خسارے کا سوداگر، ڈاکٹر حسن ظفر عارف! مر کر بھی امر ہوگیا

آصف جاوید

اے نسل پرست حکمرانو! جانتے بھی ہو کہ تم نے کس کو مارا ہے؟؟؟

ڈاکٹر حسن ظفر عارف ،برطانیہ سے  فلسفے میں پی ایچ ڈی، ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ  سے پوسٹ ڈاکٹریٹ اور ریسرچ فیلو، کئی کتابوں کا مصنف، فلسفے کا استاد، اور مارکسزم پر اتھارٹی تھا۔ ، ترقّی پسند دانشور ، جمہوریت ، اور انسانی حقوق کی حرمت کی خاطر  حکمرانوں کے سامنے ڈٹ جانے والا ضمیر کا قیدی۔ اسکے پڑھائے ہوئے  تواب خود پروفیسر ہیں ، یعنی ڈاکٹر حسن ظفر عارف استادالاساتذہ تھا۔

ساری عمر اس نے انسانی حقوق کی جدوجہد کی، ضیا ء الحق جیسے ڈکٹیٹر کے مارشل لاء میں اس جیسی جرات کا مظاہرہ کسی اور نے شاید ہی کیا ہو۔ وہ ایک ایسا استاد تھا جو آج بھی پیاسوں کے لئے کنواں تھا۔ آج وہی کنواں اپنی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر سوکھ گیا۔ بدن زخموں سے چور، چہرہ خون آلود، مگر خفیہ ہاتھوں کی ہدایت پر سرکاری ڈاکٹر کو پروفیسر حسن ظفر عارف کی موت طبعی نظر آئی ۔  

ڈاکٹر حسن ظفر عارف نے تیرہ 13 سال کی عمر میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا تھا۔ ٹیبل ٹینس   سے دلچسپی رکھنے والے اس نوجوان نے کم عمری میں  ہی ایم اے کے امتحان میں آرٹس فیکلٹی میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی تھی۔  جس کے بعد انہیں انگلینڈ کی ریڈنگ یونیورسٹی  میں اعلیٰ تعلیم کے لیے سکالرشپ  مل گئی، جہاں سے انہوں نے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، اس کے بعد فل برائٹ اسکالر شپ پر امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی  میں دنیا کے بہترین فلاسفر کے ساتھ  فلسفے اور منطق کے مسائل پر تحقیقی کام سرانجام دیتے رہے،  پوسٹ ڈاکٹریٹ تحقیقات سر انجام دیں، کئی کتابیں تخلیق کیں۔

لندن قیام کے دوران انہوں نے طلبہ کی عالمی تحریک میں بھی حصہ لیا، جامعہ کراچی کے شعبے فلسفہ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر فرائض  بھی سرانجام   دئے۔ ترقی پسند سوچ سے وابستہ ہونے کی وجہ سے وہ ترقّی پسند طلبہ تنظیموں کے  بھی قریب رہے۔

کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کی تنظیم کے بھی وہ صدر رہے، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے بعد جب ترقی پسند تنظیموں پر کڑا وقت آیا تو ڈاکٹر حسن ظفر عارف بھی مشکلات سے دوچار ہوئے، مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جہانداد خان نے انہیں شوکاز نوٹس جاری کیا اور سخت جواب  دینے پر انہیں ملازمت سے برطرف کرنے کے علاوہ گرفتار کرلیا گیا۔

ڈاکٹر حسن ظفر کی رہائی کے لیے بیرون ملک بھی مہم چلائی گئی اور بالآخر فوجی حکومت نے انہیں رہا کیا، جس کے بعد انہوں نے پیپلز پارٹی کی طلبہ یونین پی ایس ایف کو کراچی میں منظم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اسی دوران بحالی جمہوریت کی تحریک کا آغاز ہوا وہ اس میں بھی شریک رہے۔

