‘‘شربت گلہ’’ آنکھیں نہیں بدلتیں

dr-barkat-267x300

ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ  

گذشتہ دو ہفتوں سے مجبوری، بے بسی ، خوف ، وحشت اور  غربت کی مرقع تصویرایک بار پھر منظر عام پر آنے لگی ہے۔سرد جنگ کی جنگی اور سیاسی  معیشت کااستعارہ ایک بار پھر گردش کرنے لگاہے۔پتہ چلا کہ شربت گلہ پھر محصور ہے۔آغاز سے انجام تک، انکی دیومالائی آنکھیں ہی  ہیں جس کی وجہ سے وہ  ہر بار   بری طرح سے پکڑی جاتی ہے۔

وہ پہلی پشتون افغان لڑکی تھی جنہیں اپنی  غیر معمولی آنکھوں کی  وجہ سے بے تحاشا شہرت ملی۔ گذشتہ ۳۲سالوں سے اس کے گرد و پیش میں  کئی اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں لیکن جو چیز نہ بدلی وہ شربت گلہ کی آنکھیں میں اس دیدنی خوف اور وحشت کے سائے ہیں جنہوں نے بچپن سے جوانی اورادھیڑ عمر تک انکا پیچھا کیا ہے۔

پہلی دفعہ جب وہ بارہ سال کی تھی سٹیو مک کیوری نامی فوٹوگرافر نے اسکی مسحور کن اور حیرت کناں نیلی آنکھوں کی شوٹنگ کی تھی ۔ یہ تصویر  سال ۱۹۸۵ میں  نیشنل جیوگرافک نامی رسالے کی سر ورق کے طورپر چھاپی گئی۔ شربت گلہ کی خوفزدہ آنکھیں فوٹوگرافر اور انکے رسالے کیلئے اتنی دولت اور نیک نامی کا باعث ہو گی اس کا شاہد کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔

sharbagula-12

تصویر میں آخر تھا کیا ؟ایک بارہ سالہ مفلوک الحال پشتون ۔افغان لڑکی کے سپاٹ چہرے پر گھورتی ہوئی نیلی آنکھیں، پھٹی پُرانی سُرخ میلی چادر اور اس سے جھانکتا ہوا  سبز رنگ کا کرتہ ۔ اس تصویر کے چھپنے کے بعد فوٹوگرافر اور رسالے کے اچھے دن تو ویسے بھی شروع ہوگئے تھے ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ کیمرہ بھی بنی اسرائیل کی گائے کی طرح مشہور ہونے لگا جس نے اس تاریخی لمحے کو قید کیا تھا۔

جنگ میں والدین  اور پیاروں کو ہارنے والی خوفزدہ پناہ گزین لڑکی زندگی میں پہلی دفعہ کیمرے کی آنکھ میں جھانک رہی تھی۔ لہذا سب نے اپنے اپنے حصے کی نیک نامی اور انعام بٹوری ۔ تصویر کی پزیرائی میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا۔ شو بز کی دنیامیں بھی انکی تصویر بولنے لگی۔   برازیل کی ملکہ حُسن لاریسا کوسٹا   تک شربت گلہ کے مقروض ہیں جنہوں نے شربت گلہ کی نقالی کرتے ہوے پھٹے ہوئے دوپٹے سے سبز ہلالی کرتے کو دکھانے کی اچھی کوشش کی ہے۔

سرد جنگ کے  تناظر میں اس تصویر کی اپنی سیاسی معیشت تھی۔ سرمایہ دارانہ بلاک کے اسلحے اور وہابیوں کی تجوریاں خالی کرانے اور جہاد ی سرگرمیوں کو بڑھاوا دینے میں اسے پروپیگنڈے کے طورپر خوب اُچھالا گیا۔ ادیبوں ، شاعروں اور چہرہ شناسوں نے انکی آنکھیں پڑھنے کے لئے اپنے زائچے  استعمال کیے ۔ ایسا ہی محسوس ہوتا تھا جیسے  کوہ بیستون میں ہخامنشی دور کے خط میخی میں لکھی گئی علامات کو پڑھنے اور ڈی کوڈ کرے کی کوشش کی جارہی ہو۔

