پاکستانی صحافت کے جمعدار جاڑو خان !!۔

رزاق کھٹی

کوئی ڈیڑہ دھائی پہلے کی بات ہوگی، سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد سے شائع ہونے والے  ایک سندھی روزنامے نے صحافت کا ایک بدنما انداز متعارف کرایا تھا، اگر ہم اسے پورنو جنرلزم کہیں تو شاید اس کیلئے یہی اصطلاح ہی بہتر ہوگی۔

اس روزنامے نے  ایک علامتی کردار ’’ جمعدار جاڑو خان’’ تخلیق کیا ، اور اسی کےنام سے آٹھ آٹھ کالم لیڈ خبر شائع کی جاتیں۔ روزانہ  کسی ایک شہر کے عام و خاص آدمی کا انتخاب کیا جاتا اور اس کے بیڈ روم  کی خبر دی جاتی، اگر یہ صرف خبر بھی ہوتی تب بھی بات سمجھ میں آتی، لیکن اس خبر میں چسکے دار منظر کشی کی جاتی۔ اور اس منظر کشی کیلئے ایسے الفاظ کا چناؤ کیا جاتا تاکہ تفریح  اور بدنامی اپنی شدت کے ساتھ محسوس ہوں ۔ خبر کے اختتام پر لکھا ہوتا کہ اگلی قسط جلد شائع کی جائے گی، تاکہ جس کے خلاف خبر شائع ہوئی ہے اس کے ساتھ سودے بازی میں آسانی ہو۔

یہ روز کا معمول ہوتا، کسی کیلئے تماشہ تو کسی کیلئے پریشانی۔ لیکن داد فریاد کی کوئی دکان نہیں تھی، گھوم گھام کر ایک ہی دکان تھی اور وہ تھی اسی اخبار کی انتظامیہ کی۔

 جسے عزت بچانی ہوتی وہ پہلی بار خبر شائع ہونے کے بعد اس دکان پر جاتا اور اپنی جیب رضاخوشی سے کٹوا آتا۔ اس روزنامے کی سرکولیشن دیکھتے ہی دیکھتے دس گنا بڑھ گئی، اور چھوٹے بڑے شہروں میں‘‘ جمعدارجاڑو خان‘‘ کے نام سے بلیک میلنگ کا نیا دھندا شروع ہوگیا ۔ اس روزنامے کے مطالعے کو وہی درجہ حاصل ہوا جو کسی زمانے میں وی سی آر پر دو بھارتی فلموں کے بعد آخری فلم کو حاصل تھا۔

ہر خوش لباس  شہری  کو‘‘جمعدار جاڑو خان’’  کے نام سے بلیک میل کیا جانا معمول بن گیا۔ لیکن ان دنوں یا اب بھی ایسا کوئی ادارہ موجود نہ تھا  جو اس روزنامے کو اس طرح کی حرکتوں سے باز رکھتا ۔اس کا ڈکلیئریشن معطل کرتا، اس کی انتظامیہ کو طلب کرکے بے حیائی کی تبلیغ کے بارے میں پوچھتا؟

 اسی طرح کراچی سے ایک اردو روزنامہ شائع ہوتا تھا،( ممکن ہے کہ اب بھی شائع ہوتا ہو) یہ روزنامہ اسٹوریز کے ساتھ ساتھ ایسی تصاویر چھاپتا کہ اخبار ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتا، کچھ شوقین اخبار کا چسکے کے ساتھ مطالعہ کرنے کیلئے  اور اس کو رومال کی طرح تہہ کرکے جیب میں چھپاکر رکھ دیتے اور خلوت میں مزے لیکر پڑھتے، لوگوں کی ٹھرک پوری کرنے کیلئے ملک کے دیگر شہروں سے بھی میگزین شائع ہوتے، جن میں کوئی نیم عریاں تصاویر چھاپ کر روزی روٹی کماتا تو کوئی کسی کو بلیک میل کرکے اپنا گذر سفر کرتا۔ ان دنوں نہ انٹر نیٹ عام آدمی کی دسترس میں تھا، اور نہ ہی سمارٹ فون نے اپنا رنگین چہرہ دکھایا تھا، اب ایسے اخبارات اور میگزین کی اہمیت بھی ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔

مشرف دور میں جب نجی ٹی وی چینلز نے پاکستان میں اپنا سکہ جمانا شروع کیا تو نئی روایات کا جنم لینا ایک فطری امر تھا، ان دنوں پاکستان میں جس پہلے اینکر نے عوامی سطح پر پذیرائی حاصل کی وہ تھا ڈاکٹر شاہد مسعود! ان کے عروج کی داستانیں پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا میں جگہ جگہ سننے کو ملتیں۔

وہ خود کو ’’فرشتہ صحافت‘‘ کہلوانے میں فخر محسوس کرتے، وہ مذھبی معاملات میں بھی شامل ہوگئے، قیامت کی نشانیاں لوگوں کو بتانے لگے، انہیں ڈرانے لگے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کو چھوتی دنیا کے خوبصورتیاں بیان کرنے کے بجائے انہوں نے پہاڑوں کو روئی کی طرح اڑتے دکھایا۔ ، وہ مرنے کے بعد کیا ہوگا کا نیا الیکٹرانک ورژن سامنےلائے۔