بینظیر بھٹو کی واپسی اور فوجی حکومت سے رابطوں پر وہ بدظن ہوکر پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہوگئے اور خود کو ترقی پسند ادب کے ترجمے تک محدود کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے فرزند میر مرتضیٰ بھٹو کی وطن واپسی اور ان کے رابطے پر ڈاکٹر حسن ظفر دوبارہ سیاست میں سرگرم ہوئے لیکن مرتضیٰ بھٹو کی پولیس فائرنگ میں ہلاکت کے بعد وہ دوبارہ غیر فعال ہوگئے۔

کئی سالوں کی سیاسی کنارہ کشی اور خاموشی کے بعد انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ لندن میں شمولیت اختیار کی اور انہیں پاکستان میں تنظیم کا سربراہ مقرر کیا گیا، جس وجہ سے انہیں ایک بار پھر قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔

ڈاکٹر حسن ظفر عارف  ضمیر کے قیدی تھے، انہوں نے  ایسے وقت میں ایم کیو ایم   کی کنوینر شپ سنبھال کر  خسارے کا سودا کیا تھا، جب ریاستی طاقتوں نے مہاجروں کی نمائندہ جماعت  کے خلاف بد ترین ریاستی آپریشن جاری رکھا ہوا تھا،  ایم کیو ایم ٹکڑے ٹکڑے کر دی گئی تھی، ایک نعرہ لگانے کی پاداش میں ایم کیو ایم کی مقامی قیادت اپنے لیڈر الطاف حسین سے منحرف ہوکر اپنے راستے ایم کیو ایم سے جدا کرچکی تھی ۔

ڈاکٹر حسن ظفر عارف کو کراچی پریس کلب سے سامنے سے گرفتاری کے بعد چھ ماہ زیرِ حراست رکھا گیاتھا، پروفیسر حسن نے ہائی کورٹ میں ایک آئینی درخواست  بھی دائر کی تھی جس میں انہوں نے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اے نسل پرست حکمرانوں 
ایسا نہیں ہے کہ تم نے پروفیسر کو  فوراً جان سے ماردیا ہوگا۔ 

تم نے  اسے مہینوں ڈرایا  ، وہ نہیں ڈرا، تم نے اسے اس عمر میں اس مرتبے پر بھی بغیر لحاظ ہتھکڑیاں لگا کر عام مجرموں کی طرح عدالتوں کے چکر لگوائے، وہ نہیں ڈرا، پھر روزانہ کی پوچھ تاچھ میں دھونس دھمکیاں  بھی  دیں، وہ پھر بھی نہیں ڈرا۔

پھر ایسا ہوا کہ ایک ستر سالہ ریٹائرڈ استاد کے ناتواں جسم اور تر و توانا دماغ اور چٹانی حوصلے کے سامنے تمہاری نفرتوں اور عصبیتوں بھری ریت کی دیوار ڈھے گئی۔

پھر اس کی چہرے کی طمانیت تمہاری جھنجلاہٹ پر بھاری پڑگئی۔ 

تم نے بہت سوال کئے ، اور تم کو ہر سوال کا ایسا جواب ملا ، جو شاید کسی ایف اے فیل اُجڈ و دیہاتی گنوار کی سمجھ سے نہایت ہی بالا تر ہو

تم اپنی تمام تر طاقت اور ظلم کے باوجود بھی جب ایک بوڑھے وجود کو اسکا نظریہ تبدیل کرنے پر نہ راضی کرسکے تو تھک ہار کر تم نے  اسے راستے ساے اغوا کیا، اسکو گالیاں  دیں۔ دو چار مسٹنڈے  لوگوں نے ہاتھ موڑ کر گھونسے لاتیں مار کر بد ترین تشدّد کیا، لہولہان کردیا، 

ایک  بہتّر سالہ بوڑھا اور بیمار شخص کتنا سہہ سکتاتھا….  تشدّد کی تاب نہ لا سکا اور مر گیا

لیکن تمہارے ظلم کے ہاتھوں بھی اسکا نظریہ نہیں مر سکا ، ہاں البتہ تم نے اسکے فانی جسم کو ختم کردیا لیکن وہ خسارے کا سوداگر ، خسارے کا سودا کرکے بھی بے پناہ منافع کماگیا۔

وہ امر ہوگیا، اور تم ذلیل ہوگئے،  اور تم ابھی اور بھی ذلیل ہوگے، انشاء اللہّ


One Comment