اوریا مقبول جان اور قائد اعظم 

اصغر علی بھٹی۔ نائیجر 

پچھلے ماہ اہلیان پاکستان نے 25 دسمبر کا دن منایا اس حوالے سے بہت سی تقریبات پورے ملک میں منعقد کی گئیں۔ اخبارات کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا نے بھی پروگرام ترتیب دئیے ۔ اسی سلسلے میں ایک نجی ٹی وی چینل پرپارس جہانزیب صاحبہ کے پروگرام میں مکرم اوریا مقبول جان صاحب اور انصار عباسی صاحب کو سننے کا موقعہ ملا۔

آپ قوم کو یقین دلا رہے تھے کہ قائد اعظم ؒ خود بھی ایک پکے سچے اور کھرےمذہبی مسلمان تھے اور وہ پاکستان کو بھی ایک خالص مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ اور یہ جو چند لوگ 11 ستمبر ٹائپ کی چند تقاریر کے حوالے بیان کرتے ہیں اورفلاحی قومی ریاست کی بات کرتے ہیںدراصل یہ گمراہ لوگ ہیں، سیکولر دماغ رکھتے ہیں، یہود ہنود اور ہمارے دشمنوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ عظیم اسلامی ملک کی جڑوں کو کھوکھلاکرنا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اوریا مقبول جان ہوں یا انصار عباسی،مجیب الرحمٰن شامی ہوں یا حامد میر یہ آج کے پاکستان کے معروف اور محترم نام ہیں۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں اس لئے ان سے اختلاف کرنا کوئی آسان بات نہیں البتہ ایک طالب علم کی حیثیت سے سوال پوچھا جا سکتا ہے کیونکہ حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ جیسے جہالت کی بات کہنے میں کوئی خوبی نہیں ایسا ہی حق بات سے چپ رہنے میں کوئی بھلائی نہیں۔
سو جناب اوریا مقبول جان صاحب آپ کی بات مان لیتےہیں کہ ہمارے قائد پاکستان کو ایک خالص مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے تو چند ایک معروضی حقائق پر بھی روشنی ڈال دیجیے کہ اس نقشے میں ان کا محل وقوع کیا ہوگا؟ مثلاََ 23 مارچ 1940 قرار داد پاکستان سے شروع کرتے ہیں۔قرار داد پاکستان پیش ہوئی تو ایک آزاد مسلمان مملکت کے قیام کی جد و جہد کا باقاعدہ آغاز ہو گیا اور مسلم مئوقف کو حکومت برطانیہ ، ہندووں،سکھوں اور دیگر اقلیتوں کے سامنے وضاحت سے پیش کرنے کے لئے ایک مضبوط پریس کی شدید ضرورت محسوس ہونے لگی۔ اس سے قبل اردو پریس پر مسلمانوں کا نہ صرف خاصااثرو نفوذ تھا بلکہ دلی سے منشور نامی ایک اخبار مسلم لیگ کے ترجمان کے طور پر شائع ہوتا تھا۔

اب پہلی بار قائد اعظم نےخود وقت کی ضرورت کے پیش نظر انگریزی کے مقبول اخبارات اسٹیٹسمین ،ٹائمز آف انڈیا،اور سول اینڈ ملٹری گزٹ کی طرز پر ایک انگریزی اخبار جاری کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ یہ اخبار اکتوبر 1941 میں ہفت روزہ ڈان کے نام سے شائع ہونا شروع ہوگیا ۔لیکن ابھی ایک قومی روزنامے کی ضرورت بدستور باقی تھی چنانچہ قائد اعظم نے ہفت روزہ ڈان کوروزنامہ بنانے کے لئے عوام سے اعانت کی درخواست کی ۔ اس طرح جو فنڈ اکھٹا ہو ااس سے ایک ٹرسٹ بنایا جس کے مینجنگ ٹرسٹی خود قائد اعظم بنے اور یوں ایک سال کی جدو جہد سے اکتوبر 1942 کو عید الفطر کے دن روزنامہ ڈان کا پہلا شمارہ منظر عام پر آگیا۔ قائد اعظم نے اس اخبار کے پہلے مدیر کے طور پر ایک عیسائی صحافی پوتھن جوزف کا تقرر کیا جو اسٹار آف انڈیا میں “اوور اے کپ آف ٹی “ نامی کالم لکھا کرتے تھے اور خاصے معروف تھے۔

