سوویت اڑان، امریکی پریشانی اور پاکستان

بیرسٹر حمید باشانی

 گزشتہ کسی کالم میں امریکہ اور سوویت یونین کے درمیاں زور پکڑتی ہوئی سرد جنگ اور معاشی و عسکری میدان میں خوفناک مقابلے کا ذکر کیا تھا۔ اس باب میں1953 کا سال ماسکو اور کمیونزم کے لیے حیرت انگیز کامیابیوں کا سال تھا۔ اس سال نہ صرف کمیونزم دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا تھا، بلکہ دنیا میں سرمایہ داری دنیا میں عدم استحکام اور بحران بھی گہرے سے گہرا تر ہوتا جا رہا تھا۔ اس سال امریکہ مخالف مظاہروں میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ یہ مظاہرے لاطینی امریکہ سے لیکر یورپ، مشرق وسطی اور ایشیا تک پھیل گئے۔ اس سال ماسکو نے اپنا پہلا تھرمو نیوکلئیر ہتھیار ٹیسٹ کیا۔

دوسری طرف نہر سویز کے تنازعہ پر برطانیہ اور مصر جنگ کے دھانے پر پہنچ چکے تھے۔ ایران میں کمیونسٹ تحریک تیزی سے زور پکڑ رہی تھی، اور سوشلسٹ نواز تودہ پارٹی ایک طاقت ور تنظیم کے طور پر ابھر چکی تھی۔ کوریا کی جنگ، چینی انقلاب، مصدق کا قتل اور دوسرے ایسے واقعات کی وجہ سے صورت حال تیزی سے کمیونزم کے حق میں ہموار ہو رہی تھی۔ لیکن ان سب میں نمایاں ترین بات یہ تھی کہ سوویت یونین کی معیشت حیرت انگیز تیز رفتاری سے ترقی کر رہی تھی۔اس سال سوویت ترقی کی شرح چھ فیصد سالانہ کو چھو رہی تھی، جو امریکہ کے مقابلے میں دوگنی تھی۔

سوویت سائنسدان کامیابی پر کامیابی حاصل کر رہے تھے۔ وہ بلندی پر پرواز کرنے والا دنیا کا پہلا ریڈار اور ہائیڈروجن بم تک بنا چکے تھے۔ سائنسی ترقی میں آگے بڑھتے ہوئے وہ خلا تک پہنچ چکے تھے، مدار میں پہلا جانور پہنچا چکے تھے، اور چاند کے ارد گرد چکر لگا نے کا اعلان کر چکے تھے۔ عسکری محاذ پر وہ امریکہ کے مقابلے کی فوج بنا چکے تھے۔ 1953 میں سٹالن کی موت کے باوجود سوویت یونین کی خارجہ پالیسی کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی تھی، سوائے اس کے کہ سوشلسٹ انقلاب کو دوسرے ممالک تک پھیلانے کی لینن کی پالیسی کے احیا پر دوبارہ غور ہو رہا تھا۔

اس پالیسی کے تحت سوویت یونین کئی ممالک کو مالی، فوجی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مدد فراہم کر رہا تھا۔ خصوصی طور پر مصر، شام، بھارت ، افغانستان، انڈونیشیا اور یوگوسلویہ کو بھاری امداد فراہم کی جا رہی تھی۔ مختصر عرصے میں صرف افغانستان کو اس وقت کے سو ملین ڈالر سے زائد مدد فراہم کی گئی تھی، جو ان وقتوں میں ایک خطیر رقم  تصور کی جاتی تھی۔ بھارت کو مالی مدد، سٹیل اور جدید ٹیکنالوجی کے علاوہ کئی عرب اور افریکی ممالک کو بھی معاشی اور فوجی امداد دی جا رہی تھی۔ چین کو ایک اعشاریہ پانچ بلین ڈالر سے زائد مد د دی گئی تھی۔

اس وقت سوویت سخاوت کا یہ عالم تھا ک برما جیسے ملک نے اس سے استفادہ کرتے ہوئے امریکہ کو کہا تھا کہ وہ برما سے اپنی امدادی مشن کو بند کر دیں، چونکہ ان کو مزید امریکی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔اس طرح پچاس کی دہائی کے نصف تک سوویت یونین دنیا میں کئی ممالک کو ٹیکنیکل اور معاشی امداد دے رہا تھا۔ دوسری طرف امریکہ نے اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے روایتی پالیسی میں تبدیلی کا فیصلہ کیا۔ صدر آئزن ہاور نے ہیری ٹرومین کی پالیسی سے ایک قدم آگے بڑھ کر کمیونزم کی روک تھام سے بھی آگے ان ممالک کو آزادکرانے کی پالیسی کا اعلان کیا، جو سوویت یونین کے زیر اثر آ چکے تھے۔

