ووٹ کی قیمت کون اداکرتا ہے

بیرسٹر حمید باشانی

انتخابات کا شور تمام ہوا۔ نتائج زیر بحث ہیں۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ نتائج حیران کن ہیں۔ کچھ لوگوں کو کچھ ایسے ہی نتائج کی توقع تھی۔ کہیں جشن برپا ہے تو کہیں صف ماتم بچھی ہے۔ سیاست کا کرخت اور بے رحم چہرہ ایسے موقع پر ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اب کچھ لوگ نتائج تسلیم کریں گے، کچھ اسے دھاندلی قرار دیکر تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے۔ دھاندلی کی بات تو انتخابات سے پہلے ہی ہونی شروع ہو گئی تھی۔ کچھ حلقوں نے اپنے تحفظات ا ظہار کیا تھا۔ کچھ سوالات اٹھائے تھے۔

قبل از انتخاب دھندلی پر ان سطور میں لکھا جا چکا ہے۔ دوران انتخاب دھاندلی کے باب میں حتمی طور پر کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے کچھ بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوگی۔ سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کا رد عمل تو سامنے آگیا، مگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے باقاعدہ اعداد و شمار یا پھر ایک ایسے وائٹ پیپر کی ضرورت ہوگی، جس میں دھاندلی کی جزئیات بیان کی گئی ہوں۔ انتخابات ہارنے والی جماعت کی طرف سے عموما شکوے شکایات تو ہوتے ہی رہتے ہیں، اس لیے معاملے کی سنجیدگی کے پیش نظر سماج کی کچھ دوسری اعتماد اور بھروسے والی قوتوں کا موقف بھی دیکھنا ہو گا۔

ان قوتوں میں سول سوسائٹی ہے، جو کافی باخبر اور متحرک ہے۔ انسانی حقوق کی انجمنیں ہیں۔ ذرائع ابلاغ ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی انجمنیں ہیں، جن کا ریکارڈ اور ماضی بے داغ ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ ہیں۔ ان سب کی طرف سے تفصیلات اور موقف سامنے آنے کے بعد ہی انتخابات میں دھاندلی کے موضوع پر اظہار خیال مناسب ہو گا۔ 

ہمارے ہاں یہ جو دھاندلی کا شور ہے، یہ شروع میں دنیا کی ہر جمہوریت کا مسئلہ رہا ہے۔ دھاندلی کی پہلی اور ابتدائی شکل ووٹ خریدنا تھا۔ کچھ سیاست دان جمہوریت کی شروعات سے ہی ووٹ خریدتے آئے ہیں۔ مگر اس سے پہلے وہ یہ کام اپنے پیسے سے کرتے تھے۔ اب انہوں نے یہ کام آپ کے بچوں، اور آپ کے بچوں کے بچوں کے پیسے سے شروع کر دیا ہے۔ سیاست دان آپ کے بچوں یا آپ کے بچوں کے بچوں کے وسائل ووٹ خریدنے کے لیے کیسے استعمال کرتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ووٹ کی خرید و فروخت کے تاریخی پس منظر پر ایک نظر صورت حال کو واضح کرنے میں مدد دے دے گی۔

جب سے ہماری اس دنیا میں جمہوریت بطور نظام متعارف ہوئی ہے، اس کو سماج کے مختلف طبقات اور قوتوں کی سازشوں اور مخالفت کا سامنا رہا ہے۔ فوجی آمروں یا مسلح سیاسی گروہوں کی طرف سے اقتدار پر قبضہ اور جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا عمل تو کھلم کھلا دنیا کے کئی ممالک میں دہرایا گیا۔ اسی طرح آمریت پسندوں کی طرف سے جمہوریت کے نام پر فراڈ بھی بہت ہوئے۔ کئی جگہوں پر جعلی ریفرنڈم اور جعلی ووٹوں سے جعلی جمہوریتیں بھی قائم کی گئیں۔ ان واقعات کو جمہوریت کے خلاف شب خون اور کھلے حملے کہا جا سکتا ہے۔ مگر آہستہ آہستہ دنیا کہ بیشتر ممالک میں ان واقعات پر قابو پالیا گیا۔

مگر صدیوں کے سفر کے بعد آج بھی کئی ممالک میں جمہوریت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ان میں ایسے ممالک شامل ہیں ، جہاں انتخابات تو تسلسل سے ہوتے ہیں ، مگر ان انتخابات کے شفاف ہونے پر سوالیہ نشان لگے ہوتے ہیں۔ دنیا میں الیکشن چرانے اور الیکشن فراڈ کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں ایک عام طریقہ ایسے پیشگی اقدامات جو جو مرضی کے نتائج حاصل کرنے میں مددگار ہوں۔

مثال کے طور پر بڑی تعداد میں ووٹروں کو کسی خاص حلقے میں عارضی طور پر سکونت اختیار کرانا۔ یہ طریقہ ان ممالک میں استعمال کیا جاتا ہے، جہاں شدید غربت ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد پبلک ہوسنگ میں رہتی ہے۔ ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو ایک حلقے سے دوسرے میں منتقل کیا جا سکتاہے۔ اس فراڈ کو روکنے کے لیے بہت سارے ممالک میں کسی حلقے میں ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے ووٹر کا اس حلقے میں انتخابات سے کم از کم چھ ماہ پہلے سے رہائش پزیر ہونا ضروری قرار دیا گیا۔

