دو جنوری کو جب سعودی عرب نے 46 دیگر افراد کے ساتھ ایک شیعہ مذہبی عالم شیخ نمر الباقر النمر کو دہشت گردی کے الزام میں قتل کر دیا تو شیعہ مذہبی عالم کے قتل پر دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ ایران سے شدید ردِعمل سامنے آیا۔ تہران میں سعودی سفارتخانے کو آگ لگا دی گئی ۔ اس کے ردِ عمل میں سعودی عرب نے ریاض سے ایرانی سفارت خانہ بند کر دیا۔ اور ایرانی سفیروں کو اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔
دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات ختم کر دیئے گئے۔ کویت ، بحرین نے بھی ایران سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر دیئے جبکہ متحدہ عرب امارات نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات محدود کر دیئے ۔ اُسی روز ہی جب یہ سزا دی گئی سعودی عرب نے یمن میں جنگ بندی کا اعلان بھی کیا۔ دونوں ممالک کے وزرا خارجہ نے پاکستان کے دورے کا بھی اعلان کیا ہوا ہے۔ جس میں آنے والے دنوں میں یہ دونوں ملک اپنے اپنے انداز میں پاکستان سے مطالبے اور تقاضےکریں گے۔
پاکستان میں سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ عادل الجبیر کے دورے کے بعد جو متوقع بیان سامنے آنے کے امکان ہیں ۔ وہ یہی ہیں کہ پاکستان دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی کمی چاہتا ہے کیونکہ موجودہ کشیدگی خطے میں موجود شدت پسند عناصر کو فائدہ دے گی۔ تاہم ملکی خود مختاری اور ریاستی آزادی کے احترام جیسے بیانئے بھی ایک دفعہ پھر دوہرائے جائیں گے۔ یہ بیان جس انداز سے بھی سامنے آئے لیکن اس کی حیثیت محض ایک بیان کے اور کچھ نہیں ہوگی کیونکہ پاکستان اپنے اندرونی حالات ، ایران کے ساتھ اپنی ہمسائیگی ، ملک میں شیعہ کمیونٹی کی موجودگی اور سعودی عرب کے ساتھ مذہبی ، سیاسی اور معاشی مفادات کی وجہ سے اس وقت کسی بھی مہم جوئی کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یہی صورتحال ایرانی وزیرِ خارجہ کے متوقع دورے پر بھی قائم رہے گی۔
ترکی نے بھی خطے کی صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک کو تحمل سے کام لینے کی تلقین کی ہے۔ بڑھتی ہوئی اس کشیدگی کے پورے خطے، بشمول پاکستان اور افغانستان پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔
موجودہ صورتحال دراصل کوئی اچانک ابھرنے والی صورتحال ہے اور نہ ہی کوئی تن تنہاواقعہ ۔ موجودہ واقعہ دراصل سعودی عرب اور ایران کی مشرقِ وسطی میں گزشتہ کئی عرصے سے پھیلائی گئی پراکسی وارز کا لازمی نتیجہ ہے۔ حقیقتِ احوال یہی ہے کہ دونوں ملک نہ صرف خطے میں بلکہ پاکستان اور افغانستان میں بھی اپنے اپنے فرقوں کو پھیلا کر اپنے وسیع تر مفادات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس تمام تر کھیل میں دونوں ملکوں نے دیگر تمام ممالک کی ریاستی خود مختاری کو بھی روندا اور تمام تر اخلاقیات کو انتہائی بری طرح سے کچلا اور مذہب کی آڑ میں خطے اور پاکستان اور افغانستان میں اپنی اپنی پتھارے داری قائم کرنے کی بھرپور کوشش جاری رکھی۔ اس طرح یہ لڑائی مذہب کی کم، طاقت اور سامراجی عزائم کی تکمیل کی زیادہ رہی ہے۔
ایران کا سعودی عرب پر الزام ہے کہ سعودی عرب نے یمن میں حوثیوں پر محض شیعہ ہونے کی غرض سے حملہ کیا اور ظلم و استبداد کی تمام حدود پار کرتے ہوئے اس کے شہری علاقوں پر بھی ماہِ رمضان میں حملہ کر دیا۔ سعودی عرب نے بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کی بھی بھر پور کوشش کی۔ سعودی عرب نے ہی خطہ میں القاعدہ کو شام کے خلاف کھڑا کیا۔ القاعدہ کے بعد منظرِ عام پر آنے والی داعش کے خاتمے کے لئے سعودی عرب اور عراق دونوں کی طرف سے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کوئی بامعنی کارروائی سامنے نہ آئی ۔
