مذہب کے جس تصور نے سرمایہ داری کو بہت زیادہ سہارا دیا ہے وہ جنت اور دوزخ کا تصور نہیں ہے بلکہ خیرات اور خیراتی کلچر کا ہے ۔ خیرات و صدقات کا مذہبی تصور غریب اور امیر کے درمیان ابھرنے والی طبقاتی کشمکش کو نہ صرف سست کر دیتا ہے بلکہ یہ ’’تصور‘‘ اس کشمکش کو انسانیت ، ہمدردی کے جذبات ، صلح جوئی اور امن جیسے خوش نما خیالی ، حسین اور ایک تصوراتی پرامن دنیا کی سمت موڑ دیتا ہے ۔
یہ تصور بہت ہی سوچ سمجھ کے تراشا گیاہے کیونکہ یہی تصور ہی سرمایہ داری اور مذہب میں رشتہ مضبوط ہوتا کرتا ہے ۔ سرمایہ داری اپنے نامیاتی بحرانوں سے نکلنے کے لئے جہاں دیگر بہت سی ترکیبیں اور حیلے بہانے تراشتی ہے ، وہاں مذہب کا یہی تصور سب سے زیادہ اُس کے کام آتا ہے۔
خیرات کی مختلف شکلیں ہو سکتیں ہیں۔ یہ روپے پیسے کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے اور مادی اشیاء کی شکل میں بھی۔خیرات کی تقسیم کے منظم ادارے بھی ہو سکتے ہیں اور افراد اپنی انفراادی حیثیت میں بھی خیرات بانٹ سکتے ہیں۔
پہلے سرکاری ، نیم سرکاری اور نجی خیراتی اداروں پر بات کر لیتے ہیں۔
مذہب کے یہ خیراتی ادارے اپنی روایتی اور قدیمی شکل میں خیراتی و فلاحی اداروں ، مساجد اور دیگر مذہبی عبادت گاہوں کی شکل میں موجود رہتے ہیں ۔ جہاں مذہبی پنڈت ، پادری اور ملا وغیرہ امیروں کی دی گئی خیراتی اشیاء یا روپیہ پیسہ مستحقین میں تقسیم کرتے ہیں۔
خیرات کی تقسیم کے لئے نجی خیراتی ادروں کے علاوہ نیم سرکاری اور مکمل سرکاری ادارے بھی قائم ہوتے ہیں۔ وہ تمام ممالک جہاں ریاست نے کوئی نہ کوئی مذہب اپنا رکھا ہے اور اختیار کیا ہوا ہے ، وہاں فلاحی کاموں کے لئے سرکاری اور نیم سرکاری ادارے بنائے جاتے ہیں۔ سعودی عرب میں زکوٰۃ و عشرہ کے لئے سرکاری ادارہ قائم ہے۔ پاکستان میں بھی زکوٰۃ و عشر اور بیعت المال جیسے ادارے قائم ہیں۔ اس کے علاوہ کئی اور ادارے جو سوشل ویلفیئر محکمے کے تحت کام کرتے ہیں بھی قائم کئے گئے ہیں۔
جن ممالک میں ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہے وہاں نجی خیراتی اداروں کو قانونی شکل دے دی جاتے ہیں اور وہ ریاستی قانون کے تحت اس خیراتی عمل میں شامل ہو جاتے ہیں۔ لیکن ان خیراتی اداروں کی آڑ میں وہ ریاست کے ساتھ سرمایہ دارانہ لین دین کرتے ہیں ۔خیرات کے بدلے میں وہ ریاست سے کروڑوں ، اربوں روپیوں اور ڈالرز کے ٹیکسز معاف کراتے ہیں ۔ اس سے انہیں دوسرا فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی پیداوار کے لئے محض صارفین پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔اور بڑے پیمانے پر پھیلائی گئی بے روزگاری ، ماحولیاتی آلودگی اور بیماری کے’’ جرم‘‘ جس کے وہ براہِ راست ذمہ دار ہوتے ہیں سے ریاستی قوانین کی آڑ میں خود کو ’’آزاد‘‘ اور ’’مبریٰ‘‘ کرلیتے ہیں۔
سرمایہ داری نظام میں ریاست چونکہ سرمایہ دار کے سرمائے کے سہارے کھڑی ہوتی ہے اور اُس کو سہارا دینے کے لئے وہ خود یہ ادارے قائم کرکے غریبوں ، مزدوروں اور مستحقین کے لئے ان کی سوشل سکیوٹی ، تعلیم اور صحت کا انتظام اس لئے چلاتی ہے تاکہ ریاست کو اُس کا ہمدرد اور حامی خیال کیا جاتا رہے۔ اس لئے کچھ سیاست دان اسے ’’ماں‘‘ جیسی ہستی سے تعبیر کرتے رہتے ہیں ۔ ریاست کے درمیان یہ رشتہ اخلاقی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے اور نہ ہی مذہبی بنیادوں پر ۔ سرمایہ دار پیداوار انسانی ضروریات کے تحت نہیں کرتا ۔ سرمایہ دار پیداوار انسانی تعلقات اور رسماجی رشتوں کی وجہ سے بھی نہیں کرتا بلکہ وہ یہ پیداوار منافع اور شرحِ منافع کی غرض سے کرتا ہے ۔ منافع اور شرحِ منافع کو بڑھانے کے لئے وہ ہرآن پیداوار کے اس عمل میں لاگت کے کم کئے جانے کے منصوبوں کے بارے میں سوچتا رہتا ہے ۔ اس سارے کھیل میں ریاست کی تمام تر قانون سازی کا جھکاؤ سرمایہ دار کی طرف رہتا ہے۔
اُسے اپنے کاروبار کو چلانے کے لئے محنت کش اور ہنر مند اور غیر ہندمند مزدور بھی چاہے ہوتا ہے اور صارف بھی۔
نئی ایجادات اور دریافتوں کے بعد بڑے پیمانے پر پھیلنے والی بے روزگاری ، بیماری ، غربت اور افلاس جرائم اور بغاوت کے خطرات بھی اپنے ساتھ لاتی ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لئے ایک خیرات کی بے ہودہ اخلاقیات کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ اس کا سیدھا سیدھا مطلب یوں بے روزگار کئے گئے انسانوں کے ہجوم کے غصے ، نفرت ، بغاوت اور انقلاب کے جذبات کو قابو میں رکھنا ہوتا ہے۔ یہ خیراتی جذبہ انسانیت کی عزت و توقیر کا سامان نہیں ہے بلکہ انسانیت کی تذلیل ہے ۔
یہ درست ہے کہ خیرات کا یہ تصور ترقی یافتہ مذہبی قوموں اور لوگوں میں کسی حد تک مختلف تو ہوسکتا ہے اور پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں مختلف۔ لیکن جہاں تک ریاست اور ریاستی قوانین کا تعلق ہے ۔یہ بغیر کسی تخصیص کے تمام ممالک میں سرمایہ دار کے استحصال کو اسی طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے جائزیت فراہم کرنے کا طریقہ ہے۔
جب سرمایہ دار پیداواری کے عمل میں منافع اور شرحِ منافع کی غرض سے داخل ہوتا ہے ، تو وہ انسانی احتیاج کے لئے پیداوار کرنے کے بجائے سرمایہ کاری ان اشیاء پر کرتا ہے جہاں سے اُس کو زیادہ سے زیادہ منافع حاصل ہو۔ اپنے منافع کا ایک حصہ وہ سماج میں فلاحی کاموں پر اس لئے صرف کرتا ہے تاکہ اس وہ ریاست سے اس کی جائزیت کے قوانین پاس کرا سکے۔ ریاستی امور بھی چلتے رہیں اور اُس کا کام بھی چلتا رہے۔
ریاست کی اُس کے حق میں یہ قانون سازی اُسے ماحولیاتی آلودگی، بے روزگاری ، بیماری اور محتاجی پیدا کرنے کے جرم میں براہِ راست محنت کشوں اور عوام کے غیض و غضب اور بغاوتوں سے محفوظ کرلیتی ہے۔ اگر جب حالات بہت زیادہ خراب ہو جاتے ہیں ۔ تو سرمایہ داراور بورژوا معیشت دان جیسا کہ مالتھس جنگوں تک کا جواز تراش لیتے ہیں۔ یو۔این۔اور اور اس کے تمام ذیلی اداروں اور کچھ بنکوں کی نام نہاد ترقیاتی منصوبوں میں فنڈز اور امدادی سرگرمیوں کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے ۔
ان خیراتی اداروں کا مقصد انسانی مصائب، فضائی آلودگی اور جنگوں کاخاتمہ نہیں ہے بلکہ ایسی تمام تر بربادیوں اور تباہیوں کے پھیل جانے کے بعد بحالی کے عمل میں شمولیت ہے ۔ اس کی تازہ ترین مثال شام میں باغیوں کے قبضے میں پھنسے علاقے مدایا میں ہزاروں رہائشیوں اور چالیس ہزار افرااد کی خوراک اور ادویات کی فراہمی ہے جو کہ اقوامِ متحدہ کا عالمی ادارہ برائے خوراک لبنانی سرحد پر موجود جنگ سے تباہ شدہ اس علاقے میں دینے کے لئے میدان میں اترا ہے۔ واضح رہے کہ اس اکیسویں صدی میں وہاں بھوک اور بیماری کا شکار یہ لوگ مٹی کھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
