پاکستان میں لامذہبیت کا رحجان

عاتکہ میر احمد

261527-untitled-1317122825-102-640x480
تحقیق سے یہ ثابت ہو ا ہے کہ دہریت اور تعلیم و ذہانت کے مابین مثبت تعلق ہے ۔ گذشتہ تین چار صدیوں میں علمی ترقی اور معلومات کے پھیلاؤ میں بے پنا ہ اضافہ کے باوجود بنی نوع انسان کی اکثریت کسی نہ کسی مذہب اور کسی نہ کسی صورت میں خدا کے تصور سے وابستہ ہے۔ اگرچہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہریت مائل بہ ترقی ہے اور کسی مذہب کو قبول کرنے والوں کی نسبت مذہب سے قطع تعلق کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ تین گنا سے زیادہ ہے لیکن اس کے باوجو د دہریت کو دنیا کے زیادہ تر معاشروں میں’’ گندا ‘‘لفظ خیال کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی ریاست مینی سوٹا میں 2006میں دو ہزار گھرانوں پر ایک تحقیق کی گئی تھی جس کے مطابق اقلیتوں میں دہریوں کے بارے میں سب سے زیادہ شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا حتی کے مسلمانوں اور ہم جنس پرستوں سے بھی زیادہ ۔

انٹرنیٹ پر دنیا کے ہر موضوع پر بے پنا ہ مواد کی موجودگی سے ہر شخص بلا استثنا استفادہ کرسکتا ہے اور ریاست کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کے برعکس پرایؤیٹ سیکٹر میں قائم ہونے والی یونیورسٹیز اور ان کے اساتذہ جس طر ح اپنے طالب علموں میں تجسس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور انھیں مختلف موضوعات کے بارے میں سوال کرنے اور اپنے ارد گرد کی ہر چیز کو تنقیدی نظر پر دیکھنے اور پرکھنے کی جو ترغیب دے رہے ہیں ، اس کی بدولت بہت سے نوجوان دہریوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے ۔

سماجی اور قانونی دباؤ کی وجہ سے پاکستان جیسے ملک میں جہاں ریاست اور مذہب کے مابین سرحدیں تاحال متعین نہیں ہو سکیں ہیں بہت سے افراد اپنی اس شناخت کو یا تو چھپاتے ہیں یا پھر سرے سے اس کا انکار کردیتے ہیں ۔حال ہی میں تین ایسے نوجوانوں ۔۔ عبداللہ حسن ، سارہ یوسف اور زبیر ( تینوں کے نام تبدیل کئے گئے ہیں ) سے ملنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ ان سے معلوم کیا جاسکے کہ وہ کس پر یقین رکھتے ہیں (یا کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ کس پر ان کا ایقان نہیں ہے )ان تینوں نے کہا کہ وہ ’پکے دہریے‘ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہ صرف مذہب اسلام میں خدا کا جو تصور ہے اس کو نہیں مانتے بلکہ وہ خود خدا کے تصور ہی سے انکاری ہیں ۔

عبداللہ ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہو ا جہاں دونوں نقطہ ہائے نظر موجود تھے ۔اس کی والدہ مسلمان ہیں جب کہ اس کے والد دہریہ ۔عبداللہ کا کہنا ہے کہ اوائل عمری میں وہ تشکیک پسند تھا لیکن لڑکپن تک پہنچے پہنچے اس نے دہریت تک کا سفر مکمل کر لیا ۔’ میرے لئے یہ ذہنی سفر بہت آسان تھا ‘اس نے بتایا اور’’ اس کا باعث میرے والد تھے ۔ کچھ بڑ ا ہوا تو میں نے دیکھا کہ خدا کے وجود کی کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں ہے ۔ میرے خیال میں یہ انسان تھے جنھوں نے خدا کو تخلیق کیا کیونکہ کسی اعلیٰ ذات میں یقین ان کے لئے آسان تھا ۔ جہاں تک میر ا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں خدا غیر ٖضروری ہے بالخصوص ہمارے عہد میں جب’ یہ نہ کرو اور یہ آپ نہیں سمجھ سکتے‘ والی فہرست تیزی سے سکڑ رہی ہے ۔

