ہندوستانی فلم انڈسٹری کا محسن ، اردشیر ایرانی

ذوالفقار علی زلفی

Ardeshir_Irani_The_father_of_Indian_Talkie._2013_05_11_10_16_48
سنہ2013 کو ہندی سینما نے اپنے سو سال مکمل کیے ، سال کے بارہ مہینے مختلف پروگرامز کیے گئےآرٹیکلز لکھے گئے ، باتیں ، انٹرویوز ، یادیں شائع و نشر کی گئیں….اس دوران ایک مباحثہ بھی سامنے آیا کہ ہندوستانی سینما کا حقیقی بانی کون ہے ، دادا صاحب پھالکے یا اردشیر ایرانی؟….اس میں کوئی شک نہیں متحدہ ہندوستان کی پہلی فیچر فلم بنانے کا سہرا دادا صاحب کے سر جاتا ہے ، وہ دادا صاحب ہی تھے جنہوں نے ہندوستان کو فلم انڈسٹری سے روشناس کروایا۔

سنہ 1913 ہندوستانی فلم انڈسٹری کا جنم سال ہے اور جنم دینے والے دادا صاحب مگر اردشیر ایرانی نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے انہوں نے آگے چل فلم انڈسٹری کو انڈسٹری کا درجہ دلانے میں بنیادی کردار ادا کیا….. ایرانی نے محض فلمیں نہیں بنائیں انہوں نے فلموں کو گویائی دی،موضوعات دیے ،تکنیک دی، باصلاحیت افراد دیے ، ادارے قائم کیے ، پلے بیک گیتوں کا آئیڈیا دیا ، سب سے بڑھ کر سینما کا تصور پیش کیا۔

آج ہندی فلمیں اربوں کا بزنس کرتی ہیں ،گوکہ دادا صاحب پھالکے کی فلمیں بھی اس زمانے میں اتنا بزنس کرتی تھیں کہ کلیکشن لانے کیلئے بیل گاڑی اور حفاظت کیلئے پولیس اسکواڈ کا استعمال کیا جاتا تھا مگر ایرانی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے خالصتاً فلمی کاروبار کی داغ بیل ڈالی ۔ وہ پہلے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ہیں جن کی فلموں کے ٹکٹ بلیک میں فروخت ہوئے یعنی ٹکٹ بلیک کرنے کی روایت بھی انہی کی فلموں سے شروع ہوئی۔

پانچ دسمبر 1886 , پونا , مہاراشٹرا ، ایک پارسی گھرانے میں آلات موسیقی کے تاجر مروان ایرانی کے ہاں اردشیر ایرانی کا جنم ہوا….ابتدائی تعلیم پونا میں حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے ممبئی کے جے.جے آرٹس کالج بھیج دیے گئے ۔ وہاں سے اردو اور انگریزی کی ڈگریاں لینے کے بعد آبائی شہر میں چھوٹی موٹی نوکریاں کرنے لگےکہا جاتا ہے کچھ عرصے پولیس نیکر پہن کر ڈنڈا بردار بھی رہے مگر طبعیت میں چین نہ تھا۔ تھک ہار کر والد کے کاروبار میں شامل ہوگئے….آرٹسٹ تھے سو یہاں بھی جی نہ لگا والد سے اجازت لے کر ممبئی سدھارے….ممبئی تھیٹروں کا مرکز تھا ،معروف اردو ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کا طوطی بول رہا تھا….وہ بھی اس قافلے کے ساتھ ہولیے ,،اداکاری کا پیشہ اپنا لیا۔