انفرادی سطح پر اس خیراتی کلچر کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس سے خیرات دینے والا محسوس کرتا ہے کہ اُس نے دنیا میں جتنے بڑے گناہ کئے ہیں ، خیرات اُس کے ان گناہوں کا کفارہ ہے۔ اس طرح وہ رشوت ستانی ، بدعنوانی اور اس جیسی دیگر سماجی برائیوں میں مبتلا رہتے ہوئے خود کو جنت کا امیدوار بھی بنا لیتا ہے۔
خیرات دینے والے میں ایک طرح کا احساسِ تفاخر پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک طرح کی نفسیات جنم لینا شروع ہو جاتی ہے کہ وہ لوگ جو زیادہ کماتے ہیں ان کی یہ کمائی ان کی ذہانت اور خدا کی عطا کردہ صلاحیتوں کی وجہ سے ہے۔ وہ کسی نہ کسی طرح سے خدا کے چنیدہ اشخاص میں سے ہیں اور جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ یا تو نااہل اور نالائق ہیں یا پھر خدا ہی نے انہیں کسی امتحان میں ڈالا ہے۔ خدا کے اس امتحان سے وہ خود بھی ڈرتے ہیں ۔ غربت، محتاجی ، بے روزگاری ، بیماری اور لاغر پن کے خوف سے ڈر کی وجہ سے بھی یہ خیرات دی جاتی ہے۔
ایک طرف جب ضرورتوں کا مارا بے بس انسان خیرات حاصل کر لیتا ہے ، تو وہ مجبورہو جاتا ہے کہ وہ خیرات دینے والے کے ظلم و زیادتی ، استحصال اور اس کے پھیلائے گئے جرائم پر نہ صرف کوئی بات نہ کرے بلکہ ہر صورت میں ان پر پردہ ڈالے ۔ خیرات دینے والی کی یہ ذہنیت اس عمل کا لازمی نتیجہ ہے ۔ وہ اسے خود تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن عملی طور پر ہر طور ایسی کیفیتوں اور صورتحالات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔ خیرات اور صدقات کی موجودگی میں ملک میں جرائم ، رشوت اور بے عنوانی وغیرہ کا خاتمہ ممکن ہی نہیں ہے۔
لبرل اور روشن خیال اور بورژوا معیشت دان خیرات کو سماج میں فلاح و بہبود کا ذریعہ خیال کرتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ اس سے سماج میں محبت اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہو تے ہیں۔ معاشرے میں امن ، ہم آہنگی اور یگانگت پیدا ہو تی ہے۔ نفرت ، بغض ، حسد اور دشمن جیسے منفی جذبات کا خاتمہ ہوتا ہے ۔ سماجی اور معاشی انصاف کی فضا پیدا ہو جاتی ہے ۔ وہ لوگ جو پیدائشی بیماری اور معذوری کا شکار ہوتے ہیں ۔اُن کو بھی سماج میں عزت و توقیر سے زندہ رہنے کا موقع فراہم ہو جاتا ہے۔
خیرات سے کسی کی عزتِ نفس مجروج نہیں ہوتی۔ سماج میں پھیلائی جانے والی بیماریوں ، مصائب ، غربت اور بے روزگاری کو ایسے لبرل اور بورژوا معاشی نظام کی خامیوں سے زیادہ خدائی محرکات ، انسان اور سماج کی ذاتی کوتاہیوں اور اس کے ظلم و زیادتیوں کا نتیجہ خیال کرتے ہیں۔وہ انسان کی صلاحیتوں کے فرق اور اس کی بنیاد پر پیدا ہونے والی معاشی تفریق کو تسلیم کرتے ہیں ۔ اُن کا خیال ہے کہ اس تفریق کو ریاست بہتر قوانین بنا کر ختم کر سکتی ہے۔ لیکن انسان جو کچھ اور جتناکچھ کماتا ہے وہ اس کی ودیعت کر دہ صلاحیتوں کا نتیجہ ہے۔
صدیوں سے جاری خیرات کے اس عمل نے لوگوں کی حالت سنواری ہے اور نہ ہی اس سے لوگوں کے حالات سنور سکتے ہیں۔ کیونکہ جب تک خیرات کے اس عمل کے پیچھے کار فرما نفسیات اور معاشیات کا غیر جانب دارانہ جائزہ نہیں لیا جاتا ہے ، اس دنیا سے غربت، بے روزگاری، محتاجی، افلاس ، ماحولیاتی آلودگی اور استحصال کا خاتمہ ممکن ہی نہیں ہے۔
One Comment