جنرل یحییٰ کی مذمت کیوں کی جاتی ہے؟

لیاقت علی

جنرل آغا محمد یحییٰ خان پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مستقل ولن ہے۔ وہ ایک ایسا کردار ہے جس کے بارے میں کلمہ خیر کہنے سے ہر کوئی کتراتا اور اس پر ہر طرح کی الزام تراشی میں پیش پیش رہتا ہے۔ گذشتہ چھیالیس سالوں سے جب بھی دسمبر کا مہینہ آتا ہے تو ہمارا میڈیا یحییٰ خان کی نااہلی، شراب نوشی اور عورتوں سے تعلقات کے اصلی اور فرضی قصے مزے لے لے کر اپنے قارئین اورسامعین کو سناتا اورپڑھنے کےلیے پیش کرتا ہے۔

دسمبر چونکہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش کے بننے کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جب پاکستان کی فوج نے جنرل نیازی کی قیادت میں ڈھاکہ میں بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے لہذا اس مہینے میں جنرل یحییٰ خان کی مذمت کرنا ہر کوئی اپنا فرض خیال کرتا اور باعث ثواب سمجھتا ہے۔

سیاسی حادثات اورواقعات عدم سے وجود میں نہیں آتے ان کے پس پشت سیاسی اور معاشی محرکات کا ایک طویل سلسلہ ہوتا ہے اور اگر ان سیاسی اور معاشی محرکات پر بروقت توجہ نہ دی جائے تو یہ کسی بڑے سیاسی واقعہ اور حادثے پر منتج ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی واقعات اورحادثات کے پس پشت متحرک معاشی اور سماجی محرکات کے مطالعہ کا رحجان اور روایت موجود نہیں ہے اس لئے اس کا آسان حل یہ ڈھونڈا گیا ہے کہ ہر واقعہ کا ذمہ دارکسی ایک فرد کو ٹھہراکر معاملے کورفع دفع کردیاجاتا ہے ۔

مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیسے بنا ،اس کے پیچھے کون سے معاشی، سیاسی اور سماجی محرکات تھے ان کا مطالعہ ہمارے ہاں نہیں کیا گیا۔ بس یہ کہہ کر فارغ ہو جاتے ہیں کہ بنگلہ دیش یحییٰ خان کی شراب نوشی اور زنا سے رغبت کی بدولت وجود میں آیا تھا۔ بنگلہ دیش کا حادثہ کوئی ایک دن میں تو نہیں ہوا تھا اس کے پیچھے مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی وعدہ خلافیوں کی ایک طویل تاریخ تھی لیکن اس کا ذکر کرنے کی بجائے یہ کہہ کر معاملے کو ٹھپ کر دیا جاتا ہے کہ جنرل یحییٰ خان شرابی تھا زانی تھا ،اس لئے ہمیں شکست ہوئی اور ہمیں ہندووں کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے۔

کوئی پوچھے کہ بھائی اگر شراب نوشی اور زنا کی بدولت ملک ٹوٹنے لگیں تو یورپ اور امریکہ کا کوئی ملک سلامت نہ رہے۔ 

جنرل یحییٰ خان متحدہ پاکستان کے تیسرے صدر تھے۔ انھیں مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے صدر جنرل ایوب خان نے مارچ1969میں اقتدار سونپا تھا۔ جنرل ایوب خان سے یہ کسی نے نہ پوچھا کہ آپ نے قومی اسمبلی کے سپیکر کو اپنی استعفی پیش کرنے کی بجائے آپ نے فوج کے سربراہ کو خط لکھ کر اقتدار سنبھا لنے کی دعوت کیوں دی تھی۔ جنرل یحییٰ خان نے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا تھا ۔

انھوں نے بری فوج کے ڈپٹی کمانڈر انچیف جنرل عبدالحمید خان۔ بحریہ کے ایس۔ایم۔احسن اور فضائیہ کے ائیر مارشل نور خان کو ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز مقرر کیا تھا۔ ان سے بھی کسی نے باز پرس نہیں کی تھی کہ آپ نے ملک میں مارشل لا نافذ کرنے میں یحییٰ خان کی معاونت کیوں کی تھی۔ ائیر مارشل نور خان تو پاکستان کی قومی اسمبلی کے پی پی پی کے ٹکٹ پر رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔ 
فروری 1917 میں چکوال میں پید ا ہونے والے جنرل یحییٰ خان شاندار فوجی کئیر ئیر کے حامل تھے۔ انھوں نےدہرہ دون سے تعلیم حاصل کی تھی اور 22 سال کی عمر برٹش انڈین آرمی میں کمیشن حاصل کیا تھا۔ پولیس ہیڈ کنسٹیبل جو ترقی کر کے ڈپٹی سپرنٹیڈنٹ کے عہدے پر پہنچ گئے تھے، کے بیٹے یحییٰ خان نے دوسری عالمی جنگ میں اٹلی کے محاذ پر جنگ میں حصہ لیا تھاجہاں وہ جنگی قیدی بنائے گئے۔