لہٰذا سعودی عرب پورے خطے میں سلفی اور وہابی مائنڈ سیٹ پیدا کرکے اپنے سامراجی عزائم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ قریب قریب ایسے ہی الزامات سعودی عرب بھی ایران پر لگاتا ہے ۔ سعودی عرب ایران پر یہ الزام لگاتا ہے کہ اس نے بحرین کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی اور پھر یمن میں حوثیوں اور شام میں بشار الاسد کی حمایتی قوتوں کی پشت پناہی کرکے خطے میں عدم توازن پیدا کر رہا ہے۔
سعودی عرب ایران پر یہ الزام بھی لگاتا ہے کہ شیعہ کمیونٹی بالعموم تمام دنیا میں جہاں کہیں بھی موجود ہے اور بالخصوص مشرقِ وسطیٰ میں ایران ان کو اپنی کمیونٹی تصور کرتے ہوئے ریاستی خود مختاری اور ملکی آزادی کا خیال رکھے بغیر وہاں دراندازی کرتا ہے جس کی وجہ سے خطے کا امن خراب ہورہا ہے ۔ طاقت کا توازن بگڑ رہا ہے اور دہشت گردی پھیل رہی ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے ایک دوسرے پر لگائے گئے الزامات درست ہیں جبکہ حقیقت کے برعکس دونوں ملک خود کو معصوم عن الخطا ثابت کرتے ہیں اور اپنی اپنی عوام کا استحصال بھی کرتے ہیں۔ دونوں اسلامی ممالک سامراجی عزائم ہی کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔
لیکن سرمایہ داری نظام میں چھوٹے چھوٹے سامراجی ایجنٹ بڑے سامراج کے عزائم کے ساتھ نہ صرف جڑے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ بڑے سامراج کی باقاعدہ دلالی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ دونوں ملک خطے میں اپنا اثر و روسوخ چاہتے تھے لیکن بڑی بڑی سامراجی طاقتوں کی آڑ میں یہ اپنے مطلوبہ ایجنڈے کو اپنے من پسند طریقے سے آگے بڑھانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ جب سے دنیا یک قطبی بنی، امریکہ نے اپنے وسیع تر مفادات کے لئے خطے کے بیشتر ممالک کو استعمال کیا اور استعمال ہونے والوں میں سب ممالک نے اپنا اپنا حصہ بقدرِ جثہ ڈالا۔ اُس وقت سے سعودی عرب امریکی سامراج کا دم چھلا بنا ہوا ہے۔
سعودی عرب خطے کا تیل پیدا کرنے والا بڑا ملک ہونے کے حوالے سے امریکہ کے ہاتھوں کھیلتا رہا ہے ۔ جب چھوٹا تھانیدار بڑے تھانیدار کے ماتحت ہو، تو ہدایات بھی بڑے تھانیدار کی چلتی ہیں اور براہِ راست اور با الواسطہ مفادات بھی اُسے کے پورے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس حوالے سے سعودی عرب خواہش رکھنے کے باوجود بھی اپنے مطلوبہ مفادات حاصل نہ کر سکا۔ البتہ حالات کو خراب کرنے میں اس نے اپنا پورا پورا حصہ ڈالا۔
پاکستان اور افغانستان میں پھیلائے گئے فسادات میں سعودی عرب کا بھی حصہ ہے۔ اسی طرح ایران نے اسی کی دہائی میں عراق پر حملہ کرکے اپنے اسی طرح کے عزائم حاصل کرنے کی کوشش کی۔ 1979 امریکہ نے ایران پر معاشی پابندیاں لگا دیں اور 1984 میں ایران کے عراق پر حملہ کی وجہ سے یہ معاشی پابندیاں مزید بڑھیں تو ایران کے ملکی معاشی حالات خراب ہونا شروع ہو گئے۔ اور اُس کے سامراجی عزائم کے طریقے بھی تبدیل ہوگئے۔ تاہم یہاں بھی ایران کی سعودی عرب کے ساتھ ایک پرخاش یہ ہے کہ سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ مل کر امریکہ کے ذریعے ایران پر یہ پابندیاں لگوائیں۔
ایران نے بھی پاکستان میں شیعہ مدراس کی مالی فنڈنگ کرتے ہوئے یہاں اپنے عزائم کسی حد تک پورے کرنے کی کوشش کی۔
اقتدار اور طاقت کی اس رسہ کشی سے دونوں ملکوں کے عوام ہمشہ ہی سماجی ، معاشی اور سیاسی جبر کا شکار رہے ہیں ۔ ان کی آزادیاں غصب ہوتی رہی ہیں۔آج دونوں ملکوں کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہیں۔
