اجڑے کھیتوں اور ٹوٹے گھروں والے لوگ ؟

بیرسٹر حمید باشانی

ریاست کیوں اور کیسے معرض وجود میں آئی ؟ اس کا بنیادی کام کیا ہے ؟ ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اس پر مختلف نظرئیے ہیں۔ مختلف مکاتب فکر ہیں۔ مگر ایک بات پر سب کا اتفاق ہے کہ کسی ریاست کا سب سے بنیادی اور اہم ترین کام اپنے شہریوں کو جان و مال کاتحفظ فراہم کرنا ہے۔ یہ ایک وسیع ، پیچیدہ اور بھاری ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری سے عہدہ براہ ہونے کے لیے ریاست کو ترجیحات کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ ہر مہذب ریاست کی اولین ترجیح اپنے شہریوں کی جان کی حفاظت ہوتی ہے۔ اس کے بعد املاک، انسانی حقوق ، شہری آزادیوں اور دیگر معاملات کی باری آتی ہے۔ 

جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری میں سماج دشمن اور جرائم پیشہ افراد سے لیکر قدرتی آفات اور بیرونی حملہ آور وں سے تحفظ تک سب شامل ہے۔ اپنے شہریوں کو بیرونی حملے اور جارحیت سے بچانا تاریخی اعتبار سے ریاست کا اولین فریضہ رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے ریاستیں اپنی تاریخ، جغرافیہ، علاقائی اور عالمی حالات کے مطابق مختلف راستے اختیار کرتی ہیں۔ شہریوں کے تحفظ اور ملک کے دفاع کے لیے فوجیں تیار کی جاتیں ہیں۔ جنگی ہتھیار بنائے یا خریدے جاتے ہیں۔ 

کچھ ریاستیں دفاع کے لیے غیر فوجی راستے بھی اختیار کرتی ہیں۔ اس میں عالمی اور علاقائی سیاست میں غیرجانبدارانہ حیثیت سے لیکر دوسرے ممالک کے ساتھ پر امن بقائے باہمی کے اصولوں کے مطابق تمام معاملات گفت وشنید سے حل کرنے کی پالیسی شامل ہے۔ اس طرح ریاست جو راستہ بھی اختیار کرتی ہے اس کا مقصد شہریوں کو تحفظ دینا ہوتا ہے۔ انہیں پر امن اور پر سکون زندگی فراہم کرنا ہوتا ہے۔ داخلی سطح پر شہریوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کے ریاستوں کے پاس کئی عذر ہو سکتے ہیں۔ ان میں جرائم کی شرح میں اضافہ، لا ء اینڈ آرڈر کی خراب صورت حال، معاشی بد حالی، بے روزگاری ، بے چینی اور قدرتی آفات وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔

مگر بیرونی جارحیت سے تحفظ ایک غیر مشروط و مطلق ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوتا۔ ریاست اور شہری کے درمیان یہ ایک بنیادی پیمان ہے۔ ایک عمرانی معاہدہ ہے۔ ریاست کو ہر حال میں اس معاہدے کی پاسداری کرنی ہوتی ہے۔ اس پاسداری کے لیے ریاست کبھی دوسرے ملکوں کے ساتھ پر امن رشتے استوار کرتی ہے۔ کبھی جنگ کا راستہ اختیار کرتی ہے۔ بعض ملکوں کے درمیان ایک تیسری صورت بھی ہوتی ہے۔ یہ جنگ ہوتی ہے، نہ امن ہوتا ہے۔ یہ خوف کا توازن ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا ملک نہ لڑ رہے ہوتے ہیں، نہ دل سے امن کے راستے پر چل رہے ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان بد اعتمادی اور مسلسل کشیدگی کی ایک فضا ہوتی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان یہی صورت حال ہے۔ دونوں کے درمیان سرحدوں پرمستقل کشیدگی ہے۔ اس کشیدگی کی ایک المناک تاریخ ہے۔ دونوں ملک تقسیم کے فورا بعد جنگ اور نفرت کے راستے پر چل پڑے۔ ان کے درمیان پہلا میدان جنگ ریاست جموں و کشمیر میں سجا۔ اس کے بعد آنے والے برسوں میں دو پوری ، اورایک آدھی جنگ ہوئی۔ مذاکرات کے کئی دور چلے۔ مگر دونو ں ملکوں کے درمیان اعتماد کا و ہ رشتہ قائم نہ ہو سکا جو دوستی اور امن کے لیے ناگزیر ہے۔ 

کشیدگی کے اس پیچیدہ عمل کے پیچھے ایک عظیم انسانی المیہ ہے ۔ یہ المیہ دنیا کے سامنے نہیں آیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر یہ کشیدگی مستقل طور میں موجود ہے۔ کشمیر کے اس تنازعے سے دنیا آگاہ ہے۔ اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام قابل زکر ادارے، اہم ملکوں کی پارلیمنٹس، انسانی حقوق کی انجمنیں اور سول سوسائٹی کے نمایاں افراد اس سے واقف ہیں۔ گزشتہ ستر سال سے یہ لائن آف کنٹرول سوائے چند وقفوں کے مستقل طور پر گولہ باری کا شکار رہی ہے۔ 

پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں یہ عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ کہ اس کنٹرول لائن پر دونوں طرف افواج تعینات ہیں۔ ان افواج کے درمیان کبھی کبھار فائرنگ کا تبادلہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں ان ممالک کے ایک آدھ فوجی کی جان چلی جاتی ہے۔ اس تاثر کے پیچھے ایک بہت بڑا انسانی المیہ چھپ جاتا ہے۔ اصل کہانی سامنے نہیں آتی۔ اس طرح اس کے ساتھ جو انسانی ہمدردی یا انسانی حقوق کا پہلو جڑاہے، وہ اجاگر ہونے سے رہ جاتا ہے۔ کنٹرول لائن کے دونوں اطراف میں مختلف جگہوں پر فوجی تعینات ہیں ۔ مگر تقسیم کی اس لکیر کے دونوں اطراف میں بڑی تعداد میں عام شہری بھی آباد ہیں۔

اور حقیقت تو یہ ہے کہ تقسیم سے لیکر آج تک یہ لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کنٹرول لائن کے دونوں اطراف میں اپنی زمینوں پر آباد ہیں، جن پر صدیوں سے ان کے آباو اجداد رہتے تھے۔ ان لوگوں کے آپس میں مشترکہ زبان اور ثقافت کے علاوہ خونی رشتے بھی ہیں۔ کئی جگہوں پرلائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف میں ایک ہی خاندان کے لوگ تقسیم ہوئے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان نفرت اور کشیدگی کے اصل شکار یہی لوگ ہیں۔ یہ لوگ کئی المیوں کا شکارہیں۔

ایک المیہ یہ ہے کہ کشیدگی اور گولہ باری کی وجہ سے یہ علاقے تعمیر ترقی سے محروم ہیں۔ یہاں آج بھی بجلی، پانی، سڑکیں، سکول اور ہسپتال جیسی بنیادی سہولیات موجود نہیں ۔ علاقے میں جنگی ماحول کی وجہ سے روزگار اور کاروبار کے کوئی ذرائع نہیں ہیں۔ یہاں کے بچوں کی بہت بڑی تعدادتعلیم سے محروم ہے۔ یہاں گولہ باری اور کشیدگی کی وجہ سے بے روزگاری اور غربت بڑھتی جا رہی ہے ۔ خوف کی وجہ سے لوگ اپنی زمینیں کاشت نہیں کر سکتے۔ مال مویشی نہیں پال سکتے۔ حا لانکہ کاشت کاری اور مویشی ان لوگوں کی آمدن کا ایک روایتی اور بعض اوقات واحد ذریعہ ہے۔ 

دوسرا المیہ ان کے لیے اپنے پیاروں اور رشتوں سے کٹ جانا ہے۔ حال ہی میں کئی بچھڑے ہوئے رشتہ دار پچاس سال بعد عارضی اجازت اور بس سروس کی وجہ سے ایک دوسرے سے ملے ہیں۔ ان لوگوں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو گولہ باری کا شکار ہوئے۔ ان کے گھر تباہ ہوگئے۔ کشیدگی کے براہ راست شکار ر لوگوں میں کچھ خانہ بدوش قبائل بھی ہیں۔ یہ لوگ بھیڑ بکریاں پالتے ہیں۔ امن کے زمانے میں یہ حسب ضرورت آر پار آتے جاتے رہتے تھے۔ موسم کے مطابق یہ آزادانہ نقل حرکت ان کی معاش کا ناگزیر ذریعہ ہے۔ گولہ باری کی وجہ سے ان کی نقل و حرکت متاثر ہوئی اوریہ لوگ بڑے پیمانے غربت کا شکار ہوئے۔

کنٹرول لائن کے قریب بسنے والے لوگوں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ یہ معاشی طور پر مفلوک الحال لوگ ہیں۔ ان کے پاس کوئی سیاسی طاقت نہیں ۔ سماجی رتبہ نہیں۔ ان کی کوئی لابی نہیں۔ کسی سیاسی پارٹی یا پارلیمنٹ میں ان کی کوئی آواز نہیں ہے۔ میڈیا تک ان کو رسائی نہیں ہے۔ چنانچہ یہ لوگ خاموشی سے مصیبتیں اٹھا رہے ہیں۔ گزشتہ سال سے کشمیر کی سرحدوں پر کشیدگی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس وجہ سے ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئی۔

اس دفعہ بھارتی فوج نے ایسی بستیوں پر بھی گولہ باری کی جن پر پہلے کبھی گولہ باری نہیں ہوئی ۔ جن گھروں کو پچاس سال سے محفوظ سمجھ جا تا تھا ان پر بھی شیلنگ ہوئی۔ اس گولہ باری سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بے گھر ہو گئی۔ ان لوگوں کو ہنگامی بنیادوں پر کچھ امداد دی گئی ، جو ناکافی ہے۔ ان لوگوں کی جان مال کاتحفظ ریاست کی قانونی، اخلاقی اور آئینی ذمہ داری ہے۔ ان کو دہشت و خوف سے نجات دلانا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور جنگ کے سوال کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

یہ ایک الجھا ہوا سوال ہے، مگر اس کا جواب تلاش کرنا بھی ریاست ہی کی ذمہ داری ہے۔

♦ 

Comments are closed.