قیام پاکستان کے وقت یحییٰ خان کوئٹہ سٹاف کالج میں واحد مسلمان انسٹرکٹر تھے۔ سٹا ف کالج کی لائبریری انہی کی وجہ سے محفوظ رہی تھی کیونکہ انھوں نے غیر مسلم افسروں کی طرف سے اس کو بھارت منتقل کرنے کی کوششوں کا ناکام بنادیا تھا۔وہ 34 سال کی عمر میں بریگیڈئیر کے عہدے پر پہنچنے والے پہلے فوجی افسر تھے۔میجر جنرل اسکندر مرزا کو معزول کرنے اور ان کا استعفی ڈرافٹ کرنے والے جنرل یحییٰ خان ہی تھے۔

سنہ 1965 کی جنگ میں وہ میجر جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔ جنگ کے بعد 1966 میں انھیں صدر جنرل ایوب خان نے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر مسلح افواج کا کمانڈر انچیف بنا دیا تھا۔ وہ پاکسان کی فوج کے سب سے کم عمر سربراہ تھے۔ جب وہ سی این سی بنے ان کی عمر انچاس برس تھی اور انھوں نے جنرل بختیار رانا اور جنرل الطاف قادر کو سپر سیڈ کیا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ جنرل یحییٰ خان نے 1965 کی جنگ کے تجربات کی روشنی میں فوج کی تنظیم نو کی تھی۔

جنرل یحییٰ خان نے بطور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جو سب سے بڑا کام کیا وہ ون یونٹ کا خاتمہ تھا جس کے لئے چھوٹے صوبوں کے عوا م گذشتہ کئی سالوں سے جدو جہد کر رہے تھے۔ ون یونٹ کے خاتمے سے مشرقی پاکستان کے عوا م کو ان کی عددی اکثریت واپس ملی تھی جو ان سے مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے چھین لی تھی۔ جنرل یحییٰ خان نے اپنے سے پہلے آنے والے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں بالخصوص جنرل ایوب خان کے تتبع میں مشرقی پاکستان کے عوام کو ڈنڈے کے زور پر قابو کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی یہ کوشش ناکام ہوگئی۔کیونکہ بہت دیر ہوچکی تھی ۔

مشرقی پاکستان کے عوام دو دہائیوں سے مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ اور فوج کی ظلم وزیادتی برداشت کرتے چلے آرہے تھے اور اب انھوں نے اس سے نجات کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یحییٰ خان نہ بھی ہوتا بنگلہ دیش کے عوام کی آزادی ناگزیر تھی۔ یہ محض اتفاق تھا کہ اس وقت جنرل یحییٰ خان بر سر اقتدار تھا کوئی اور جنرل بھی ہوتا تو ایسا ہی ہونا تھا۔

جنرل یحییٰ خان کے قریبی ساتھی جنرل ٹکا خان جو بنگالیوں کی نسل کشی پر یقین رکھتے تھے بعد ازاں پاکستان کی فوج کے سربراہ مقرر ہوئے، پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور گورنر پنجاب بنے حالانکہ وہ جنرل یحییٰ خان کے جرائم میں برابر کے شریک تھے لیکن ان سے کسی نے کوئی باز پرس نہیں کی تھی ۔ 
بنگلہ دیش بنگالی عوام کے جذبہ حریت کا نتیجہ تھا یہ جنرل یحییٰ خان کی شراب نوشی کی بدولت نہیں بنا تھا۔ کسی ایک شخص کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے ان عوامل کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے جن کی بدولت بنگلہ دیشں بنا تھا۔ آج یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہماری حکمران اشرافیہ پھر انہی پالیسوں پر عمل پیر ا تونہیں ہے جو بنگلہ دیش کے قیام کا باعث بنی تھیں ۔

Comments are closed.