رقبہ کے لحاظ سے سعودی عرب مشرقِ وسطہ کا سب سے بڑا ملک ہےجس کا رقبہ 2,149,690 مربع کلو میٹر ہے۔ جس کی 2010ء کی مردم شماری کے مطابق 28.83 ملین کی آبادی ہے ۔ تقریباً بیس ملین غیر ملکی ہیں اور باقی سعودی نیشنل ہیں۔ آج سعودی عرب میں بے روزگاری کی شرح 6.2 فیصد ہے۔ سعودی عرب میں 15-20فیصدآبادی اہلِ تشیع کی ہے ۔ جو غربت ، بے روزگاری اورمذہبی تعصب کے دوہرے تہرے استحصال کا شکار ہے۔
اس کے مقابلے میں ایران کا رقبہ 1,648,195مربع کلو میٹر ہے۔
دونوں ملکوں میں افراطِ زر بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایران میں افراطِ زر کبھی کبھار سو فی صد سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ لاکھوں لوگ بے روزگار ہیں۔ بعض اوقات لمبے عرصے تک انہیں تنخواہیں ہی نہیں ملتیں۔ اگرچہ ایران کو بھی مثالی سیاسی اور جمہوری آزادیاں حاصل نہیں ہیں لیکن سعودی ریاستی جبر اور ایران کے ریاستی جبر میں فرق ہے ۔ ایران کے عوام کا گزشتہ کئی عرشوں سے معاشی اور سماجی استحصال کیا جاتا رہا ہے ۔ ایران بھی گزشتہ چند سالوں میں خواتین ، صحافیوں اور مذہبی اختلافات رکھنے والے افراد کو قتل کر چکا ہے تاہم دونوں ملکوں کا اسلام کا فہم ، اس کی توضیحات اور سیاسی اسلامی نظام کے قیام کے طریقہِ کار قریب قریب ایک جیسی شدت پسندی کا اظہارہیں۔
اب یہ بات واضح ہونا شروع ہو گئی ہے کہ استحصال کے یہ پُرانے حربے بھی کارگر ثابت نہیں ہو رہےجس کی وجہ سے دونوں ممالک کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے ۔دونوں ممالک ہی اس جاری کردہ پراکسی وار کی لاحاصلیت پر نہ صرف بوکھلاہٹ کا شکار ہیں بلکہ اس کیفیت میں وہ جو بھی قدم اُٹھا رہے ہیں وہ غلط پڑ رہا ہے۔ آنے والے وقت میں خطے کے حالات لازماً اس خطے کا نقشہ بدلنے جا رہے ہیں۔ وہ پراکسی وار جس کو کئی عرصے تک یہ ممالک لوگوں کے مذہبی جذبات اور ان کی مذہب سے والہانہ وابستگی کہہ کر لڑاتے رہے ہیں آج وہ ننگی ہو کر سامنے آگئی ہے۔
سعودی عرب جس نے ملک میں شرعی اور اسلامی سزائیں نافذ کر رکھی تھیں نے شیعہ عالم کو محض مختلف سیاسی اور سماجی نکتہِ نظر رکھنے کی بنا پر قتل جیسی حد کی سزا سنا دی جس کا نفاذ اسلام میں بھی صرف مخصوص حالات میں کیا جا سکتا ہے ۔اُس کے ملک بدر کئے جانے سے بھی کسی قدر معاملات اپنے کنٹرول میں کئے جا سکتے تھے لیکن سعودی عرب نے اتنا خطرہ مول لینے کی جرات کا مظاہرہ بھی نہ کیا۔
سعودی عرب ایسی حرکت کرکے شایدایک دفعہ پھر امریکہ کا سیاسی اور تزویراتی قرب حاصل کرنا چاہ رہا ہے ۔ ایران کی اس دراندازی کو پورے خطے کے لئے خطرہ قرار دے کر امریکہ اور ایران کی موجودہ قربت کو دوری میں تبدیل کر نے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس دفعہ سعودی عرب کی یہ کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔
یہی وہ سیاسی رنجشیں ہیں جس نے پورے خطے میں عدم رواداری اور مذہبی منافرت کو ہوا دی ہے ۔ حقیقتِ احوال یہ ہے کہ دونوں ہی ملک تقریباً چار عشروں سے مسلسل نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں بلکہ پاکستان اور افغانستان میں بھی اپنی پتھارے داری قائم کرنے کے لئے ریاستی خود مختاری کے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پراکسی وار جاری رکھے ہوئے ہیں۔
امریکہ کی رائٹس یونیورسٹی اور برطانیہ کے مشرقِ وسطیٰ کے امور کے ماہر کرسٹین کوئٹس الرچس نے ایران اور سعودی عرب کے ان حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال سے مذہبی فرقہ واریت کوہوا ملے گی جس کے اثرات نہ صرف خطے میں بالکل دور تک محسوس کئے جائیں گے۔
امریکہ کی رائٹس یونیورسٹی اور برطانیہ کے تھینک ٹیک چہیٹم ہاؤس سے منسلک اور مشرقِ وسط کے امور کے ماہر کرسٹین کوئٹس الرچس نے بی بی سی میں مورخہ 4 جنوری 2016ء کوشائع ہونے والے ایک مضمون میں سعودی عرب اور ایران کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئےسامنے آیا۔ تبصرہ نگار نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات جس قدر خراب ہوچکے ہیں اتنے گزشتہ تیس سالوں میں نہیں تھے۔
