اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

 ڈاکٹرسہیل گیلانی

سائنسی تدریس ، تحقیق اور سائنسی درس گاہوں کا قیام عمل میں لانے کے لیے ایک ایسے معاشرے کے قیام کا ہونا ضروری ہے جہاں لوگ کھل کر ہر طرح کے سوال کر سکیں ، جہاں لوگ یقین کی دنیا سے نکل کر گمان کو اپنائیں ، ایک ایسا معاشرہ جس میں اختلاف اظہار خیال کو نہ صرف عزت کی نظر سے دیکھا جائے بلکہ پسند کیا جائےگا ، سراہا جائے اور اس پر فخر کیا جائے ۔

یورپ میں سائنسی ترقی کا آغاز تو کم و بیش پانچ سو سال سے بھی زائد عرصہ پہلے شروع ہو چکا مگر پچھلے دو سو سالوں سے اس کی تیزی کی رفتار کچھ اتنی آگے بڑھی کے جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پچھلے کئی برسوں میں سائنس کے فلسفے کی ترقی بھی اسی رفتار سے ہوئی جتنی کہ اس کی ایجادات اور مختلف قسم کی دریافت کے معاملے میں۔

کچھ باتیں جو مغرب نے اپنے سائنس کے سفر میں سائنسی ترقی کے بارے میں سیکھیں ان میں سے چند میں آپ لوگوں کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔

سب سے اہم اور پہلی بات کہ آزادی اظہار رائے سائنسی ترقی میں سب سے کلیدی کردار کی حامل ہے ، انسانی دماغ سوالات کی فیکٹری کا کام کرسکتا ہے اگر معاشرے سوالات پر سیخ پا ہونے کی بجائے سوال کرنے والوں کو تحفظ دیں پائیں۔

دوسری اہم بات جو آپس میں آزادی اظہار رائے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں وہ ہے ایک سیکیولر معاشرے کا قیام جس کے بغیر نہ آزادی اظہار رائے ممکن ہے اور نہ سائنس ۔یورپ نے مذہب کی سائنس دشمنی دو سو سال سے بھی زائد عرصہ پہلے سمجھ لی تھی۔ کئی سائنس کے موجودہ فلسفیوں کے خیال میں سیکولر معاشرے کی حیثیت سائنس کے لیے ایسی ہے جیسے کاشت کاری کے لیے زر خیز زمین اور مذہب اس زمین کو نہ صرف بنجر کر دیتا ہے بلکہ زہرآلود بھی کرتا ہے۔

تیسری اہم بات یہ کہ سائنس کی ترقی دوسرے تمام شعبہ جات کے ساتھ ہی ممکن ہے جس میں سر فہرست معیشت ،سیاست ، فلسفہ اور فنون لطیفہ ہیں۔

تاریخ کے مطالہ سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں اسلامی دنیا کی سائنسی ترقی ان لوگوں کے مرہون ممکن ہو سکی کہ جنہیں معاشرے میں مذہب کے ٹھیکے داروں سے ہمیشہ خطرہ رہا اور ان تمام اعلی ذہن رکھنے والوں کے عبرت ناک انجام کے پیچھے کٹر مولویانہ سوچ رہی ۔جگہ جگہ اچھے ذہن رکھنے والوں کی جلا وطنی مار پیٹ ، قتل اور کتابیں اور کتب خانے جلاتے وہ لوگ نظر آئیں گے جن کے پیروکار آج بھی سر تن سے جدا اور کافر کافر کے فلک شگاف نعرے لگاتے پائے جاتے ہیں۔ مختصر عرصہ ایسے بادشاہوں کا رہا جنھوں نے مذہبی سوچ رکھنے والوں کو لگام دی اور علم کی آبیاری کرتے ہوئے سوچنے والے لوگوں کو تحفظ دیا جس کی وجہ سے کچھ لکھنے پڑھنے کا کام بھی عمل میں آیا۔

آج دینا میں آرٹیفشل انٹیلیجنس پر بہت زوردار  بحث جاری ہے۔ دنیا انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بائیو ٹیکنالوجی اور کے سنگم سے ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں قانون سازی کر رہی ہے۔ ان کانفرنسوں میں شمالی امریکہ آسڑیلیا ، نیوزیلینڈ اور مغربی یورپ کے علاوہ چین جاپان اسرائیل اور بھارت بھی شامل ہیں ۔ایک بھی اسلامی ملک انکا حصہ نہیں۔ اسلامی دنیا میں ایک بھی درس گاہ نہیں جو دنیا کی سو بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہو سکے ۔ کچھ عرب ممالک نے پیسوں کےبل بوتے پر کچھ باہر سے ماہرین کو بلا بلا کر ایسا کرنے کی کوشش ضرور کی مگر مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر انہیں منہ کی کھانی پڑی ۔

امام ابو حمید الغزالی کی سوچ پر کولونیل ازم کی چادر اور اس پر پے درپے آمریت کے سیاہ بادلوں نے عالم اسلام کو مذہب کی ایسی لپیٹ میں لیا کہ جہالت کے بادل اتارنا نہ ممکن بن گیا ہے۔

اسلامی دنیا میں مذہب کا دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کا عالم کچھ یوں ہے کہ کسی بھی قسم کے بحران کا حل علما کرام مزید مذہبیت میں تجویز کرتے ہیں اور بیچارے مسلمان اسی عطار کے لونڈے کی دکان پر بھیڑ مچاتے نظر آتے ہیں کے جن کے سبب پچھلے ایک ہزار برس سے بیمار پڑے ہیں۔

Comments are closed.