اس زمانے میں خاموش مغربی فلمیں بھی ہندوستان کا راستہ دیکھ چکی تھیں ۔ یہ فلمیں خیمہ لگا کر دکھائی جاتیں….کاروباری خاندان سے تعلق ہونے کے باعث وہ سمجھ گئے کہ یہ مستقبل کا بڑا کاروبار بننے جارہا ہے اسی دوران ان کی ملاقات ایک اور تاجر ذہن عبدالعلی یوسف علی سے ہوگئی ۔ دونوں نے مل کر اس کاروبار میں کودنے کا منصوبہ بنایا……توقع کے عین مطابق نہ صرف کاروبار نے ترقی کی بلکہ ان کا رابطہ امریکی فلموں کے ڈسٹری بیوٹر یونیورسل پکچر سے بھی ہوگیا ۔ یونیورسل پکچر نے ایرانی کو ہندوستان میں اپنا نمائندہ مقرر کردیا۔

سنہ1913 ہندوستان کی فلمی تاریخ کا نقطہ آغاز ثابت ہوا ۔ دادا صاحب پھالکے نے ہندوستان کی پہلی مکمل فیچر فلم راجہ ہریش چندربناکر انقلاب بپاکردیاوہ دادا صاحب سے شدید متاثر ہوئے۔

ان پر بھی فلمیں بنانے کا جنون سوار ہوگیا مگر وہ دادا صاحب کی طرح جذباتی نہ تھے بلکہ ان کے برعکس ٹھنڈے اور دھیمے مزاج کے کاروباری شخص تھے اس لیے سب سے پہلے انہوں نے فلموں کی تقسیم کاری کے نظام کا جائزہ لیا…..ہندوستان میں فلموں کی تقسیم کاری انتہائی غیر منظم تھی ان کی دور رس نگاہیں بھانپ گئیں کہ اس کو ٹھیک کرنا منفعت بخش ہوسکتا ہے۔ انہوں نے امریکی یونیورس ڈسٹری بیوٹر کے نام سے اپنی ایک ذاتی ایجنسی بنائی….یہ فلموں کی تقسیم کا پہلا ہندوستانی ادارہ ہے….اس ادارے کے ذریعے انہوں نے غیرملکی سمیت ہندوستانی فلموں کی تقسیم کا کام بھی شروع کردیا….دادا صاحب بھی اپنی فلمیں انہی کو دینے لگے۔

ہندوستانی سینما کا بانی:دادا صاحب پھالکے

اب ان کی نظریں فلم دکھانے کے نظام پر ٹک گئیں….اس زمانے میں فلمیں یا تو خیمہ لگا کر دکھائی جاتیں یا کوئی کلب یا تھیٹر کرائے پر لے کر دکھانے کا انتظام کیا جاتا ۔ یہ دونوں طریقے مسائل خیز تھے کیونکہ اس سے نہ صرف دیگر تیکنیکی مسائل پیدا ہوتے تھے بلکہ پروجیکٹر اور پردے کا تال میل بھی بگڑ جاتا تھا….ان کے دماغ میں سینما کا آئیڈیا ابھرا….ایک بار پھر عبدالعلی کو پارٹنر شپ پر آمادہ کیا اور  ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ سینما کو شامل کردیا ، دونوں نے ملکر 1914کو ممبئی میں میجسٹکسینما بنایا….آج یہ سینما صرف تاریخ میں محفوظ ہے ،ممبئی شہر کے پھیلاؤ نے اس سینما کو اس طرح نگلا کہ آج اس کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا…..تاریخ دشمنی کوئی ہم سے سیکھے۔

ڈسٹری بیوشن اور سینما جیسے جدید اقدام سے فارغ ہونے کے بعد وہ فلمسازی کی طرف متوجہ ہوئے……عبدالعلی گوکہ ان کے ساتھ تھے مگر اس کام کیلئے انہوں نے ایک گجراتی تاجر بھوگی لال دوبے کو چنا….دوبے کے ساتھ پارٹنر شپ کرکے انہوں نے 1920 کو اسٹار فلم کمپنی بنائی اس کمپنی کے بینر تلے ان کی پہلی فلم ویرا بھی مینیمنظر عام پر آئی جس کو انہوں نے خود پروڈیوس کیا مگر فلم اپنے ساتھ کمپنی کو بھی لے ڈوبی۔