پالیسی میں اس جارحانہ انداز کے باوجود آئزن ہاور نے بظاہر مصالحت آمیز لہجہ اپناتے ہوئے کمیونزم کے ساتھ پر امن بقائے باہمی کے تحت زندہ رہنے کی بات کی۔ اس نے کورین جنگ کے خاتمے اور امریکی فوج میں کمی کا اعلان کیا۔ اس نے امریکی سپاہیوں کو جنگ میں نہ جھونکنے اور دفاعی بجٹ میں کٹوتی کا اعلان کیا۔ نئی پالیسی میں اس بات پر زور دیا گیا کہ امریکہ کی نیو کلیر صلاحیت سوویت یونین سے بہتر ہے، اور سٹالن کی موت کے بعد سوویت یونین کی جارحانہ پالیسی میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ جنوبی ایشیا کے تناظر میں آئزن ہاور نے پاکستان امریکہ فوجی اتحاد کو آگے بڑھانے کی طرف تیزی سے پیش قدمی کی۔

دریں اثنا پاکستان کی اندرونی صورت حال میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔ اپریل1953 میں ایک سافٹ انقلاب کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الد ین کو بر خواست کر دیا۔ خواجہ نظام الدین کی جگہ محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ بوگرا اس سے پہلے امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے تھے، اور بعض امریکی حلقوں میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ حکومت میں اس تبدیلی کا عام طور پر یہ مطلب لیا گیا کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ دائیں بازو کی مذہبی قوتوں سے دور ہٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اور ریاست کے تمام اہم معاملات زیادہ تر مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ 

مشرق وسطی کے ساتھ اس وقت جو بھی جغرافیائی اور ثقافتی رشتے ظایر کیے جا رہے تھے، وہ مغربی پاکستان تک محدود تھے۔ مشرقی پاکستان کی لیڈر شپ اس سے دور تھی۔ فوجی اور سول نوکر شاہی اس وقت دو مضبوط گروہ تھے۔ دنوں مغرب کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔ وہ پاکستان کو امریکی اتحادی بنانے اور ایک سیکولر ریاست بانے کے خواہشمند تھے۔ حکومت کی اس تبدیلی کو امریکیوں نے کھلے عام تعریف کی۔ امریکی سفارت خانہ نے اس تبدیلی کو ترقی پسند قوتوں کی رجعت پسند قوتوں پر فتح قرار دیا۔ اس کے فورا بعد مئی میں سیکریٹری آف سٹیٹ ڈولس پاکستان پہنچا۔ اس کے دورے میں پاکستان کے علاوہ سعودی عرب، مصر اسرائیل ، ترکی اور لیبیا جیسے ممالک شامل تھے۔

ڈولس اپنے ساتھ جو پر کشش پیکجز لے کر آیا تھا، ان میں پاکستان کے لیے فوجی امداد اور بھارت کے لیے مالی اور تکنیکی امداد میں بھاری اضافے کا پیکیج بھی شامل تھا۔ ڈولس نے اعلان کیا کہ پاکستان کو مشرق وسطی کا حصہ تصور کیا جا رہا ہے، اور اس بنیاد پر پاکستان اجتماعی سیکورٹی کا حق دار قرار پاتا ہے۔ پاکستان کا بیک وقت مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا سے تعلق ہے۔ مشرق وسطی میں تو ہماری دلچسپی ہے ہی، لیکن ہم جنوبی ایشیا میں بھی سیاسی سماجی استحکام کے خواہ ہیں، اس کے لیے پاکستان کی اہمیت واضح ہے۔ اس نے پاکستان پر امریکی امداد کے ساتھ جڑے حقائق کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے لیے امریکی کانگرس سے فوجی امداد کے پیکج کی منظوری کے لیے ضروری ہو گا کہ پاکستان یہ دکھائے کہ وہ بھارت کے ساتھ امن قائم کرنے کا خواہشمند ہے۔جواب میں پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے یہ بات دہرائی کہ ان کو تشویش کی اصل وجہ بھارت نہیں، بلکہ کمیونزم ہے، اور وہ بھارت کے ساتھ امن قائم کرنے کے خلاف نہیں ہیں۔

مئی 1954 میں بالآخر پاکستان اور امریکہ نے ملٹری پیکٹ پر دستخط کر دیے، جس میں پاکستان کو فوجی اور مالی مدد دینے کا عہد کیا گیا۔ اس سے اگلے سال پاکستان جنوب مشرقی ایشیائی ٹریٹی آرگنائزیشن یعنی سیٹومیں شامل ہو گیا۔ اس تنظیم میں امریکہ ، برطانیہ، فرانس تھائی لینڈ، فلپائن ، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ شامل تھے۔ اس سے اگلے سال پاکستان نے بغداد پیکٹ میں شامل اختیار کی، جو بعد ازاں سنٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن سنٹوبن گیا۔ اس میں برطانیہ ، ترکی ، ایران اور عراق شامل تھے۔

اس طرح پاکستان نے صرف تین سال کے عرصے میں مغربی طاقتوں کے ساتھ یکے بعد دیگرے تین مائدوں پر دستخط کر لیے۔ اس طرح اس وقت کی دنیا میں سویت یونین اور سوشلزم کے خلاف مغربی اثر میں ایسا کوئی فوجی یا مالی فورم نہیں رہا، جس میں پاکستان شامل نہ ہو۔ حالات نے آگے چل کر کیا رخ اختیار کیا، اس کا احوال آئندہ کسی کالم میں بیان کیا جائے گا۔

Comments are closed.