 سرد جنگ کے بعد تہی دست  شربت گلہ پس منظر میں چلی گئی۔ شربت گلہ کہاں گئی،  کیا کر رہی ہے؟، انکے تعلیمی سلسلے کا کیا بنا؟ غربت کی سطح سے اوپر زندگی بتا رتی ہے یا نیچے، کیا وہ ابھی تک زندہ  بھی ہے  یا جنگ کے اٹھتے ہوئے شعلوں ، غربت  اور بھوک کے  بےرحم جبڑوں تلے مسلی  جا چکی ہیں یہ خیال سترہ سال تک کسی کے ذہن میں نہیں آیا۔  

جب 9/11کا تاریخی واقعہ پیش آیا تو بُش انتظامیہ کو یہ تصویر ایک دفعہ پھر یاد آئی ۔انہوں  اسی تصویر کوایک اور ضرورت کیلئے استعمال کیا۔اس بار شربت گلہ کی خوفزدہ اآنکھیں افغانستان میں  طالبان کے ہاتھوں خواتین کی حقوق کی پامالی کا گلہ کر رہی تھیں ۔ طالبان کو مطلق بُرائی اور نئی تہذیب کیلئے خطربتانے والی حقوق نسواں کی تنظیموں نے بھی انہی خوفزدہ آنکھوں کا استعمال کیا ۔  

اِدھر امریکہ اور اتحادیوں نے تخت کابل سے طالبان کا صفایا کیا،  افغانستان میں ایک اور طرح ہوا کی چلنے لگی، ہوائی اڈوں پر امریکی جہاز دوڑنے لگے ۔پھر ایک شام کو نیشنل جیوگرافک کے مدیرنے ٹھان لی کہ ہمیں ایک بار پھر کلبلی مچانی چاہیئے ۔  نیلی آنکھوں والی شربت گلہ کا ایک بار پھر ڈھنڈور پیٹنا ہے۔ انکی انکھوں کی  گہرائی  سے کئی دلچسپ کہانیوں جنم لے سکتی ہیں۔

یہ حقیقت جاننے اور چھاپنے میں بھی ایک  سرور ہے کہ ذرا دیکھا جائے ، کہ جو کہانی سترہ سال پہلے لکھی گئی تھی اس کے کرادر زندگی کے بےرحم بساط پر آگے بڑھے ہیں بھی کہ نہیں؟ یہ دیکھنا چاہیئے کہ  جب وہ صرف بارہ سال کی تھی تو اسکی آنکھوں میں جنگ ، خوف اور خون کے انگارے تھے، اب دیکھتے ہیں اس فصل لالہ کاری نے کیا رنگ نکا لے ہوں گے؟۔

اس طرح سال ۲۰۰۲ میں رسالے کی ٹیم مک کوری کو ساتھ لیکر آئی اور پھر ناصرباغ ریفیوجی کیمپ میں نیلی آنکھوں والی افغان پناہ گزیں لڑکی کی تلاش شروع ہوئی۔ ایک امیر یورپی  مجلے کی ٹیم جب پناہ گزینوں کے کیمپ پہنچ جائے تو کچھ لمحے کیلئے  مکینوں کو اپنی حالت زار بدلنے کا ایک سدھائی ہوئی امید جاگ جاتی ہے۔کبھی کبھار آنے والے اپنے ساتھ چھوٹے موٹے کام کیلئے بھی یہاں کے مکینوں کو بھی ساتھ لگا لیتے ہیں۔

معروف صحافی رحیم اللہ یوسفزئی کی خدمات لیتے ہوئے ناصرباغ کیمپ میں خوب چھان بین کی گئی، کئی عورتیں دیکھی گئیں ،  آخر کار ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ وہ شربت گلہ کو جانتا ہے۔ترُونت زادِ راہ   باندھی اور پاک۔ افغان بارڈر کے اُس پار تورہ بورہ کی پہاڑوں سے شربت گلہ کو شوہر اور تین بیٹیوں سمیت  زندہ سلامت لے آیا۔