اس ناکامی سے وہ دلبرداشتہ ہرگز نہ ہوئے ، اسی سال قسمت آزمانے مدراس چلے گئےتھوڑی سی تگ و دد کے بعد مدراسی تاجر رگھو پتی وین کیا نامی تاجر سے پارٹنر شپ کرکے ایک نئی فلم کمپنی اسٹار آف دا ایسٹ کی بنیاد رکھی….اس کمپنی کے ساتھ رسم دنیا اور دستور کے مطابق متعدد دھارمک فلمیں بنائیں مگر مدراس بھی ان کو راس نہ آیا یکے بعد دیگرے تمام فلموں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

چٹان کی طرح مضبوط اردشیر ایرانی کے ارادے پہلی دفعہ متزلزل ہوئے , مایوس ہوکر ممبئی لوٹ آئے تاہم نچلا بیٹھنا ان کے لیے ممکن نہ تھا جلد ہی حواس مجتمع کرکے اپنی ذاتی فلم کمپنی ایمپریل فلمزکی بنیاد رکھی اور فلم بنانے کیلئے ایک تاریخی موضوع چنا اور موہن بھونانی کی ہدایت میں شیواجی کی زندگی پر مبنی فلم میواڑ سنگھکو پروڈیوس کیا مگر نتیجہ وہی ڈاک کے تین پات ،یہ فلم بھی بری طرح پٹ گئی۔

پے در پے ناکامیوں نے انہیں رک کر سوچنے پر مجبور کردیا….انہوں نے تمام تر ناکامیوں کا بے لاگ تجزیہ کرکے ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ ایک بار پھر میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا….معروف اردو ادیب آغا حشر کاشمیری کو دعوت دی اور اور ان کے ڈرامے خواب ہستیکو فلمانے کی خواہش ظاہر کی جسے آغا نے قبول کرلیا ۔ اسکرپٹ لکھنے کی ذمہ داری بھی آغا حشر کو دی گئی….یہ مسلم معاشرے پر مبنی کہانی تھی ، ایرانی نے اس فلم پر جم کر محنت کی….فلم کامیاب رہی اور کمپنی ڈوبنے سے بچ گئی ، اہم ترین بات ان کے حوصلے آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگے….اب نورجہاںبنانے کا منصوبہ بنایا۔

مغلیہ سلطنت کے دربار ،بادشاہ جہانگیر اور ملکہ نورجہاں کو پردے پر پیش کرنا خوشگوار تجربہ ثابت ہوا….عوام نے اس فلم کو خوب سراہا….1927 کو انہوں نے معروف اردو ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج کو شہزادہ سلیم اور انارکلی کی رومانوی داستان پر مبنی اسکرپٹ لکھنے کی ذمہ داری سونپی ۔ اس فلم سے متعلق دو چیزیں کافی اہم ہیں ۔ ایک فلم کی ہیروئن روبی میئر جو انارکلی کا کردار ادا کررہی تھیں بعد ازاں سلوچناکے نام سے مشہور ہوکر ہندی سینما کی معروف اداکارہ بنیں اور دوسری یہ کہ فلم کی شوٹنگ مختلف تاریخی مقامات پر محض سات دن کے اندر اندر کی گئی….فلم انارکلینے بھی باکس آفس پر جھنڈے گاڑے۔

سنہ1929 کو امریکہ اور یورپ خاموش فلموں سے نکل کر بولتی فلموں کی دنیا میں داخل ہورہے تھے….اس کے اثرات ہندوستان بھی پہنچنے لگے مگر ہندوستان تاحال اس ٹیکنالوجی اور اس تکنیک سے آشنا افراد سے محروم تھا….ایرانی نے ہندوستانی فلموں کی بے زبانی کو شدت سے محسوس کیا۔انہوں نے فلموں کو گویائی دینے کی ٹھانی اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے وہ لندن چلے گئےایک مہینے تک وہاں ریکارڈنگ سسٹم کی تربیت حاصل کرنے کے بعد دوبارہ ممبئی آگئے اور بولتی فلم عالم آرابنانے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں جت گئے۔

