عمران خان کے ’’بولشویکی‘‘ لارے

طارق احمدمرزا

ابھی پاکستان کے نومنتخب اراکین پارلیمنٹ اور ممکنہ وزیراعظم عمران خان نے حلف بھی نہیں اٹھایالیکن ان کی بعد انتخابات تقریرکے حوالے سے ان پرتنقید اور شکوک وشبہات کا اظہار شروع ہوگیا ہے۔ان میں عمران خان کے سیاسی مخالفین تو شامل ہیں ہی،لیکن پاکستان کا عام آدمی بھی شامل ہے۔ان میں پاکستان کے رجسٹرڈ ووٹروں میں شامل وہ 45 فیصد ووٹر بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے گھر سے باہر نکلنے کی زحمت گواراکرنے کو ضروری نہیں سمجھا۔

اس کی ایک وجہ سیکیورٹی کے خدشات بھی ہو سکتے ہیں اور موسم کی شدت بھی اور یاپھرچھٹی کا سارا دن ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر گزارنے کا موڈبھی ایک وجہ ہو سکتی ہے لیکن گمان غالب یہی ہے کہ پاکستان کا عام آدمی گزشتہ ستر برسوں میں اس گمان پہ یقین رکھنے کا جائزطورپر عادی ہوچکا ہے کہ حکمرانوں کے چہرے بدلنے سے اس کی قسمت نے توبدلنانہیں کیونکہ اب تک تو وہ بدل نہیں پائی۔

چئرمین بھٹو کا’’ اسلامی سوشلزم ‘‘کے تحت عوام کوروٹی کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ نہ وہ خود،نہ ان کی بیٹی اور نہ ہی داماد ایفا کر سکے ۔اسی طرح اندرون پنجاب غریب لوگوں تک بھی پاکستان کے نام نہادپیرس کی ’’شریف‘‘ ہوائیں پہنچنے سے قاصر رہی ہیں۔آزادی اورخودمختاری کے ستر برسوں کے بعد بین الالقوامی ادارہ یو این ڈی پی کے تخمینہ کے مطابق نیشنل ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں پاکستان کا0.550 سکورکے ساتھ دنیابھر میں147 واں نمبر ہے۔جبکہ بنگلہ دیش ،کمبوڈیا، نیپال، میانمار(برما) اور بھوٹان جیسے غریب ممالک بھی پاکستان سے آگے ہیں۔بھارت بھی اس لحاظ سے پاکستان سے کہیں بہتر ہے۔فجی 91 ،ماریشس 64اور ملائشیا59 نمبر پہ ہے۔پہلے نمبرپہ 0.949 سکور کے ساتھ ناروے اوردوسرے نمبر پہ آسٹریلیا اور سوئتزرلینڈہیں۔
http://hdr.undp.org/sites/default/files/2016_human_development_report.pdf

پاکستانی صوبوں کا جہاں تک تعلق ہے تو گزشتہ برس اخبارٹریبیون میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ خیبرپختونخوا ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس میں پنجاب اور سندھ سے پیچھے رہا ہے۔خیبرپختونخوا کے سات اضلاع میں انسانی ترقیاتی شرع راجن پور ڈسٹرکٹ (جنوبی پنجاب)سے بھی کم رہی۔انڈیکس کے لحاظ سے علاقہ تورغر صوبہ خیبرپختونخوا کی پسماندہ ترین آبادی پر مشتمل ہے۔
https://tribune.com.pk/story/1293170

پانچ سال پہلے خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے بعد عمران خان نے اسی قسم کی باتیں کی تھیں جو انہوں نے 26جولائی کو کی ہیں۔ایلیٹ بورژوا کلاس سے دولت لے کرغریبوں میں بانٹنے کا عندیہ دیتے ہوئے ایک طر ف ریاست مدینہ اور خلافت حضرت عمرؓ تودوسری طرف چینی کمیونسٹ،سوشلسٹ انقلاب کی مثال دی۔

آج سے پانچ برس قبل انہوں نے پشاور میں صوبائی گورنرہاوس کویونیورسٹی یا خواتین کے لئے پارک ،کمیونٹی سنٹر میں بدل دینے،چیف منسٹر ہاؤس کو لائبریری بنانے کا وعدہ کیا تھا اور پرویز خٹک نے چیف منسٹرہاؤس کی بجائے حیا ت آباد پشاور میں واقع اپنے گھر میں ہی رہائش رکھنے کا اعلان کیا تھا۔یہ دونوں وعدے ایفا نہ ہوئے۔پرویز خٹک کو بطور وزیراعلیٰ ایک نہیں تین سرکاری رہائش گاہیں الاٹ ہوئیں، جوصوبہ کے مختلف شہروں میں نہیں بلکہ پشاور میں ایک ہی مقام پر ایک دوسرے کے قریب(صاحبزادہ عبدالقیوم روڈ) پر واقع ہیں۔
www.dawn.com/news/1091580

کے پی کے کے گورنرہاؤس اور چیف منسٹر ہاؤس توپانچ برسوں میں نہ لائبریری بنے نہ پارک،نہ یونیورسٹی اور نہ ہوٹل،دیکھنا یہ ہے کہ پرائم منسٹر ہاؤس اور پریذیڈنٹ ہاؤس کب لائبریری،یونیورسٹی،عجائب گھر یاہوٹل بنتے ہیں۔ 

اخراجات اور کرپشن پر قابوپانے کاجہاں تک تعلق ہے تو ایک چھوٹی سی مثال کے پی کے ہاؤس اسلام آبادمیں مہمانوں کو پیش کی جانے والی ’’چائے پانی‘‘ کے بل ہیں۔معروف صحافی سلیم صافی نے چند ہفتہ قبل دستاویزی شواہد کے ساتھ انکشاف کیا کہ صوبائی حکومت نے اسلام آباد میں مہمانداری پر بیس کروڑ روپے سے زائدرقم خرچ کی جس میں انہیں اور ان کی ٹیم کو پلائی جانے والی چائے کا لگ بھگ پونے دولاکھ روپے کا بل بھی شامل ہے۔یہ معاملہ نیب کے نوٹس میں لایاجا چکا ہے۔

اگرچائے پانی پہ خرچ کئے جانے والے مبینہ بیس کروڑ روپے صوبہ کے پسماندہ ترین علاقہ تورغر کی ترقی پہ خرچ کئے گئے ہوتے تو آج ایک عام آدمی کی حیثیت مجھی عمران خان کے ان پرولتاروی اور بولشویکی وعدوں پہ ضرور اعتبا رآجاتا جنہیں پورا کرنے کے طریقے معلوم کرنے کے لئے وہ چینی حکومت سے رابطہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

Comments are closed.