پی ٹی آئی اتحادیوں کی تلاش میں

عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے مخلوط حکومت کے قیام کے لیے دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔ دوسری جانب مخالف جماعتوں نے دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے مظاہروں کی تیاری شروع کر دی ہے۔

پاکستان الیکشن کمیشن نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے تقریبا سبھی نشستوں کے غیر سرکاری نتائج جاری کر دیے ہیں۔ نتائج کے مطابق قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کو 116 نشستیں حاصل ہوئی ہیں جب کہ سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون 64 اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین 43 نشتیں حاصل کر پائی۔

مکمل نتائج سامنے آنے کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلی کے درجنوں حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواستیں بھی جمع کرائے جانے کا سلسلہ جاری ہے اور کئی حلقوں میں یہ عمل شروع بھی ہو چکا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن کر تو سامنے آئی ہے لیکن سادہ اکثریت حاصل نہیں کر پائی۔ حکومت بنانے کے لیے کم از کم 137 نشستوں کی ضرورت ہے۔ پارٹی نے ممکنہ اتحادی جماعتوں کی تلاش اور ان سے مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف کو اتحادی جماعتوں کی تلاش میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان فواد احمد چوہدری نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم نے چھوٹی جماعتوں اور آزاد امیدواروں سے رابطے کیے ہیں۔ ان جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات جلد ہی اسلام آباد میں ہو گی۔‘‘ پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما نعیم الحق کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی جماعت کو توقع ہے کہ یوم آزادی پاکستان، یعنی چودہ اگست سے قبل ان کی جماعت حکومت تشکیل دینے میں کامیاب رہے گی۔

نعیم الحق کے مطابق، ’’ہمیں امید ہے کہ عمران خان چودہ اگست سے پہلے ہی ملکی وزارت عظمی کے عہدے کا حلف اٹھا لیں گے‘‘۔

پاکستان مسلم لیگ نون سمیت کئی جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ یورپی یونین کے مبصرین سمیت کئی غیر ملکی معائنہ کاروں کی جانب سے پاکستان انتخابات کے عمل پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔

دوسری جانب گزشتہ روز درجن سے زائد سیاسی جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی۔ ان جماعتوں نے مشترکہ طور پر انتخابات کے نتائج قبول نہ کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم یہ جماعتیں قومی اسمبلی میں حلف نہ اٹھانے کے معاملے پر منقسم دکھائی دیں۔ کچھ جماعتوں نے دوبارہ انتخابات کرائے جانے کا مطالبہ بھی کیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے اے پی سی میں شمولیت اختیار نہیں کی تاہم انہوں نے بھی نتائج قبول کرنے سے انکار کرنے کا اعلان کیا۔

تجزیہ کار طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ ان کی رائے میں اے پی سی میں شامل جماعتیں ملک کے کچھ علاقوں میں تو مظاہرے کر پائیں گی لیکن ملکی سطح پر زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہو پائیں گی۔

اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی نے حکومت بنانے کے لیے پیپلز پارٹی سے رابطہ کیا ہے۔کیا نواز شریف بھی متحدہ اپوزیشن کے لیے پیپلزپارٹی سے رابطہ کرے گا یا سولو فلائٹ کو ہی ترجیح دے گا۔

سوشل میڈیا پر اس ایک سیاسی کارکن نے اس پر دلچسپ تبصرہ کرتےہوئے کہا ہے کہ عمران 20 سال کا انتظار، 5 سال کی محنت، 126 دن کا دھرنا، فوج، امپائر ، عدلیہ ، طالبان، میڈیا کی بھر پور امداد کے باوجود بھی حکومت بنانے کے لئے بھٹو اور مجیب کی طرح واضح اکثریت حاصل نہ کر سکا اور اب ان سیاسی جماعتوں سے مدد مانگ رہا ہے جنہیں یہ چور اور کرپٹ کہتا رہا ہے

DW/News Desk

One Comment