مسلمان اور جمہوریت

ترکی میں نیاصدارتی نظام پیر کے روز سے نافذالعمل ہو جائے گا، جس کے تحت صدر رجب طیب ایردوآن کو وہ اختیار حاصل ہو جائیں گے، جو ترکی میں آج تک کسی منتخب رہنما کو حاصل نہیں ہوئے۔

نو جولائی کو صدر رجب طیب ایردوآن نئی مدت صدارت کے لیے پارلیمان میں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ترکی باقاعدہ طور پر پارلیمانی جمہوریت سے صدارتی نظامِ حکومت میں تبدیل ہو جائے گا۔

 ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت کے لیے تیرہ برس قبل مذاکرات کا باقاعدہ آغاز کیا تھا، مگر اس وقت ترکی جمہوریت، آزادیء اظہار اور سماجی ہم آہنگی کا ایک نمونہ تھا، مگر ترکی اب اسلامی شدت پسندی، قوم پرستی اور آمرانہ طرز حکومت کی جانب بڑھ رہا ہے۔

ترکی میں پارلیمانی کنٹرول کے خاتمے کے بعد ایردوآن کے پاس ایک طرح سے مطلق العنان اختیارات آ نے کو ہیں، یعنی اب وہ حکومتی اختیارات کا ماخذ بن جائیں گے۔ اب انہیں ججوں کی تعینات تک کے اختیارات بھی حاصل ہوں گے، جس کا مطلب ہے کہ عدلیہ ان کے زیر اثر کام کرے گی۔

استنبول کی سبانجی یونیورسٹی کے پالیسی سینٹر سے وابستہ سینیئر اسکالر ایرسین کالائجیوآؤلو تاہم اس پیش رفت کے نتائج سے متعلق غیر یقینی کی صورت حال کا شکار ہیں، ’’اب تک یہ نیا نظام اور اس کے اثرات پر ہمارے ساتھ کی گئی بات چیت عمومی نوعیت کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو عوام اور نہ ہی سیاسی ماہرین یہ سمجھ پائے ہیں کہ اس نئے نظام کی تفصیل کیا ہے اور اثرات کیا ہو سکتے ہیں‘‘۔

ایردوآن کئی مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ دنیا میں متعدد دیگر ممالک میں بھی صدارتی نظام نافذ ہے، تاہم ترکی امریکا یا فرانس کی صدارتی جمہوریت سے خاصا مختلف ہے۔ مثال کے طور پر امریکا میں صدر کے پاس پارلیمان کو تحلیل کرنے کا اختیار نہیں ہے، جب کہ ایردوآن کے پاس پارلیمان کو تحلیل کرنے کا اختیار ہے۔ اسی طرح فرانس میں آئینی عدالت کے ججوں کی تقرری کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے، تاہم ایردوآن اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے تقرر کے فیصلے کے اختیارات کے حامل ہوں گے۔

اس کے علاوہ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا اور فرانس جیسے صدارتی طرز حکومت کے حامل ممالک میں ایک مضبوط سول سوسائٹی بھی موجود ہے، جو آمرانہ فیصلوں کے خلاف بھرپور احتجاج کی صلاحیت رکھتی ہے، تاہم ترکی میں ایسا نہیں۔

یاد رہے کہ ترکی میں اپوزیشن جماعتوں سمیت بین الاقوامی مبصرین نے ان انتخابات کو متنازعہ قرار دیا ہے۔ طیب اردوان پر تنقید کرنے والے پریس پر پابندی ہے اور مخالفین بڑی تعداد میں جیلوں میں بند ہیں۔

خالد احمد نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ اسلام اور جمہوریت دو متضاد نظریے ہیں۔کسی اسلامی ملک میں جمہوریت کا اگرآتی بھی ہے تو وہ چند سالوں بعد آمریت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مسلمان کو جیسے ہی اقتدار ملتا ہے وہ خلیفہ بننے کی تیاری شروع کر دیتا ہے۔ اس کی ایک روشن مثال مصر کی ہے۔ جہاں کئی دہائیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے بعد جب اخوان المسلمون اقتدار میں آئی تو سیکولر ازم کی بجائے ایک اسلامی آئین کی تیاری شروع کردی۔ جس پر ڈکیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کرنے والی باقی جماعتیں جو کہ سیکولرازم کا مطالبہ کر رہی تھیں، نے دوبارہ احتجاج شروع کر دیا جس کا فائدہ فوج نے اٹھایااور مصری عوام ایک بار پھر جرنیلوں کے چنگل میں پھنس گئے۔

ترکی میں جب سے اسلام پسند طیب اردوان اقتدار میں آئے تو سیکولرازم کی جگہ اسلام نے لے لی۔مہذب دنیا نے تو یہ طے کر لیا ہے کہ ان کا حکمران دو دفعہ سے زائد اقتدار میں نہیں رہے گا جبکہ اسلامی دنیا میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔اسلام کے نام پر اب آئین بھی تبدیل ہو گیا ہے اور طیب اردوان نے خلیفہ والے اختیارات بھی حاصل کر لیے ہیں ۔اسلام کا مطلب یہی ہوتا ہے حکمران زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے پاس رکھے اور اسے جوابدہی کے عمل سے نہ گزرنا پڑے اور تاحیات اقتدار میں رہے۔ طیب اردوان نے ہی ایک دفعہ فرمایا تھا کہ جمہوریت ایک ایسی ٹرین ہے جب آ پ کا مطلوبہ اسٹیشن آجائے تو اتر جائیں۔

DW/News Desk

Comments are closed.