اس نے مزید کہا کہ سعودی مذہبی رہنما شیخ نمر النمر کے قتل اور پھر تہران میں سعودی سفارتخانے کو آگ لگائے جانے والے واقعات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اُس نے کہا کہ خطے میں سیاسی اور مذہبی اثر و رسوخ کی دوڑ میں ریاض اور تہران کے درمیان جاری مقابلہ بازی کے اثرات خلیج کے پر سکون پانیوں سے کہیں دور تک پھیل سکتے ہیں اور شاہد ہی مشرقِ وسطیٰ کا کوئی ملک ایسا ہو جو ان دونوں کی کشیدگی سے متاثر ہوئے بغیر رہ سکے ۔
اُس نے کہا کہ اس کے فوری اثرات شام اور یمن کے لئے سفارتی حل کی کوششوں کے امکانات معدوم ہو جائیں گے۔ اُس نے موجودہ کشیدہ صورتحال کا موازنہ 1980ء کی صورتحال سے کرتے ہوئے کہا کہ اس سے خطے میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم اس خطے کے دوسرے ہمسایہ ممالک میں بھی بد اعتمادی بڑھی ہے اور معاملات فرقہ ورانہ مخالفت رکھنے والے لوگوں کے ہاتھ آجاہیں گے۔ اُس نے مزید کہا ہے کہ خلیجی ریاستوں کی سخت خارجہ پالیسی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ایران علاقائی تنازعات میں مسلسل اپنی ٹانگ اڑا رہا ہے۔ اس معاملے میں اوبامہ انتظامیہ کے کردار کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔
تیسری وجہ بیان کرتے ہوئے اُس نے کہا ہے کہ اس سے یمن اور شام کے لئے جاری امن کی کوششوں کو نقصان ہو گا۔
معروف برطانیوی مارکسی دانشور ایلن ووڈز نے اس واقعے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کی ابھرتی ہوئی صورتحال کو کچھ اس انداز سے بیان کیا ہے :
The execution of Nimr-al-Nimr, a judicial murder ordered by the Saudi royal clique, is of the same order. It was a deliberate provocation intended to stir up sectarian strife between Shias and Sunnis and push the government of Teheran into taking military action against Saudi Arabia, which would then call on the Americans for aid.
The immediate reaction to what was clearly a judicial murder was the storming of the Saudi embassy in Tehran. Saudi Arabia immediately broke off diplomatic ties with Iran. All this was carefully premeditated. Events have proceeded step by step, like the steps of a ballet dancer. But this ballet is the dance of death. This was a desperate act by a regime that finds itself in deep trouble and faces the prospect of overthrow.
The Saudi gangsters miscalculated in Yemen, where they are involved in an unwinnable war. Now it has stirred up the anger of the Shias who constitute at least twenty percent of the Saudi population and are among the poorest and most oppressed layers. Mass demonstrations have broken out in Saudi cities with slogans like “Death to the House of Saud!” By overreaching themselves the Saudi ruling clique has sown the winds and will reap a whirlwind.
سعودی عرب جس طرح اپنی بادشاہت کو بچانے کے لئے خطے میں بدامنی ، بے چینی اور سیاسی انتشار پیدا کر رہا ہے ، وہ پہلے سے بدامنی ، دہشت گردی اور سیاسی عدم توازن کے شکار ملکوں کے لئے قطعاً کوئی خوش آئند بات نہیں ہے۔ صورتحال جو بھی ہو سعودی عرب مستقبل میں اپنی بادشاہت کو قائم رکھ سکے گا اور نہ ہی شدید ہوتے معاشی بحران سے اپنے ملک ہی میں اُٹھنے والے عوامی احتجاج کا سامنا کر سکے گا۔ لہٰذا آنے والاتناظر پورے خطے میں بد امن ، بے چینی ، سیاسی عدم استحکام اور نئے نقشے ابھرنے کی خبر دےرہا ہے۔
One Comment