ان کا نام پاکستانی میڈیا میں کامیابی کی ضمانت بن گیا پاکستان میں عوامی قوتوں کو جتنا بے عزت ڈاکٹر شاہد مسعود نے کیا ایسا اعزاز حاصل کرنے کیلئے باقی اینکروں نے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن ڈاکٹر شاہد مسعود کی بات ہی الگ تھی۔ 2008 کے بعد وہ ہر شب اپنے پروگرام میں منتخب حکومت کو گرانے کی پیش گوئی کرتے اور اگلی رات پھر اسی طرح کی کوئی اور پیش گوئی سامنے لے آتے۔اس کے باوجود ایک حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور دوسری کرنے جارہی ہے ۔

 ڈاکٹر شاہد مسعود کو  ساری کرپشن پاکستان کے سیاستدانوں میں نظر آتی ، ملک کے باقی ادارے انہیں کی طرح پاک و صاف ہوتے۔ انہوں نے جتنے جھوٹ بولے وہ سارے انہیں ہضم ہوگئے، کسی نے کچھ بھی نہیں کہا۔ کیونکہ وہ پاکستان کی الیکٹرانک میڈیا کے جمعدار جاڑو خان تھے، سندھی روزنامے والا جمعدار جاڑو خان لوگوں کے بیڈ روم کے اندر ہونے والی سرگرمیوں کی منظر کشی کرتا تھا  لیکن یہ صاحب اپنی کہانی گھڑنے کے ماہر تھے، لیکن بااخلاق تھے ، انہوں نے جتنے بھی الزام لگائے، اس بارے میں  کبھی بھی کسی نے ان سے نہیں پوچھا کہ یہ آپ ثابت بھی کرکے بتائیں۔

 حال ہی میں سینیٹر سعید غنی کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو چیلنج کیا، سعید غنی پر ڈاکٹر شاہد مسعود نے الزام لگائے تھے ، سعید غنی کا موقف تھا کہ ان کا بھی موقف سنا جائے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کیونکہ ’’ فرشتہ صحافت‘‘ ٹھہرے ان کے کہے کو کون غلط کہے، اس لیے سعید غنی بے چارہ کچھ روز اسلام آباد اسٹاک ایکسچینج کے سامنے روز رات کو ساڑھے آٹھ بجے آکر ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف پریس کانفرنس کرتا اور چلاجاتا۔

ڈاکٹر شاہد مسعود کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ پذیرائی جس دوسرے اینکر کو ملی اس کا نام ڈاکٹر عامر لیاقت حسین ہے، یہ صاحب  بھی پاکستان میں سب سے زیادہ ریٹنگ والا اینکر ہونے کا دعویدار تھا۔ وہ ایک ہی وقت مولوی بھی اور مفتی بھی، گائیک بھی اور ایکٹر بھی، نیلام گھر میں لوگوں کو بے توقیر کرکے انعام دینے والا بھی اور سیاستدان بھی، جھوٹ بولنے پر کمال کی دسترس رکھنے والا بھی۔ عامر لیاقت سیاستدانوں، مولویوں مفتیوں اور اینکروں کا جمعدار جاڑو خان تھا، اس نے بول کے اسکرین پر کیا کیا نہیں کہا ؟ لیکن کسی نے بھی اسے نہیں کہا کہ بھائی کیا کہہ رہے ہو! کوئی داد نہ فریاد۔

قصور کے واقعے میں گرفتار ہونے والے سات سالہ معصوم زینب کے قاتل محمد عمران کے بارے میں ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشافات کے بعد پاکستان میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے، پہلی بار ڈاکٹر شاہد مسعود کی وجہ سے آئی اے رحمان جیسے بزرگ اور معتبر صحافیوں کو عدالت عظمیٰ کے روبرو پیش ہونا پڑا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشافات کی تحقیقات کیلئے ایف آئی اے کے سربراہ بشیر میمن کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنانے کا حکم دے دیا ہے۔

یہ کمیٹی ڈاکٹر شاہد مسعود سے ان کے انکشافات کے بارے میں دستاویزی ثبوت لینے کیلئے بیان ریکارڈ کرے گی۔ اب تک جو صورتحال سامنے ہے اس سے واضح ہوگیا ہے کہ شاہد مسعود کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں جس طرح کا قصور کیس کے ملزم محمد عمران کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ہم ابھی انہیں جھوٹا قرار نہیں دے سکتے، اگر یہ کام سپریم کورٹ کردے تو کم سے کم پاکستان کے عوام پر یہ احسان ہوگا۔ کیونکہ پاکستان میں ابھی تک کسی بھی سطح کے جمعدار جاڑو خان سے کسی ادارے نے جواب طلبی نہیں کی، اور اس کے نتیجے میں جمعدار جاڑو خان اتنا منہ زور ہوگیا کہ اس نے سب کو بے عزت کرنا اپنا حق سمجھا۔

پاکستان میں نہ صرف سات سالہ زینب کے قاتل محمد عمران کو ٹیسٹ کیس بناکر اس کا نفسیاتی جائزہ لیا جائے کہ آخر ایسے کیا عوامل تھے ،جس کے نتیجے میں اس طرح کا سفاکانہ عمل ہوا، اس قاتل کو قانون کے مطابق وہی سزا ملنی چاہیئے جس کا وہ مستحق ہے ، لیکن ساتھ ساتھ ڈاکٹر شاہد مسعود کو بھی پاکستانی صحافت کے دیگر فرشتے بھی ٹیسٹ کیس بنائیں، تاکہ پاکستان کے ترقی کرتے میڈیا کی اخلاقی اور پروفشینل رکاوٹیں دور ہوسکیں۔

2 Comments