رضاربانی کے نام

عمار کاظمی

raza-rabbani-online-670
سلیم بخاری صاحب کے نقطہ نظر سے کبھی اتفاق نہیں رہا، وہ وکلا تحریک کے حامی اور ہم پہلے دن سے مخالف تھے، پارلیمان اور اراکین اسمبلی کے لیے ان کی زبان بھی درست نہیں تھی، یقیناً ان کی عمر اور تجربے کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ پبلک فورم پر بیٹھ کر اپنے جذبات اور غصہ پر قابو نہ رکھ پائیں گے۔

مگر ان کے خلاف سینٹ کی کاروائی اور رضا ربانی کی رولنگ بھی بہت باعث شرم تھی۔ بخاری صاحب اپنی زبان کے پھسلنے کے ساتھ ہی اپنے الفاظ پر معذرت خواہ ہوئے اور انھوں نے اسی وقت معافی مانگ لی تھی۔

اور یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا اس سے پہلے بھی بہت سے نامور تجزیہ نگاروں، سیاستدانوں، جرنیلوں کی زبانیں لڑکھڑا چکی ہیں۔ مگر کسی فرد واحد کے خلاف سینیٹ یا چئیرمین سینٹ کی طرف سے ایسے کسی ردعمل کی نظیر نہیں ملتی۔ جب بخاری صاحب بات کرنے کے فوری بعد اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے معذرت کر چکے تھے تو پھر بات کو اتنا آگے بڑھانے کی کیا ضرورت تھی؟

دوسری طرف محترم چئیرمین سینیٹ رضا ربانی صاحب کو جمہوری حلقوں میں کچھ ضرورت سے زیادہ ہی احترام حاصل ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ آزادی اظہار رائے کے کسی داعی کو رضا ربانی، شاہی سید یا سینٹ کے اس حد سے تجاوز کرتے رویے پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ یعنی لوگوں اور اداروں کو ان کی حقیقت سے زیادہ سر چڑھانے اور ان کے بت بنا کر عوام سے زبردستی پوجا کروانے کا فن بھی کوئی ہم سے سیکھے۔

دستور میں درجنوں کوتاہیاں ہیں، انسانی حقوق کی پامالی کی وجہ بننے والی شقیں موجود ہیں، کیا آج تک اس برائے نام دانشور اور قانون دان نے انھیں ختم کرنے کے لیے کچھ کیا؟ آج تک انھوں نے جرنیلوں کے خلاف نام لے کر کتنی تحریک استحقاق پیش اور منظور کیں؟ایوب سے لے کر ضیا، مشرف تک کتنے جرنیلوں کے خلاف اس نوعیت کی کاروائی تجویز کی گئی؟

کل شہباز شریف منتخب صدر کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹنے کی بات کرتا تھا، کہاں اس گھٹیا زبان پر سینٹ میں تحریک استحقاق پیش ہوئی؟ مادر ملت کو غدار کہا گیا کون سی بحث اس ضمن میں پارلیمنٹ کا حصہ بنی؟ خواجہ آصف جب اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے لیے کوئی شرم ہونی چاہیے کوئی حیا ہونی چاہیےجیسے الفاظ استعمال کرتا ہے کہ جن کے استعفے بھی قبول نہیں کیے جاتے تو اس کے خلاف کون سی کاروائی عمل میں لائی گئی؟

عمران خان سٹیج پر چڑھ کر دھرنے کے دوران روز پارلیمنٹ کے لیے توہین آمیز زبان استعمال کرتا رہا، کہاں اس کے خلاف کاروائی کا کہا گیا؟ اس کی توہین آمیز گفتگو کے باوجود میڈیا اسے چوبیس میں سے بیس گھنٹے کوریج دیتا رہا، کہاں پیمرا کو ایسی ہدایات جاری کی گئیں؟ مناسب یہی تھا کہ سینٹ زیادہ سے زیادہ سلیم بخاری کی زبان/الفاظ کے خلاف ایک قراداد مذمت منظور کر لیتی۔

کسی صحافی کے خلاف اس سے کچھ بھی زیادہ کرنے کا دستوری اختیار اور جواز تو شاید سینیٹ کو حاصل ہوگا مگر اس کے بعد شاید اس کی فطری تکریم کسی جمہوریت پسند صحافی کے لیے ممکن نہ رہے گی۔ غیر فطری اور جبری قوانین چاہے کوئی آمر مسلط کرے یا کوئی جمہوری حکومت متعارف کروائے، وہ ہمیشہ معاشرے میں خرابی کا باعث بنتے ہیں۔

