کہاں تک فصلِ گریہ کاٹیے گا؟

منیر سامی

ابھی معصوم زینب ؔ کے ساتھ زیادتی اور اس کی موت پر دردمندوں کی گریہ زاری میں کمی نہیں آئی تھی کہ پاکستانی عالم، فلسفی، دیانت دار عمل پرست ، ڈاکٹر ظفرعارفؔ کی پر اسرار موت نے نیا سیلابِ گریہ برپا کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب ( ڈاکٹر ظفر عارفؔ کو سب ڈاکٹر صاحب ہی تو کہتے تھے)، کی پر اسرار موت یہ بتاتی ہے کہ ہمارے بدقسمت ملک پاکستان میں نہ تو سیلابِ گریہ میں کبھی کمی آئے گی اور نہ ہی سدا بہار فصلِ گریہ کبھی ختم گی۔ اس میں روزہی مظلوموں کے خون کے گلاب کھلتے رہیں گے۔ جن کی قسمت میں کوئی پھول نہ ہوانہیں لہو کے گلاب ہی تحفہ میں دیئے جاتے ہیں۔

پاکستان کے روشن خیال اور انسان دوست طبقہ میں ، جو شاید وہاں کی ایک بہت ہی کمزور اقلیت ہے، ڈاکٹر صاحب کی ہستی ایک ایسی قندیلِ علم تھی جو اپنی کمزور روشنی پھیلانے پر مصر تھی کہ شاید ایک فرضِ کفایہ ادا ہوسکے۔ ڈاکٹر صاحب فلسفے کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے جامعہ کراچی میں استاد کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ ان کی شمولیت کے فوراً بعد ہی ان کی عمل پرستی اور طلبا کی ذہنی تربیت اور انسان سازی کا چرچا ہونے لگا۔ وہ کبھی کراچی یونیورسٹی کے لان پر کبھی سیڑھیوں پر کبھی اپنی کلاسوں میں طلبا میں گھل مل جاتے تھے۔ وہ ان طلبا کو روشن خیالی اور ترقی پسندی کا درس دیتے تھے۔ جس کی بنیاد مذہبی شدت پرستی اور تشدد کی مخالفت اور جمہوریت کا فروغ تھا۔ وہ عملی طور پر پاکستان کے سارے مظلوم طبقوں میں اتحا د اور مساوات کی کوششوں میں شریک تھے۔ انہوں نے جابر حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہونے کا سبق بھی دیا، اور اس کی عملی مثال بھی قائم کی۔

جامعہ کراچی کی ملازمت کے دوران وہ ٹیچرز سوسائٹی کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ اس زمانہ میں پاکستان کے صوبہ سندھ کے مارشل لا ایڈ منسٹریٹر جنرل جہاںؔ داد خان نے یونیورسٹی کے اساتذہ کو ہدایت جاری کی کہ طلبا کو کیا پڑھایا جائے۔ اس کے جواب میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ انہیں سخت جابر حکمرانوں کا سامنا ہے، ڈاکٹر صاحب نے جو جواب لکھا وہ پاکستان میں بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے ہر جابر حکمران کے لیے اور انصاف اور حقوق کی جدو جہد کرنے والے ہر عمل پرست کے لیے ایک ضرب المثل ہے۔ ان کا یہ خط اس زمانے میں جمہوریت پسند نوجوانوں میں دور دور تک پہنچا۔ ڈاکٹر صاحب کے نصب العین اور منصب کو سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ اس خط کا عمومی ترجمہ پڑھ لیا جائے، جس سے ان کی زندگی اور پر اسرار موت پر شاید کچھ روشنی پڑ سکے۔ ترجمہ کچھ یو ں ہے:

’’مسٹر جہاں ؔداد خان۔ از بس کہ، آپ کی مطلق العنان ریاست کے ساتھ جو ہمارے زمانے میں ہر اعلیٰ خیال اور سائنسی سوچ کو غارت کرنے میں مبتلا ہے ، کوئی علمی مکالمہ نہیں ہو سکتا ۔ وہ منطق اور فلسفہ جو میں پڑھاتا ہوں ، اوروہ سماجی معیارات پر جن پر میں عمل پیرا ہوں، مطالبہ کرتے ہیں کہ میں اختصار سے کام لوں۔

اگر حالات کچھ اور ہوتے تو میں آپ کے مراسلے کو جامعاتی معاملات میں دخل اندازی قرار دیتا۔ لیکن ایسی صورتِ حال میں کہ: جب، سند ھ میں نسل کُشی جاری ہے، ہماری سرحدوں پر ایک ایسی جنگ کا امکان ہے جو خودآپ کے عمل کی پیدا کردہ ہے، لانڈھی اور کورنگی میں دو ایسے فرقہ وارانہ فساد ہوئے ہیں جو ہمیں بیروت کی یاد دلاتے ہیں اور جو آپ کے اپنے گرگوں کے ہاتھوں ہوئے ہیں، اسلامی علامتوں کا بے ضمیرانہ احتصال کیا جارہا ہے، آپ کی سرپرستی میں منشیات کا کاروبار جاری ہے، ہر طبقہ پر جبر جاری ہے جس میں طالب علم ، اساتذہ ، مزدور، وکلا، خواتین،صحافی شامل ہیں۔ اور یہ کہ ہر اختلافِ رائے کو بے اصولانہ کچلا جارہے۔میں ایسی صورتِ حال میں خود کو نہتا محسوس کرتا ہوں۔ یہ جان کر شاید آپ کو جھوٹی خوشی ہو کہ میرے پاس کچھ کہنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔‘‘