فلم عالم آراسے بانی پاکستان محمد علی جناح کا بھی ایک دلچسپ تعلق ہے….دراصل ہوا یوں کہ اردشیر ایرانی اوئل میں اپنے ایک نوجوان گجراتی اسسٹنٹ محبوب خان کو فلم کا ہیرو بنانا چاہ رہے تھے مگر بعد ازاں ان کے کاروباری دماغ نے یہ فیصلہ بدل دیا , وہ ایک نئے چہرے کو پہلی بولتی فلم میں مرکزی کردار دینے سے ہچکچانے لگے اس لیے انہوں نے خاموش فلموں کے معروف اداکار ماسٹر وٹھلکو ہیرو ،اداکارہ زبیدہکو ہیروئن اور تھیٹر کے مشہور اداکار پرتھوی راج کپورکو کریکٹر رول دیا….محبوب خان اس فیصلے سے اس قدر ناخوش ہوئے کہ انہوں نے اداکاری کرنے کے تمام خواب جلا کر ہدایت کاری کا راستہ چنا اور اس راستے نے انہیں ہندی فلموں کا لیجنڈ ہدایت کار بنا دیا ,۔آج محبوب خان مدر انڈیا، عورتاور آنجیسی کلاسیک فلموں کی ہدایت کاری کی بدولت ہندی سینما کے امر ہدایت کاروں میں شمار ہوتے ہیں….خیر , یہ جملہ معترضہ تھا ،بات ہورہی تھی محمد علی جناح کی۔

ماسٹر وٹھل شرادا فلم کمپنی سے وابستہ تھے اور شرادا کمپنی کے مطابق وہ کسی اور کمپنی کی فلم میں کام نہیں کرسکتے تھے اس لیے جب ماسٹر وٹھل نے عالم آرا کی آفر قبول کی تو شرادا کمپنی نے ان پر قرارداد شکنی کا مقدمہ دائر کردیاماسٹر وٹھل نے اس زمانے کے ممتاز قانون دان محمد علی جناح کو اپنا وکیل نامزد کیا , جناح نے نہ صرف ان کا بھرپور دفاع کیا بلکہ وہ یہ کیس بھی جیت گئے۔ یوں ماسٹر وٹھل اور عالم آرا کے درمیان حائل قانونی رکاوٹ دور ہوگئی۔

image3365

عالم آرا بھی مسلم معاشرے پر مبنی فلم ہے….اسٹوڈیو ریلوے ٹریک کے قریب تھا اسلیے فلم کی شوٹنگ رات کو ٹرینوں کی آمدورفت منقطع ہونے کے بعد کی جاتی تھی ۔ تاریکی دور کرنے کیلئے بڑی لائٹوں کا استعمال کرکے دن جیسا سماں پیدا کیا جاتا ۔ یہ تکنیک بھی ہندوستان میں ایرانی نے متعارف کرائی……پہلی دفعہ پلے بیک سنگنگ کا آئیڈیا بھی اسی فلم میں استعمال کیا گیا….فلم کے ساتوں گانے اداکاروں کی آوازوں میں ہیں جن میں سے ایک گانا جو فلم میں فقیر کا رول ادا کرنے والے وزیر محمد خان نے گایا اس زمانے کا مقبول ترین گانا بن گیا….گانے کے بول تھے

دے خدا کے نام پہ پیارے , طاقت ہو گر دینے کی
کچھ چاہیے اگر تو مانگ لے مجھ سے , ہمت ہے گر لینے کی