پھر ملک بن گیا ۔ قائد اعظم ؒ نے اپنی کابینہ تشکیل دی اورپاکستان کی اس پہلی کابینہ میں کسی مذہبی راہنما کو شامل نہیں کیا۔ بلکہ وزارت مذہبی امور ہی نہ بنائی۔ اب ملکی انتظام و انصرام چلانے کے لئے ایک قومی اسمبلی ضروری تھی۔ وہ قومی اسمبلی جس نے خالص مذہبی اسلامی ریاست کے ڈھانچے کی خواب کو شرمندہ تعبیر کرکے دنیا میں ایک نئی مثال قائم کرنا تھی ۔ اور اس تاریخی قومی اسمبلی میں قائد اعظم نےچندولال اورگبن صاحب کو ڈپٹی اسپیکر مقرر فرمادیا۔پھر اسی اسمبلی نے پہلی جدید خالص مذہبی اسلامی ریاست کے لئے قانون سازی کرنی تھی ۔ قرآن و حدیث کے عمیق مطالعہ کے بعد جدید ریاست کی عدالت، ثقافت، سیاست،فنانس غر ض ہر شعبہ ہائے زندگی کے لئے شریعت اسلامی کی روشنی میں قانون سازی کرنا تھی تو اس اہم پوسٹ یعنی وزیر قانون کے لئے قائد اعظم نے ایک مرتبہ پھر ایک غیر مسلم ہندو جوگندر ناتھ منڈل جی کو مقرر فرمادیا۔ پھر نوزائیدہ خالص مذہبی اسلامی ریاست جو 1947 میں پوری دنیا کے لئے ایک انوکھا تجربہ تھا اس کے لئے وزارت خارجہ تشکیل دینی تھی ۔

چونکہ اب وزارت خارجہ کا کام تھا کہ وہ پوری دنیا کو قائد اعظم کی سوچ اور اسلامی ریاست کے خدوخال اور دوسرے ممالک سے تعلقات کو خالص اسلامی نقطعہ نظر سے دنیا کے سامنے اس طرح سے پیش کرے کہ پوری دنیا کو ایک خالص اسلامی مذہبی ریاست سے ہر قسم کے تعلقات قائم کرنے میں کوئی ابہام نہ رہے چنانچہ وزارت خارجہ کی تشکیل کےلئے سیموئیل مارٹن صاحب کو ذمہ داری سونپی گئی۔اور اس کے بعد اس اہم ترین پوسٹ کے لئے آپ نے ایک احمدی چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کو مقرر فرمایا جبکہ اس سے قبل اسی اسلامی مملکت کی حد بندی کا کیس بھی آپ نے انہیں کو سونپا تھا۔

پھرپاکستان بننے سے چند روز قبل یعنی 12 اگست 1947کو قائد کے دل میں اس خالص اسلامی ریاست کے لئے قومی ترانے کا خیال آیا تو آپ نے اپنے ایک ہندو شاعر دوست جناب جگن ناتھ آزاد صاحب کو اس سلسلہ میں درخواست کی ۔ اور اس کے لئے باقاعدہ ان کو بریف کیا ۔ چنانچہ وہ چند دن میں لکھ کر لے آئے آپ نے سنا اور اسی وقت اس کو منظور کیا اور یہ ترانہ ہی 18 ماہ تک چلتا رہا ۔ اسی طرح سے وزیر ریلوے فرینک ڈیسوزا صاحب کو مقرر فرمایا۔

اوریا مقبول جان صاحب اس عجیب سی منظر کشی سے صورت حال یہ بنتی ہے کہ اگر آپ کی مان لیں تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ قائد اعظم ؒ نہ صرف اپنی ملک و قوم بلکہ اپنے مذہب سے بھی مخلص نہ تھے کیوں اُن کو مسٹر پوتھن جوزف کی بجائے حامد میر صاحب جیسا سکہ بند صحافی نہ ملا۔جناب چندولال جیسے ہندو غیر مسلم کی بجائے جناب انصار عباسی جیسا ڈپٹی سپیکر نہ ملااور گریگر منڈل صاحب کی بجائےجناب افتخار چوہدری صاحب جیسا وزیر قانون نہ ملا ۔اور چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب کی بجائے مجیب الرحمٰن شامی جیسا وزیر خارجہ نہ ملا۔ اور غریب مولانا شبیر عثمانی صاحب کو صرف جھنڈا لہرانے اور جنازہ پڑھانے تک ہی محدود رکھا آخر کیوں ؟؟

اوراگر فلاحی قومی ریاست کی بات غلط ہے اور 11ستمبر کی تقریر ایک دھوکہ محض تھی بلکہ قائد کی نظر صرف ایک خالص اسلامی مذہبی ریاست پر تھی جس میں غیر مسلم کبھی سربراہ مملکت نہیں بن سکتاتھا ۔ تو جناب اوریا مقبول جان صاحب آپ تو قائد اعظم کے دل سے خوب واقف ہیں اور تو پھر آپ ہی فرمائیے اور ہماری راہنمائی فرمائیے قائد اعظم کے دل میں یہ کیا چل رہا تھا ؟؟وہ اس دورنگی کے ساتھ کیوں چل رہے تھے ؟؟ اور اگر وہ دو رنگی سے نہیں چل رہے تھے اور انہوں نے پہلی اسمبلی کا اجلاس بغیر تلاوت قرآن سے شروع کرواکر اور وزارت مذہبی امور قائم نہ کرکے اور کسی مذہبی مولوی کو اپنی کابینہ میں نہ لے کر اور وزارت قانون تک ایک ہندو کو دے کر یہ واضح پیغام دے دیا تھا کہ یہ مولوی کا ملک نہیں تمام پاکستانیوں کاہےبلکہ ایک جدید فلاحی ریاست ہے جس میں اقلیتوں کے لئے کوئی خانہ نمبر 2 نہیں ہے تو پھراوریا صاحب آپ جھوٹ کی نجاست بیچ کر کیوں اپنے محسن قائد اعظم پر منافقت کا کیچڑ اچھال رہے ہیں؟؟

One Comment