی ترسیل ممنوع قرار دے دی جائے گی۔ اسے مسلمان غیر منطقی قرار دیتے ہیں کیونکہ دھشت گرد حملوں کا مساجد سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا ہے اور نہ یہ ثابت ہوا ہے کہ شدت پسندی میں مساجد کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے ۔ 
برطانیہ میں مسلمانوں کی صورت حال مختلف ہے۔ انہیں پناہ گزینوں کے سیلاب سے پیدا شدہ مسائل کا سامنا نہیں کیونکہ برطانیہ کے دروازے پناہ گزینوں کے لئے مکمل طور پر بند رہے ہیں، البتہ ریفرنڈم میں یورپی یونین سے اخراج کے فیصلہ کے بعد اچانک مسلمانوں اور خاص طور پر حجابی خواتین کے خلاف حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلہ کے بعد اب ایشیائی اور مسلم تارکین وطن کے لئے اس ملک میں رہنے کا حق نہیں رہا ہے۔ زیادہ تر یہ شکایات ملی ہیں کہ نسل پرست مسلم خواتین کو دیکھ کر ان پر فقرہ کستے ہیں’ گو ہوم‘ ۔مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات خاص طور پر فرانس اور جرمنی میں حالیہ دھشت گرد حملوں کے بعد بھڑکے ہیں۔ 
جرمنی میں دھشت گرد حملوں کے بعد اب سویڈن نے اعلان کیا ہے کہ وہاں آباد160,000مسلم تارکین وطن میں سے نصف تعداد کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔ اسی طرح فن لینڈ نے 32000تارکین وطن میں سے دو تہائی تارکین وطن کو ملک بدر کردیا جائے گا۔ ادھر پولینڈ نے شامی پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ حالیہ جائزہ کے مطابق ملک کے دو تہائی عوام پناہ گزینوں کے پولینڈ میں داخلہ کے خلاف ہیں۔ یورپی یونین نے پولینڈ سے کہا تھا کہ وہ اگلے سال کم از کم ایک ہزار پناہ گزینوں کو اپنے ہاں آباد کرے لیکن پولینڈ نے انکار کر دیا ہے۔بلقان کی مملکتوں خاص کر بوسنیا، کروشیا، سربیا اور مونٹی نیگرو کا بھی مسلمانوں کے ساتھ یہی رویہ ہے ۔ ان مملکتوں نے شامی پناہ گزینوں کے سیلاب کو روکنے کے لئے اپنی سرحدیں یوں بند کی ہیں جیسے دشمن کے حملے کا خطرہ ہے۔ 
اس وقت یورپ کے مسلمانوں کو جس پیمانہ پر ملک بدری کا خطرہ ہے وہ اسی طرح ہے جس طرح سولہویں اور سترویں صدی میں ہسپانیہ کے مسلمانوں کو دیس نکالے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 

One Comment