پاکستان کی افغان پالیسی کا المیہ  

aimal

ایمل خٹک

افغان دارالحکومت کابل میں ایک بار پھر خون کی ہولی کھیلی گئی۔ اور معصوم شہریوں کا خون ناحق بہایا گیا۔  یہ گھناؤنی حرکت جس کسی نے بھی کی ہے مگر شک طالبان اور ان کے حمایت کرنے والوں پر کی جائیگی ۔ یہ کھلا راز ہے کہ جب بھی طالبان کا نام آتا ہے ساتھ میں پاکستان کا نام ضرور آتا ہے۔ دنیا ابھی تک پاکستان کو طالبان کا حمایتی اور سرپرست سمجھتی ہے۔

ایسے وقت میں جب پاکستان اور افغانستان میں مخاصمانہ جذبات زوروں پر ہیں اورطاقتور حکومتی لابیاں کشیدگی کو ہوا دینے میں مصروف ہیں یہ اندوہناک واقعہ اس کشیدگی اور مخاصمت کی فضا کو مزید ہوا دے گا ۔ اگرچہ پاکستان کی سیاسی اور حکومتی شخصیات کی جانب سے اس واقعے کی بھرپور مذمت کی گئی ہے مگرپھر بھی الزامات اور جوابی الزامات کا نہ ختم ہونے والا نیا سلسلہ شروع ہوجائیگا ۔ اور ایک دوسرے کو زچ کرنے اور نقصان پہنچانے کا نتیجہ دونوں طرف تباہی اور انسانی اور مالی وسائل کا ضیاع ہوگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک میں  کشیدگی کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو رہے ہیں ۔  

پاک افغان تعلقات ایسے وقت خراب ہو ر ہے ہیں جب ایک طرف افغانستان کو بیرونی تجارت کیلئےمتبادل راستے کھل رہے ہیں اور دوسری طرف دہشت گردی کے مسئلے پر پاکستان کی سفارتی تنہائی بڑھ رہی ہے۔ اور اس کی نسبت افغانستان کے موقف کو زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔ اور حتی کہ چین بھی پاکستان پر دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کاروائی کیلئے دباو ڈال رہا ہے۔

افغان جہاد کے بعد پاکستان اور افغانستان کے مثالی تعلقات ہونے چاہئے تھےمگر کئی سنہری مواقع نہ صرف ضائع کیے گئے بلکہ اس حد تک خراب کیے گئے کہ اب بہتری کے کوئی آثار نہیں۔ اور ہر آنے والہ دن تعلقات میں مزید خرابی لا رہا ہے۔ 

ممالک کے درمیاں تعلقات کی بہتری کا اندازہ ان کے سیاسی، تجارتی، ثقافتی تعلقات اور لوگوں کی ایک دوسرے کے ہاں آزادانہ آمد و رفت سے لگایا جاتا ہے۔ سیاسی تعلقات ریکارڈ حد تک خراب ہوچکے ہیں ۔ معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاک ۔افغان تجارت میں پچاس فیصدی تک کمی آچکی ہے اور کمی کا رحجان ہے۔

پاکستان افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہونے کے سبب افغان تاجروں کو زیادہ آسانیاں اور مراعات دینی چائیے تھیں مگر افغان تاجروں کے مطابق پاکستان کی تجارتی پالیسیاں اور قوانین دیگر پڑوسی ممالک کی نسبت زیادہ سخت اور پیچیدہ ہیں ۔ نئے بارڈر مینجمنٹ اور سخت ویزہ پالیسی کی وجہ سے آمد و رفت محدود ہوتی جارہی ہے۔ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان موجود دوستی اور خیرسگالی کے جذبات سرد ہوتے جا رہے ہیں اور مخاصمانہ جذبات بڑھ رہے ہیں ۔

افغان مہاجرین سے بڑھتا ہوا غیر دوستانہ اور ناروا سلوک ، بارڈر مینجمنٹ اور ویزہ پالیسی جیسے معاملات کا اثر برائے راست افغان عوام پر پڑ رہا ہے۔ اس لئے افغان عوام میں ناراضگی اور غم وغصے کا پایا جانا ایک قدرتی امر ہے۔ افغانستان میں عوامی سطح پر بڑھتی ہوئی ناراضگی اور غم وغصہ مستقبل میں پاک افغان تعلقات کے حوالے سےسنگین مسائل کو جنم دے سکتاہے اور پاکستان دشمن قوتوں کو اپنی پالیسیاں پروان چڑھانے کیلئے سازگار ماحول مہیا کرسکتا ہے۔ اس طرح ہزاروں پاکستانی جو روزگار کے لیے افغانستان میں ہیں ، ان کے حالات روز بروز خراب ہوتے جارہے ہیں۔

بارڈر مینجمنٹ اور ویزہ پالیسی کے پاکستان اور خاص کر سرحدی علاقوں کے عوام پر بھی منفی اثرات پڑ رہے ہیں ۔  ہماری افغان پالیسی کے اہم نقائص میں سے ایک افغانستان کو ایک نوآبادی یا پانچواں صوبہ سمجھنے کی ذہنیت ہے۔ افغانستان کو عملاً ایک الگ اور آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم نہ کرنے کے خطرناک نتائج سامنے آرہے ہیں ۔