جہاں تک سارہ کا تعلق ہے تو وہ ’منظم مذہب ‘ کو غلط ہی نہیں’ جھوٹا‘خیال کرتی ہے ۔بچپن سے پڑھائے جانے والے عقائد پر سوالات اٹھاتے اٹھاتے سارہ دہریت تک جا پہنچی ہے ۔میرا ذہنی سفر کچھ اس قسم کے سوالات سے شروع ہو ا کہ ہم یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ مسیحیت کا (تصور خدا) غلط ہے اور ہمارا درست ہے ؟پھر میں نے سو شیالو جی کا مطالعہ شروع کیا۔ یہ ان سماجی اداروں کی ساخت اور ارتقا کے تنقیدی مطالعہ کی طر ف میرا پہلا قدم تھا جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ہمیشہ سے وہ ایسے ہی تھے جیسا کہ وہ اب ہیں ۔

پھر ایک دوست جس نے ذہن میں جنم لینے والے سوالات کے جوابات تلاش کرنے پر اکسایا ،سے ہونے والی بحث و تمحیص نے بھی میرے ذہنی سفر میں رول ادا کیا ۔اس بحث مباحثے کی بدولت میں نے اپنے اردگرد پھیلے ہوئے ان حقائق کو تسلیم کرلیا جنھیں قبل ازیں میں ماننے سے انکاری تھی۔سب سے آخری اور اہم بات اس ضمن میں یہ ہے کہ میں نے تعلیم ایسی یونیورسٹی میں حاصل کی جہاں مجھے نہ صرف نئے نئے تصورات، نظریات اور خیالات سے متعارف ہونے کا موقع ملا بلکہ سماج اور اس کے مظاہر کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی تھی۔

زبیر اس گروہ میں نسبتًا نیا ہے۔ اسے دہریہ بنے ابھی صرف آٹھ ما ہ ہوئے ہیں ۔وہ چند ماہ قبل تک ’عملی مسلمان‘ تھا۔ ’’میں نمازپڑھتا اور روزے رکھتا تھا کیونکہ میرا تعلق ایک قدامت پسند گھرانے سے تھا ۔میر ا خیال ہے کہ میں نے مختلف تصورات اور اشیا کے بارے میں اس وقت سوالات اٹھانے شروع کئے جب میں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا کیونکہ بطور ڈاکٹر کسی چیز پر یقین کرنے سے پہلے ہمارے پاس اس کے وجود کی شہادت ہونی چاہیے ۔میں نے دوبارہ نظریہ ارتقا کی طرف رجوع کیا اور اس کے مطالعہ کے بعد میں جس نتیجے پر پہنچا وہ یہ تھا کہ تخلیق کائنات کے بارے میں مذہبی تصورات کی بجائے جو کچھ اس میں بیان کیا گیا ہے وہ زیادہ قابل یقین ہے ‘‘۔

ایک قدامت پسند خاندان سے تعلق رکھنے کی بنا پر مذہبی عقائد سے قطع تعلق تمہارے لئے مشکل نہ تھا ؟’یہ بہت مشکل تھا ۔پہلے چند ماہ تو میں اپنے آپ کو مجرم سمجھتا رہا لیکن بعد ازاں آہستہ آہستہ معاملا ت سدھر گئے‘ ۔