عالم آرا 14 مارچ 1931 کو ریلیز کی گئی….فلم اپنی ریلیز کے ساتھ ہی بلاک بسٹر ثابت ہوئی….دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹکٹ بلیک ہونے کی بری روایت بھی اسی فلم سے قائم ہوئی ، چار آنے کا ٹکٹ پانچ روپے میں بلیک ہوا….ویسے اس روایت کا ایک ریکارڈ ہدایت کار سبھاش گئی کو بھی حاصل ہے ,۔ان کی فلم کھل نائیک کا ٹکٹ جو سو روپیہ تھا ایک ہزار روپے کی بلند ترین سطح پر بلیک ہوا۔

عالم آرا کی کامیابی کے بعد انہوں نے مشہور رومانوی داستان شیریں فرہادکو پردہ اسکرین پر پیش کیا اور یہاں بھی خوب داد سمیٹی….اس فلم میں 42 گانے ہیں جو تاحال ایک ریکارڈ ہے۔

اردشیر ایرانی نابغہ روزگار تھے….انہوں نے اسی پر بس نہ کیا بلکہ 1933 کو وہ ایک نئے آئیڈیا کے ساتھ سامنے آئے….انہوں نے ہندوستان کی پہلی انگریزی فلم Tample Bells بنائی ، اس فلم کا ہندی نام سلوچنارکھا گیا ۔فلم کی ہیروئن روبی میئر کا نام اس فلم کی بدولت ہمیشہ کیلئے سلوچنا پڑگیا….اسی سال انہوں نے ایک اور عہد ساز منصوبہ پیش کیا ,۔دختر لُر“….یہ ایک فارسی فلم ہے جسے اکتوبر 1933 کو ایرانی سینما گھروں میں پیش کیا گیا۔ اسے نہ صرف ایران کی پہلی بولتی فلم کا اعزاز حاصل ہے بلکہ پہلی دفعہ کسی فارسی فلم میں خاتون اسٹار کو پیش کیا گیا ۔ ایران میں کسی خاتون کا فلم میں درکنار ریڈیو میں کام کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا….اداکارہ روح انگیز سمی نژادکا تعلق چونکہ صوبہ کرمان سے تھا اور فلم صوبہ لرستان کے پس منظر میں بنائی گئی تھی اس لیے کہا جاتا ہے کہ اداکارہ کے لہجے کو لرستانی بنانے پر بھی ایرانی نے سخت محنت کی…..یہ فلم ایران میں سپر ہٹ تو ہونی تھی مگر ہندوستان میں بھی اس کو خاصا رسپانس ملا۔

ان کے فلمی اور سماجی خدمات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسی سال انگریز حکومت نے انہیں خان بہادرکا خطاب عطا کیا……1937 کو انہوں نے ایک اور قدم بڑھایا , انہوں نے Cinecolour film Process تیکنیک پر ہندوستان کی پہلی کلر لیب قائم کی اور اسی کلر لیب کی بدولت کسان عورت کی زندگی پر مبنی کلر فلم کسان کنیابنائی….کسان کنیا کا اسکرپٹ اردو زبان کے مایہ ناز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے لکھا….اس فلم نے بھی مقبولیت کا سہرا باندھا….1945 ان کی فلمی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا , اس سال انہوں نے پجاریفلم بناکر فلم لائن سے ریٹائر منٹ کا اعلان کردیا۔

تقسیم ہند کے پانچ سال بعد 1952 کو بھارتی حکومت نے ان کی خدمات کے صلے میں ان کو فادر آف انڈین ٹاکیکا خطاب دیا۔

یہ عظیم اور جینئس فنکار 82 سال کی عمر میں 14 اکتوبر 1969 کو طویل علالت کے باعث ممبئی میں انتقال کرگئے۔

اردشیر ایرانی کی خدمات کا دائرہ کافی وسیع ہے اور اس لحاظ سے نہ بھارتی حکومت نے انہیں احترام سے نوازا اور نہ ہی پاکستان و ایران نے….بھارتی حکومت نے محض ایک خطاب دے کر دامن چھڑا لیا جبکہ دیگر دو ممالک نے ان کو اس قابل بھی نہ سمجھا….جو یقیناً قابل افسوس ہے۔

Comments are closed.