اگر بات اس کو نوآبادی ماننے تک محدود رہتی تو پھر بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ مگر معاملات اس کو ہماری بات نہ ماننے پر سبق پڑھانے سے بھی خراب ہوئے ۔ بدقسمتی سے ہماری افغان پالیسی بنانے والے افراد اپنی پیشہ وارانہ تربیت اور کام کے حوالے سے سیاسی فہم و فراست سے عاری ہیں ۔ اور خالصتاً سیاسی اور سفارتی معاملات کو عسکری نکتہ نظر سے دیکھے جا رہے ہیں جس سے کئی قسم کی پیچیدگیاں جنم لے رہی ہے۔ اور قوم کو ان ناقص اور غلط پالیسیوں کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ عسکریت پسندی کو خارجہ امور کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی پالیسی کے مضمرات ہمارے سامنے ہیں۔ 

پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی اور ان کا خیال رکھا اور افغان عوام پر یہ بہت بڑا احسان کیا۔ یہ اور بات ہے کہ افغان عوام اب اس عمل کو کسی اور نظر سے دیکھتے ہیں۔  اب پاکستان اس احسان کی قیمت وصول کرنے کیلئے افغانستان کے ساتھ اپنی ایک نو آبادی کی طرح کا سلوک کر رہا ہے۔ اگر افغانستان ایک الگ اور آزاد ملک کی طرح اپنی داخلی اور خارجہ پالیسیاں بناتا اور چلاتا ہے تو اس کو تکلیف ہوتی ہے اور وہ اس کو احسان فراموشی قرار دیتا ہے۔ 

افغانستان اور پاکستان کے عوام کے بیچ نفرت اور دشمنی کی بیچ بونے والے عناصر کامیاب ہو رہے ہیں اور دونوں ممالک کے بیچ تعلقات کی خرابی کا ایک نیا دور شروع ہوگیا ہے جس کے سنگین نتائج نکل رہے ہیں۔ مہذب اور دانشمند اقوام نفرت اور دشمنی کو اس نہج پر پہنچنے نہیں دیتے خاص کر پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات میں ۔ کیونکہ اس کے اثرات بڑے نقصان دہ اور ناخوشگوار ہوتے ہیں ۔ 

جدید سفارتکاری میں تعلقات روایتی قبائلی ذہنیت کے مطابق نہیں بلکہ ٹھوس معاشی مفادات پر استوار ہوتے ہیں۔ اور یہ فن ہمیں دو پڑوسی ممالک چین اور انڈیا سے سیکھناچائیے جو کشمیر سے مماثل سرحدی تنازعہ اور اس پر جنگ کے باوجود سیاسی اور تجارتی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ ہمیں ابھی یہ بات سیکھنے کی ضرورت ہے کہ احسان کا بدلہ کسی کی غلامی کی شکل میں نہیں نکلتا۔ اگر شروع دن سے پاکستان افغانستان کو ایک الگ ملک کے طور پر تسلیم کرتا او رایک برادر ملک کی طرح اس سے مساوی سلوک کرتا تو شاید صورتحال اس حد تک خراب نہ ہوتی۔  

بارڈر مینجمنٹ کی پالیسی بھی بڑی دوغلی قسم کی ہے۔ اور اچھے اور برے طالبان کی پالیسی کے زیر اثر ہے۔ جن سرحدی  علاقوں کو افغان اور پاکستانی اچھے طالبان استعمال کر رہے ہیں  مثلابلوچستان میں وہاں نرمی ہے اور جہاں پر برے طالبان سرگرم عمل ہیں وہاں سخت۔ افغانستان میں سرگرم کچھ برے طالبان گروپوں کے بارے میں عجیب افواہیں زیر گردش ہیں اور حتیٰ کہ افغانستان میں برسرپیکار کچھ داعش گروپوں پر پاکستان کی حمایت کا الزام بھی لگایا جارہا ہے۔ افغانستان کا سٹرٹیجک تالاب اتنا گدلہ ہوچکا ہے کہ ہر چھوٹا بڑا علاقائی یا بین الاقوامی طاقت اس میں مچھلیاں پکڑنے کا شوق پورا کررہی ہے۔ 

ہمیں اپنے پالیسی سازوں کی ذہانت اور استعداد پر شک نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ زمانہ بہت بدل چکا ہے اب بیانات یا پھرتیاں دکھانے سے زیادہ عملی اقدامات اور اس کے ٹھوس نتائج کو دیکھا جاتا ہے۔

ہم دنیا کو لاکھ کہیں کہ دہشت گردوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں مگر ایک نہیں دو نہیں کئی نامی گرامی دہشت گردوں کی پاک سرزمین پر موجودگی اور ہلاکتیں دنیا میں مختلف افواہوں اور غلط فہمیوں کو جنم دے رہی ہے۔ ہم دنیا کو لاکھ کہیں کہ ہم نے دہشت گردوں کو ختم کیا مگر دہشت گرد تنظیموں کے سرکردہ کمانڈروں کا آپریشنوں میں بچ جانا ہماری کامیابیوں کے دعووں کی نفی کرنے کیلئے کافی ہے۔

ہماری پالیسیوں یا اقدامات میں کوئی نہ کوئی سقم موجود ہے جس سے ہماری نیت پر شک کیا جاتا ہے۔ یا بیرونی طاقتوں کی جانب سے ڈو مور کی رٹ سننے کو ملتی ہے۔ ابھی تک کئے گئے اقدامات اور کاروائیوں سے دہشت گردی کسی حد تک قابو پانے میں مدد ملی ہے جبکہ ختم نہیں ہوئی۔ لگتا ایسا ہے کہ نہ تو داخلی اور نہ خارجی قوتیں دہشت گردی کے مکمل خاتمے میں دلچسپی رکھتی ہیں اور فریقین ایک دوسرے کے ساتھ ڈبل گیم کھیلنے میں مصروف ہیں۔ اور ڈبل گیم کا یہ سلسلہ بدقسمتی سے مستقبل قریب میں بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔

♠ 

One Comment