کیا ان نوجوانوں کی دہریت سے وابستگی اسلام سے مایوسی کا نتیجہ ہے ؟ خاص طور پر اس صورت حال میں جب انتہاپسند عناصر اسلام کی متشدد تعبیر و تفسیر پر زور دے رہے ہیں اور نوجوانوں کو جہاد پر اکسارہے ہیں اور عورتوں کو پردے میں گھروں تک رکھنے پر مصر ہیں ۔ ان تینوں کاجواب پرزور نفی میں تھا ۔’’یہ بات سچ ہے کہ آج کل اسلام کو سماجی طور پر متشدد مذہب خیال کیا جاتا ہے لیکن تما م مذاہب ماسوائے شاید بدھ مت کے اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں متشدد اور انتہا پسندانہ رحجانات کے حامل رہے ہیں ‘‘۔

نوجوانوں کی یہ تکون یقین رکھتی ہے کہ ایک اعلیٰ ترین ذات چونکہ موجود نہیں اس لئے انھیں اپنی زندگیوں پر مکمل اختیار حاصل ہے اور ’قسمت ‘ او’ر مقدر ‘ محض ڈھکوسلے ہیں۔ ’’دراصل آزاد ارادہ اور پہلے سے متعین شدہ قسمت کے مابین جو تناؤ ہے میں نے اس کے بارے میں مذہب پر یقین رکھنے والے بہت سے افراد سے گفتگو کی ہے لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی مجھے تسلی بخش جواب نہیں دیا ‘‘۔

سا رہ نے کہا۔ ’’میں سمجھتی ہوں کہ اگر میں اپنی زندگی سلیقے سے گذاروں، درست فیصلے اور انتخاب کروں تو ایک خاص عمر تک زندہ ر ہ سکوں گی لیکن اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ میرے پاس تمام سوالوں کے جوابات موجود ہیں۔بہت سے سوالات اور چیزیں ایسی ہیں جو مجھے وقتا فوقتا پریشان کرتی ہیں ‘‘۔

’’ جب کبھی انھیں مشکل حالات کا سامنا ہوتا ہے تو وہ مدد کے لئے کس سے رجوع کرتے ہیں ‘‘۔’’میں اپنے آپ سے رجوع کرتا ہوں‘‘۔ ، زبیر نے کہا ۔ ’’ مجھے یقین ہے کہ میں خود ہی وہ شخص ہوں جو اپنے حالات کو درست کرسکتا ہے ‘‘۔ اور پھر موت کے تصور کے بارے میں کیا خیال ہے ؟سارہ کا خیال ہے کہ حیات بعد الموت ایک مذہبی تعیش ہے ۔ کسی بھی مذہب سے وابستگی کی بدولت بہت سے ایسے تعشیات میسر آتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی کچھ بوجھ بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں ۔ حیات بعد الموت کا تصور ا ن تعشیات میں سے ایک ہے۔

مذہب پرستوں کو حیات بعدالموت کا تصور مطمئن اور مسرور رکھتا ہے۔ موت کی حقیقت سے مصالحت بہت مشکل کام ہے‘‘۔ عبداللہ کا ذہن اس حوالے سے زیادہ صاف ہے۔ ’’جب کوئی مرتا ہے تو مجھے افسوس ہوتا ہے اور میں مذہب پرستوں کے انداز میں روتا اور آہ و بکا کرتا ہوں ۔ لیکن جب مذہب پرستوں کو یہ معلوم ہے کہ حیات بعد الموت موجود ہے اور جو کوئی مرتا ہے وہ جنت میں جاتا ہے تو پھر ان کی طرف سے موت پر اس قدر واویلا کیوں ؟‘