کئی مالک میں تاریخی طور پر ایسے قوانین اور ضوابط بنائے گئے ، جو خاص اقلیتی لوگوں کو حق رائے دہی سے محروم کرتے تھے۔ یہ اقدامات تاریخی طور پر اتنے عام تھے کہ کینیڈا جیسی آج کی شفاف جمہوریت میں بھی سن1917کا وار ٹائم الیکشن ایکٹ بنایا گیا ہے، جس کے تحت ایک نسلی اور لسانی گروہ ایک عرصے تک ووٹ کے حق سے محروم رہا۔ اگرچہ بعد میں کینیڈاکی جمہوریت نے اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کی۔ اور کسی حد تک تلافی بھی کی۔ مگر کچھ نا انصافیاں ایسی ہوتی ہیں، جو نا انصافی کا شکار ہونے والوں کے سینے کا زخم بن جاتی ہیں، جن سے ہمیشہ خون رستا ہی رہتا ہے۔ ایسی نا انصافیوں کا کوئی ازالہ کوئی تلافی نہیں ہوتی۔ 

انتخابات چرانے اور مرضی کے نتائج لانے کے لیے ووٹرز کو ڈرانا دھمکانا، دھونس دھاندلی، تشدد کی دھمکی یا تشدد کا ستعمال تو ایسے عام طریقے ہیں ، جو آج بھی دنیا کی کئی جمہورتوں میں مروج ہیں۔ مگر ان سب پر بھاری اور عام طریقہ ووٹ خریدنا ہے۔ دنیا کی بیشتر جمہوریتوں کو یہ مئسلہ درپیش رہا اور کسی نہ کسی سطح پر آج بھی موجود ہے۔

ووٹ کی خرید و فروخت کے کئی مروجہ طریقے ہیں۔ ووٹ کے عوض کوئی مالی منعفت، نقدی، سامان یا خدمات کی پیشکش یا مستقبل میں روزگار یا کسی فائدے کا وعدہ ووٹ کی خریدو فروخت سمجھا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بعض ریاستوں میں ووٹ کی خریدو فروخت کا دھندہ سرعام ہوتا تھا۔ کچھ جگہوں پر ووٹ خریدنے کی با قاعدہ دوکانیں کھولی جاتی تھیں۔ سیاسی جماعتیں ایسے لوگ بھرتی کرتی تھیں ، جو عوام میں جاکر لوگوں سے ووٹ خریدنے کے لیے سودے بازی کرتے تھے۔

اٹھارویں صدی کے انگلستان میں بھی میں ووٹ کو بڑے پیمانے پر جنس تجارت سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت انگلستان کی اشرافیہ ووٹ کے لیے تجوریاں کھول دیتی تھی۔ اس ضمن میں نارتھ ہمٹن شائر کی کہانی بہت مشہور ہے، جس میں تین ایرل ایک انتخابی مہم میں شریک ہوئے، جس میں ہر ایک کے ایک لاکھ پونڈ سے زائد رقم ووٹ خریدنے پر خرچ کی۔ یہ اٹھارویں صدی کے دوسرے نصف کا قصہ ہے۔ آج کے حساب سے یہ رقم کروڑوں میں بنتی ہے۔

اپنے پیسے دیکر ووٹ خریدنا ایک عام سی بات ہے۔ مگر جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ اب سیاست دان آپ کی آئندہ نسلوں کے پیسے سے ووٹ خریدتے ہیں۔ جس طرح کسی کو ووٹ کے عوض رقم کی پیشکش کرنا ووٹ کی خریدو فروخت ہے، اسی طرح کسی کو ووٹ کے عوض مستقبل میں پیسہ، مراعات، نوکری، وظیفہ، گزارہ الاونس، یا کسی اور طریقے سے کوئی فائدہ پہچانے کا وعدہ بھی اگر باریکی سے دیکھا جائے تو ووٹ کی خرید وفروخت ہی ہے۔

جمہوریت سے جڑے قوانین کے اندر اس باب میں ایک بڑا تضاد ہے۔ کسی ایک فرد کو پیسے یا کوئی لالچ دیکر ووٹ لینا تو غلط سمجھا جاتا ہے، مگر ایک پورے طبقے، گروہ، تنظیم یا علاقے سے ایسا کرنا غیر قانونی یا غیر اخلاقی نہیں سمجھا جاتا۔ مثال کے طور پر آپ ایک پورے گاوں سے سڑک، بجلی یا پانی کا وعدہ کر کہ ووٹ لیتے ہیں، تو اس میں عام طور پر کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی۔ حالانکہ غور کیا جائے تو اس کے اندر چھپی قباحت صاف نظر آتی ہے۔ مستقبل میں اس گاوں میں جو سڑک بنے گی، پانی دیاجائے گا، یا بجلی آئے گی، یہ سب آپ کے بچوں کے پیسے سے ہو گا ۔ ووٹ کی قیمت آپ کا بچہ دیتا ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ دنیا بھر میں نئی ابھرتی ہوئی جمہوریت کو ہر جگہ دھونس، دھاندلی اور انتخابی فراڈ کا سامنا رہا ہے۔ جہاں جمہوریت ایک تسلسل سے چلتی رہی، وہاں اس نے خود کار درستگی کے عمل کے تحت ان قباحتوں پر قابو پا لیا۔ آج دنیا کے کئی ترقی یافتہ سوشل ڈیکاکریسی میں ووٹ کا فراڈ ایک قصہ پارینہ ہے۔ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے کئی ممالک میں جمہوریت کو ابھی تک کئی بنیادی مسائل کا سامنا ہے، جس کا حل الیکشن فراڈ کے طریقوں سے پردہ اٹھاتے رہنا، ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہچانا اور جمہوریت کا چلتے رہنا ہے۔

Comments are closed.