ـ’’اس کے باوجود طلبا اور عوا م میں سماجی انتشار اور منظم جرائم کے خلاف تبلیغ بلکہ دباؤ ڈالنا ہی میری زندگی کا مقصد ہے۔ حالانکہ میں جانتا ہوں کہ :وہ ہزاروں طالب علم جنہیں اسکولوں اور کالجوں کے دروازوں سے لوٹایا جاتا ہے، لاکھوں غیر تعلیم یافتہ افراد جو بے روزگار ہیں، عام لوگ جنہیں مہنگائی اور افراطِ زر نے غریب سے غریب تر کردیا ہے، وہ جھگی نشین جو آہستہ آہستہ زہر آلود پانی اور ملاوٹ شدہ اشیائے خوردنی کے نتائج بھگت رہے ہیں، جو سر چھپانے کی جگہ کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو کم سے کم شہری سہولتوں مثلاً بجلی، سستے پیٹرل، صحت، گندے پانی کی نکاسی، اور نقل و حرکت کے وسائل کا مطالبہ کر رہے ہیں، کسی کی بھی ترغیب کے بغیر اپنے بقا کی جدو جہد کرتے رہیں گے۔‘‘

’’اس کے باوجود میں اپنے منصب کے تحت ،آپ کے برخلاف بیرکوں سے نکل کر بوسیدہ نو آبادیاتی محلوں میں رہنے کے بجائے، علمِ باطنی کے سنگ ہائے مزار سے نکل کر ’پُلیوں ‘ پر تازہ ہوا کی تلاش میں سرگرداں رہوں گا۔ اور وہاں سے غنڈوں کے جتھے کے ہراس رکن اور ہر جعلساز پر نظر رکھوں گا جوہر اعلیٰ ترین اور تصعیدی روایت کی تباہی کے ذریعہ اپنی جیبیں بھر رہا ہے۔‘‘

’’ آپ اپنی پوری طاقت سے میرے پیچھے پڑ سکتے ہیں، لیکن میں آپ کو بتا تا چلوں کہ، اسکندرؔ، ایوبؔ ، اور یحییٰ ؔ کی طرح آپ بھی اس کرسی پر ہمیشہ نہیں بیٹھے رہیں گے۔ یہ میرا عقیدہ ہے‘‘

اس خط کے بعد جنرل جہاںؔ داد کے دباؤ پر ڈاکٹر ظفرؔ عارف کو جامعہ کی ملازمت سے نکال دیا گیا ۔ انہوں نے کوئی مصالحت نہیں کی، اور کئی سال تک بے روزگار رہے۔ کیا انہوں نے ہمیں یہ سبق نہیں دیا کہ، ’سر دے دینا ترکِ روایت مت کر نا۔۔۔ شب زادوں کے ہاتھ پر بیعت مت کرنا ‘۔ ڈاکٹر صاحب نے کس طرح سے ترقی پسند افکار کی تبلیغ کی اور کس طرح عمل پرستوں کی تربیت کی، اسے یاد کرنے والے ہزاروں ہیں ۔ حق پر قائم رہنے اور سچ کا پرچم بلند رکھنے پر ان کے پرستاروں نے انہیں ’سقراط ‘ کا خطاب دیا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حق پرست لوگوں میں انہیں حق پرستی کی مثال ’ڈاکٹر صاحب ‘ ہی کے نام سے یاد رکھا جائے گا۔

ڈاکٹر صاحب کا خط بار بار پڑھے جانے کا مطالبہ کرتا ہے، ہر قرات ہم پر واضح کرے گی کہ حالات اب بھی ویسے ہی ہیں جیسے ان کے اس مکتوب کے وقت کے تھے۔ ان کی پر اسرار موت کے بعد،’ وہ جو ہیں پروردئہ شب اور وہ جو ہیں ظلمت پرست‘ صرف اس بات کا غُل مچارہے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب ایم کیوایم میں کیوں چلے گئے تھے۔ اگر وہ ڈاکٹر صاحب کے خط کو ایک بار پھر پڑھیں تو شاید انہیں اس کا جواب مل جائے ۔

ان کے نزدیک سندھ کے شہری باشندے بھی ان ہی حقوق کا حق رکھتے ہیں جیسے کہ پاکستان کا کوئی بھی شہری۔ اگر وہ سندھ میں نسل کُشی کے خلاف تھے تو پھر وہ سندھیوں یا ان جیسے مظلوموں کے خلاف کیسے ہو سکتے ہیں۔ جو لوگ ان پر غداری کے الزام لگا رہے ہیں وہ اگر ان کے خط کو غور سے پڑھیں تو انہیں اندازہ ہوجائے گا کہ ڈاکٹر صاحب کا نصب العین پاکستان کو ایک مثالی معاشرہ بنانا تھا، اور اسے جابروں کے چُنگل سے آزاد کرانا تھا۔

ڈاکٹر صاحب کی موت کے بعد پاکستان کے ’بے باک اور آزاد میڈیا‘ نے ایک چُپ اختیار کر رکھی ہے، ہو سکتا ہے یہی ان کی مصلحت ہو۔ لیکن جستہ جستہ کئی آوازیں بعض جرائد میں اور سوشل میڈیا میں اٹھ رہی ہیں۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی تربیت دور رس تھی۔ ان کی موت پاکستان کی بہبود کے عمل پرستوں کو ترغیب دیتی رہے گی ، اور پاکستان کی سدا بہار ’فصلِ گریہ ‘ ایک نہ ایک دن اپنی مدت پوری کر لے گی۔

ڈاکٹر صاحب کا نام پاکستان میں حق و انصاف کے ان شہیدوں میں فروزا ں رہے گا جو فیض کے اس شعر کو سچ ثابت کرتے رہے کہ، ’جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے، یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں۔‘

3 Comments