ہم نے یہ معلوم کرنے کے لئے لوگ دہریت کی طرف کیوں متوجہ ہوتے ہیں کچھ مذہبی عناصر سے بھی رابطہ کیا ۔ان کا جواب تھا بہت زیادہ عمومیت کا حامل تھا۔ ان کا موقف تھا کہ مذہب اپنے ماننے والوں سے جن ذمہ داریوں کا تقا ضا کرتا ہے یہ لوگ ان سے بچنے کے لئے دہریت سے رجوع کرتے ہیں ۔جب ہم نے یہ نقطہ نظر ’دہریہ تکون‘ کے سامنے رکھا تو اس کا جواب تھا کہ ’لامذہبوں ‘ کی نسبت مذہبی عناصر مذہب کی عائد کردہ ذمہ داریوں کی زیادہ خلاف ورزی کرتے ہیں ۔مسلمان ہوکر بھی کتنے لوگ ہیں جو نماز پڑھتے ہیں اور بطور مسلمان، اسلام ان سے جن ذمہ داریوں کا تقاضا کرتا ہے وہ ان کو کس حد تک پو را کرتے ہیں ؟یہ مذہب پرست ہی ہیں جو اپنے مذہب کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتے ‘‘۔

’’ میں سمجھتا ہوں کہ ہم مذہب پرستوں کی نسبت زیادہ ذمہ دار ہیں کیونکہ اپنے تما م اقدامات اور افعال کے ہم خود ذمہ دار ہیں ۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ تو مقدر میں لکھا ہوا تھا یا یہ خدا کی مرضی تھی ‘‘۔عبداللہ نے کہا

ڈان براؤن کی تصنیف اینجلز اینڈ ڈیمن مذہب اور سائنس کے مابین مسلسل جاری کشمکش کے گرد گھومتی ہے ۔ صدیوں سے جاری اس کشمکش میں اس وقت تیزی آتی ہے جب فزکس کے مشہور پروفیسر لیونارڈو ویٹر اکو قتل کردیا جاتا ہے ۔ویٹر ا فزکس کے نامور پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ کیتھولک مبلغ بھی ہیں ۔ ان کا دعوی ہے کہ انھوں نے مادہ کے برعکس اینٹی مادہ تخلیق کیا ہے۔ وہ اپنے اس دعویٰ کی بنا پر بگ بینگ تھیوری کو غلط ثابت کرتے ہیں ۔ پروفیسر موصوف کا خیال ہے کہ اینٹی مادہ کی تخلیق سے خداؤں کا تصور ثابت ہوجائے گا ۔ویٹرا کے نزدیک سائنس کے میدان میں ہونے والی روزافزوں ترقی خودبخود خدا کے وجود کو تسلیم کراے گی ۔یہ ان کی زندگی کا مشن ہے اور اسی مقصد کے حصول کے لئے وہ کام کررہے ہیں ۔

’’ کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی کسی چیز کے ثابت ہونے کا واقعی کوئی امکان ہے ‘‘؟سارا کے مطابق ’’ اس بابت میرے شدید شبہات ہیں ۔ سائنس کے دلائل خدا کے تصور کی نفی کرتے ہیں۔ مذہب اور سائنس کے مابین ایک سے زائد بنیادی تضادات ہیں ۔ لیکن ایک بات کو میں بہر حال تسلیم کرتی ہوں کہ اگر کبھی خدا کا وجود ثابت ہو ا تو ایسا سائنس کی بدولت ہی ہوگا نہ کہ الہیات اور فلسفے کے ذریعے ‘‘۔ 

عبداللہ اس حوالے سے کچھ زیادہ ہی متشکک ہے ۔اس کا کہنا ہے کہ’اگر کسی مرحلے پر سائنس مکمل ہوجاتی ہے اور ثابت کرتی ہے کہ خدا موجود ہے تو اس سے صرف خدا کا وجود ہی ثابت ہوسکے گا لیکن اس وقت بھی یہ ثابت تو نہیں ہوگا کہ تخلیق کائنات کے بارے کس کا نقطہ نظر درست ہے یا پھر یہ کہ خدائی اخلاقیات کو نافذ کیا جائے یا مذہب کی متعین کردہ اخلاقیات کو ۔اگر کبھی سائنس نے مذہب کو دریافت کرلیا تو میری نسبت مذہب کو ماننے والے زیادہ ناخوش ہوں گے‘‘ ۔

The News International

5 Comments