کلبھوشن کی والدہ اور اہلیہ سے ملاقات

پاکستان میں جاسوسی کے جرم میں پھانسی کی سزا پانے والے انڈین شہری کلبھوشن جادھو کی اپنے اہلِ خانہ سے ملاقات پیر کو اسلام آباد میں میں ہو گی۔

دفترِ خارجہ کے ترجمان نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ ’پیر کو کلبھوشن کی والدہ اور اہلیہ پاکستان پہنچیں گی یہ ملاقات کل ہو گی۔

پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اتوار کی رات نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کلبھوشن کے اہل خانہ سے ملاقات کرنے کی اجازت معاملات کو مدنظر رکھ کر دی گئی ہے۔

ہم نہیں چاہتے کہ اس وجہ سے ہمارے کیس میں کوئی کمزوری یا جھول آئے۔ ہمیں یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ ایسا کیا جائے۔

کیا کلبھوشن کے گھر والوں کی جانب سے رحم کی اپیل کو دیکھا جا سکتا ہے یا پھانسی کی سزا عمر قید میں بدل سکتی ہے؟

اس سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کلبھوشن کی جانب سے پاکستان میں کی جانے والی کارروائیوں اور انسانی جانوں کے ضیاع پر بات کی اور کہا کہ ابھی وہ اس بارے میں کوئی قیاس آرائی نہیں کر سکتے۔یہ مکمل طورپر ایک کوشش ہے جو انسانی بنیادوں پر دی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگر انڈیا ہوتا تو کبھی ایسا نہ کرتا۔

اسلام آباد میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ ابھی تک کلبھوشن کو پھانسی دینے کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں قید مبینہ انڈین جاسوس کو فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی جبکہ عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن کی پھانسی پر عمل درآمد اس وقت تک موخر کر رکھا ہے جب تک انڈیا کی طرف سے اس سزا کے خلاف دی گئی درخواست پر فیصلہ نہیں سنا دیا جاتا۔

یاد رہے کہ پاکستان آرمی کی عدالت نے کلبھوشن پر پاکستان میں کی جانے والی کاروائیوں کی بنا پر موت کی سزا سنائی تھی جس کو بھارت نے عالمی عدالت میں چیلنج کردیا ۔ بھارت نے الزام لگا یا تھا کہ اس مقدمے کی کاروائی کب ہوئی اور کیسے ہوئی کیا اسے وکیل کرنے کا حق دیا گیا۔ جس کے بعد حکومت پاکستان نے اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ابھی تو اس کے مقدمے کا پراسس چل رہا ہے۔

پاکستان کے قانونی ماہرین کا بھی کہنا تھا کہ فوجی عدالت کی طرف سے موت کی سزا سنانےکافیصلہ جلد بازی میں کیا گیا تھااور قانونی تقاضے ملحوظ نہیں رکھے گئے تھے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کو عالمی عدالت میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا ہے کہ عدالت نے یہ نہیں کہا تھا کہ کوئی سزا نہیں دے سکتے کورٹ نے کہا تھا کہ موت کی سزا نہیں دے سکتے۔ ہم نے بھی کورٹ کو یہی بتایا تھا کہ ہم موت کی سزا ابھی نہیں دینا چاہتے ابھی تو اس کا پراسس چل رہا ہے۔

BBC/News Desk

Comments are closed.