خود کش حملے اور پاکستانی علما کے فتوے

کیا خودکش حملے صرف پاکستان میں ہی حرام ہیں؟ افغان صدر اشرف غنی نے بدھ کو کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی علما کے خودکش حملوں کے خلاف فتوے کو پاکستان تک محدود کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا مذہبی اسلامی اصول آفاقی اور تمام اسلامی ممالک کے لیے نہیں ہیں؟

پاکستان علماء کونسل، جس نے اس فتوے کو مرتب کرنے میں اہم کردار ادا کیا، کا موقف ہے کہ اشرف غنی کو ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا۔ کونسل کے چیئرمین مولانا زاہدالقاسمی نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہم اشرف غنی کے اس بیان کو مسترد کرتے ہیں۔ انہیں بیانات دینے کے بجائے اپنے ملک کو سنبھالنا چاہیے۔

ہماری حکومت نے ہم سے مشورہ مانگا تھا اور ہم نے پاکستان میں خود کش حملوں، فوج پر حملوں اور جہاد کے اعلان کرنے کو غیر اسلامی قراد دیا ہے۔ صرف ریاست کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ جہاد کا اعلان کرے۔ ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد بھی حرام ہے۔ تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ نہ یہاں سے افغانستان میں مداخلت ہونی چاہیے اور نہ افغانستان سے پاکستان میں مداخلت ہونی چاہیے۔‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ، ’’ہم نے فتوے میں یہ لکھا ہے کہ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانا یا خودکش حملے کرنا پاکستان میں بالخصوص حرام ہیں لیکن اس کے ساتھ ہم نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایسے حملے تمام اسلامی ممالک میں حرام ہیں۔ جس میں ظاہر ہے افغانستان بھی آجاتا ہے‘‘۔
کونسل کے ترجمان مولانا سید محمد قاسمی کا کہنا تھا کہ اگر اشرف غنی کو کوئی فتویٰ لینا ہے تو وہ اپنے ملک کے علماء سے لیں، ’’ہمارے ملک میں دہشت گرد خود کش حملوں کو اسلام کے نام پر جائز قرار دے رہے تھے اور پاکستان کو ایک غیر اسلامی ریاست کہتے تھے۔ لہذا ہم نے ان حملوں کو پاکستان میں غیر اسلامی قرار دیا۔ ہمارا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم پاکستان کے شہری ہیں اور پاکستان کے لیے ہی فتویٰ دے سکتے ہیں۔ اس لیے ہم اشرف غنی کے اس بیان کو مسترد کرتے ہیں اور اسے نا مناسب قرار دیتے ہیں۔‘‘

انہوں نے اس فتوے کا پس منظر بتائے ہوئے کہا، ’’یہ فتویٰ دراصل گزشتہ برس مئی کے مہینے میں تقریبا 39علماء کی طرف سے جاری کیا گیا تھا۔ بعد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ ء تحقیقات نے اس کو مختلف علماء کے پاس بھیجا ، جنہوں نے اس کا مطالعہ کر کے اس کی توثیق کی۔ اب یہ ایک کتابی شکل میں آیا ہے، جس میں پاکستان کے صدر ممنون حسین کے بھی تاثرات ہیں‘‘۔

ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ پاکستان میں طالبان کے مذہبی و سیاسی استاد سمجھے جانے والے مولانا سمیع الحق کے گروپ نے اس فتوے کی توثیق نہیں کی۔ سمیع الحق کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے ایک ذریعے نے اس حوالے سے کہا، ’’مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق نے اس فتوے پر دستخط نہیں کیے تھے کیونکہ اس فتوے میں ان کی طرف سے دی گئی تجاویز کو نہیں لیا گیا‘‘۔

ان اطلاعات پر ترجمان پاکستان علماء کونسل نے کہا، ’’میرے خیال سے یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ انہوں نے فتوے پر دستخط کیے تھے۔ تاہم جب یہ فتویٰ کتابی شکل میں آیا اور اس کی افتتاحی تقریب ہوئی اس میں مولانا حامد الحق نے شرکت نہیں کی۔‘‘۔

ڈوئچے ویلے نے جب افغانستان کے حوالے سے علماء سے پوچھا تو انہوں نے اس کا گول مول جواب دیا۔ تاہم جب ڈی ڈبلیو نے جامعہ بنوریہ العالمیہ سائٹ کراچی کے مہتمم مفتی نعیم، جو اس فتوے کے دستخط کنندہ بھی ہیں، سے یہ سوال کیا کہ آیا افغانستان میں خود کش حملے حرام ہیں یا نہیں، تو انہوں نے کہا، ’’اب آپ ایسے سوالات کر کے میرے لیے بھی مشکلات پیدا کریں گے اور اپنے لیے بھی۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ خود کش حملے مطلق حرام ہیں۔ وہ کہیں بھی ہوں۔ تو اس میں ساری باتیں آجاتی ہیں۔‘‘

پاکستان میں کئی حلقوں میں اس بات پر بھی تنقید کی جا رہی ہے کہ اس تقریب میں مولانا اورنگزیب فاروقی اور مولانا احمد لدھیانوی بھی شریک تھے، جن کی کالعدم جماعت سپاہ صحابہ کو پاکستان میں کئی حلقے فرقہ وارانہ دہشت کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ تاہم فتوے لکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس تقریب میں علامہ ساجد نقوی اور ڈاکٹرافتخار نقوی بھی موجود تھے۔

اس فتوے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا، ’’یہ علماء ہمارے ملک کے بارے میں ایسا نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہم قابض کافر امریکیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں‘‘۔

یاد رہے کہ ماضی میں بھی پاکستانی ریاست خود کش حملوں کے خلاف فتوے لیتی رہی ہے مگر اسے کوئی پذیرائی نہیں ملتی۔ خود کش حملے کے بعد پاکستانی علما میں اتنی جرات نہیں ہوتی کہ وہ اس حملے کی مذمت بھی کرے۔

4 Comments