یہی سیاستدان اور ان کے ادارے جب آمریت کے ظلم کا شکار ہوتے ہیں تو ہم لوگ ہی ان کے حق کی خاطر اپنی زبانیں کھول کر اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالتے ہیں۔ وہ کوئی صحافی ہی ہوتا ہے جو کتے پر ضیا لکھنے کے واقعہ کو اپنی تحریر کا حصہ بناتا ہے، وہ بھی کوئی صحافی ہی ہوتا ہے جو جنرل ضیا کی تصویر کے اخباری تراشے پر تھوکنے اور جوتے برسانے کے کے عمل کو اپنے کالم کا حصہ بنا کر تاریخ میں آمریت سے نفرت درج کرواتا ہے۔

اسی تاریخ کو پڑھ پڑھ کر آج کے نوجوان سیاسی کارکنان خیبر سے کراچی تک اسٹیبلشمنٹ کے خلاف متحد دکھائی دیتے ہیں۔ صاحب آج آپ ہم پر چڑھ دوڑنے کی خواہش رکھتے ہیں؟ جس یک طرفہ احتساب اور متنخب انصاف کا سامنا پیپلز پارٹی ہمیشہ کرتی رہی اور ہم اس نا انصافی پر کھل کر لکھتے رہے آج اسی جماعت کا جمہوری سورما منتخب انصاف کا مظاہرہ کر کے ہماری زبانیں بند کرنا چاہتا ہے۔

الیکٹرانک میڈیا پر حالات حاضرہ کے شوز کے غیر صحافی اینکرز جو ہر وقت سیاستدانوں کا بندر تماشہ دیکھتے ہیں ان کے خلاف تو کبھی آپ کو کچھ کرنے کہنے کی ہمت نہ ہوئی۔ قومی اداروں کی بات کرتے ہیں مگر جب قومی ادارے اور اس کے سربراہ کے خلاف بغیر کسی ثبوت کے میر تھن ٹرانسمیشن جاری ہوتی ہے تو نہ سینٹ کوئی قرارداد مذمت پیش کرتی ہے نہ پیمرا کو کاروائی کرنے کے احکامات جاری ہوتے ہیں۔ اُلٹا آپ کے پاس ان کے لیے صدارتی ایوارڈ ہوتے ہیں۔

اس بے حسی پر کیا کہیں کہ جب پیپلز پارٹی منتخب انصاف کا شکار ہو کر عدالتوں کو کینگرو کورٹس کہتی ہے، جب عدالت محترمہ کے لیے کوئی اور فیصلہ دیتی ہے اور میاں نواز شریف کی اسمبلی کی بحالی پر دوسرا تو ہم ہی آواز اٹھاتے۔ مگر آج خود منتخب انصاف برتنے پر پیپلز پارٹی کے لوگوں کی یہ منطق بھی سامنے آ رہی ہے کہ اگر باقیوں نے توہین کی ہے تو کیا سلیم بخاری کو بھی اجازت ہے۔

دلیل درست ہے لیکن کیا یہ دلیل پیپلز پارٹی کو اپنے لیے بھی قبول ہے؟ یعنی یہ وہی روایتی سوال ہے کہ جو اسٹیبلشمنٹ کے حمایتی ہمیشہ سے پیپلز پارٹی سے کرتے آئے کہ اگر پنجاب میں کرپشن پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی تو کیا سندھیوں کو بھی کرپشن کی اجازت ہے؟ ہم ہمیشہ سے جانتے تھے کہ بھٹو بے نظیر کوئی ولی پیغمبر نہ تھے، ہمیں ان کی خوبیوں خامیوں سب کا اندازہ تھا، مگر جانتے ہو ہم ہمیشہ ان کے ساتھ کیوں رہے؟

کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ ان کے ساتھ نا انصافی سے کام لیا گیا، ان کی حکومتیں منتخب انصاف کا شکار بنیں۔ تو ٹھیک ہے اگر یہی دستور سیاست و انصاف ہے تو پھر تم زیادتی کرتے رہو۔ ہم نے تو نہ کل تمھارے لیے آمروں کا یک طرفہ انصاف قبول کیا اور نہ تمھارے منتخب انصاف ساتھ دیں گے۔ کل آمروں سے تمھارے حق کے لیے لڑے آج اپنے لیے تم سے لڑ لیں گے۔

Comments are closed.