انکا ملنا تھا کہ میڈیا کی دنیا میں ایک اور بھونچال آگیا، سنسنی خیز انکشافات ہونے لگے۔انکی زندگی کے سترہ سال کیسے بیتے ؟دنیاکہاں سے کہاں پہنچی، لیکن تیس سالہ شربت گلہ کی زندگی میں کوئی قابل غور تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ آنکھیں ویسی کہ ویسی حیرت کناں،  خوفزدہ اور اپنی خوبصورتی سے بےزار و بےگانہ۔ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ انکی تصویر ایک شہرہ آفاق  تاریخی   علامت بنی ہے، جس نے عالمی سیاست اور جنگی معیشت میں ایک اہم کرادر ادا کیا ہے۔

magazine-adapt-768-1

اب کے بار وہ ایک غریب گھریلو عورت کے طور پر زندگی  گذار تی تھی، دمہ کی مریض تھی، غربت ،  بےبسی اور عدم تحفظ  انکی دہلیز پر بن بلائے مہمانوں کے طرح وجود رکھتے تھے۔البتہ شوہر کا سایہ اور تین خوبصورت بیٹیوں کا سہارا انکی زندگی میں امید دلانے کیلئے کافی تھے۔

 میڈیا چینلوں نے اس سٹوری کو بریک کیا، اس پر ڈوکومنٹری بنائی گئی، تصاویر لی گئیں  اور ایک عدد انٹرویو بھی لیا گیا اور پھر میڈیا کے دکانداروں کی چاندی ہو گئی ۔ شربت گلہ ایک دفعہ پھر پس منظر میں چلی گئی۔

ماہ اکتوبر کی 26تاریخ کو شہرہ آفاق نیلی آنکھوں والی افغان  مونالیزا   کی تصویر تیسری دفعہ منظر عام پر آئی۔ ایف آئی اے والوں نے پشاور میں انھیں جعلی شناختی کارڈ بنانے کے جرم میں دھر  لیا اور اب کے بار وہ ملزمہ ہے،جیل میں ہے۔ اس کے علاوہ  وہ بیوہ ہے ، تین نوجوان بیٹیوں کی ماں ہے ۔دمہ کے موذی مرض میں مبتلا ہے ۔

ریاستی اہلکاروں نے کوئی استثنا نہیں برتا،  نہ صنف کو خاطر میں رکھا ، نہ شہرت کا لحاظ کیا،  نہ غربت اور نہ اس پہلو پر غور ہوا کہ آخر  کسی زمانے میں انہوں نے گرم پانیوں کی راہ میں حائل ہوکر اپنے خون کے دریا بہائے تھے۔امیرالمومنین جنرل ضیااولحق  عزیز ہم وطنوں کو یہی بتاتے رہے کہ افغان ہماری بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ شربت گلہ یقیناً پاکستان کا رخ نہ کرتی اگر روسی بمباری میں وہ اپنے والدین کو نہ کھودیتی۔ والدین کو دفن کرنے کے بعدانہوں نے جس خطے کا رخ کیا تھا وہ ان کے لئے اسلام کا قلعہ تھا۔

شاید یہ ایک تاریخی جبرہے کہ اپنے پڑوس میں رہنے والوں کے دلوں پر دھاک بٹانے میں ہم تسکین محسوس کرتے ہیں ۔اگر انہیں شہریت نہیں دی جاتی، کم ازکم باعزت طور پر افغان بارڈر چھوڑ دیا جاتا۔ یہ یقیناً خطے میں پاک۔افغان تعلقات کی سرد مہری کا برف پگھلنا شروع ہو جاتا۔ پَریہاں قومی سلامتی کا سوال سامنے آجاتا ہے، قاعدے قانون کا رِٹ بھی تو دائر کرنا ہوتاہے، اوپر سے وہ نہ تو امریکن شہری ہے اور نہ ہی سعودی شہزادی جو انسانوں یا بٹیروں کا شکار کرکے باآسانی قانون کے شکنجے سے بچ سکتی ۔    

 ♠

Comments are closed.