ارشد نذیر
ذرائع پیداوار ، طریقہِ پیداوار اور پیداواری قوتوں میں تبدیلی سرمایہ کاری کے عمل کو پیچیدہ کر دیتی ہے ۔ سرمایہ داری کا روز بروز پیچیدہ ہوتا ہوا یہ عمل ریاست اور سرمایہ دار کے درمیان تعلقات میں بھی پیچیدگی اور گہرے تضادات کو جنم دیتا ہے ۔ سرمایہ دار ریاست کو سرمایہ کی خاص نفسیات کے تحت قانون سازی کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔ اس کے برعکس ریاست اپنے وجود کی بقا اور عوامی خواہشات کے خوف تلے دبی رہتی ہے ۔ لیکن تضادات کی اس کیفیت میں جیت سرمایہ دار ہی کی ہوتی ہے اور ریاست قانون سازی، قوانین کے اطلاق اور حتیٰ کہ عدلیہ جو ان بنائے گئے قوانین کی تعبیر و تشریح کرتی ہے ، ان تمام پہلوؤں میں ریاستی جھکاؤ سرمائے ہی کی طرف رہتا ہے ۔
قانون سازی سرمائے کی سیال کیفیت کو ذہن میں رکھ کر کی جاتی ہے ۔ اس طرح قانون سازی کے اس عمل میں سرمایہ اور سرمایہ داری خود انسان سے زیادہ اہمیت اور فوقیت حاصل کر لیتا ہے ۔ ہماری پارلیمان ، جو قانون سازی کی ریاستی مشنری کے طور پر کام کرتی ہے ، سرمایہ داری میں عوام کی فلاح کے لئے قانون سازی نہیں کر سکتی۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک وجہ معاشی ہے اور دوسری وجہ سیاسی۔
معاشی وجہ یہ ہے کہ قرضوں میں دھنسی ہوئی ہماری ریاست کو ہر آن اپنے وجود ہی کا خطرہ لاحق رہتا ہے ۔ کوئی بھی حکومت قائم ہو جائے اگر اُس کا معاشی فلسفہ سرمایہ داری پر کھڑا ہے ، تو وہ سب سے پہلے اپنی ہی آمدن کے ذرائع تلاش کرتی ہے ۔ وہ براہِ راست اور بلواسطہ ٹیکسوں پر انحصار کرتی ہے۔ اندرونی اور بیرونی قرضوں پر انحصار کرتی ہے ۔ زرِ ترسیلات پر انحصار کرنا شروع کر دیتی ہے ۔
اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنے کے لئے پالیسیاں اور قانون سازی کرتی ہے ۔ اس تمام تر قانون سازی میں اُسے سرمایہ کے لئے سازگار کاروباری ماحول جس میں سستی لاگت، سستی محنت، زیادہ منافع اور منافعے کی آزادانہ نقل و حرکت جیسی فضاء جسے معاشی اور سیاسی اصطلاح میں ’’سرمایہ دارانہ دوست ماحول‘‘ کہا جاتا ہے پیدا کرنا ہوتا ہے ۔ تمام تر پالیسیاں اور قانون سازی اسی فضاء کو قائم رکھنے کے لئے کی جاتی ہے ۔ اس میں ضمناًکچھ انسانی حقوق کا تڑکہ بھی لگا دیا جاتا ہے۔
اگر قرضے بہت بڑھ جائیں تو اُسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں جیسا کہ آئی ایم ایف ، ورلڈ بنک وغیرہ ہیں پر انحصار کرنا پڑتا ہے ۔ یہ مالیاتی ادارے معاشی طور پر بدحال ممالک کو قرض تو دے دیتے ہیں لیکن ان قرضوں کو وصولتے سود در سود کی شکل میں ہیں۔ نیز اپنے قرضوں کی واپسی کو یقینی بنانے کے لئے یہ اپنی ترقیاتی پالیسیاں بھی قرض خواہ ممالک میں رائج کرتے ہیں۔ ان کی تمام تر پالیسیاں مزدوروں اور محنت کشوں کے مفادات کے خلاف ہوتی ہیں۔
ان پالیسیوں میں رائٹ سازنگ، ڈاؤن سائزنگ، کام کے اوقات میں اضافہ، کام کی عمر میں اضافہ اور کم اجرت، یونین سازی کی مخالفت اور پرائیویٹائزیشن وغیرہ شامل ہیں ۔ مقروض ملک کو مجبوراً ان کی دی گئی پالیسیوں کی روشنی میں اپنی قانون سازی کرنا پڑتی ہے ۔ پاکستا ن جس پر اب بیرونی قرضوں کا بوجھ 65ارب ڈالر ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ 2018 ء تک یہ بڑھ کر 90 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے کو بھی اپنی تمام ترقانون سازی انہیں پالیسیوں کی روشنی میں کرنا پڑتی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی برمحل ہوگا کہ ملک کو اس پوزیشن تک پہنچانے میں سارا کردار توگنتے کے چند لوگوں کا ہے ۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خساروں اورزندگی کی تمام تر سختیوں اور تلخیوں کا بوجھ برداشت کرنے کے لئے عوام ہوتا ہے۔
دوسری وجہ سیاسی ہوتی ہے ۔ ایسی پالیسیوں اور قانون سازی کے لئے لازم ہے کہ سیاسی اقتدار سرمایہ دارکی حامی سیاسی جماعت کے پاس رہے۔ لیکن یہ صورتحال بھی اُس وقت شدید ترین تضادات کا شکار ہوجاتی ہے جب سرمایہ دار خود سیاست میں براہِ راست دخیل ہو جائے ۔ ہماری ریاست میں تضادات کی اس کیفیت کا مشاہدہ کیا جا سکتاہے۔
جمہوریت کو کیونکہ سیاسی نظام کے طور پر کھڑا کیا جاتا ہے تاکہ عوام کو خوش کیا جا سکے کہ قانون سازی کا یہ عمل ان کی حقیقی خواہشات کا آئینہ دار ہے ۔ لیکن پارلیمان سے قانون سازی سرمایہ دارکے مفادات میں کرائی جاتی ہیں۔
قوانین سازی انتظامی نوعیت کی ہو یا عدالتی ضابطہ جات کے حوالے سے۔ ملکی مالیاتی امور سے متعلق ہو یا بد عنوانی کے خاتمے سے متعلق یا احتساب کے حوالے سے، ہر طرح کی قانون سازی میں کوئی نہ کوئی چور دروازہ موجود ہوتا ہے۔ انگریزی کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ بے وقوف ہیں وہ لوگ جو قانون میں موجود جھولوں، ہچ اور ابہام کے باوجود قانون کے دائرے سے باہر جرم کرتے ہیں ۔
قانون سازی کے ان ابہام کا جہاں سرمایہ داری کو فائدہ ہوتا ہے وہاں قانون کے رکھوالوں اور اس کو نافذ کرنے والے دیگر بیسیوں افراد اور اداروں کے’’ گلشن کا کاروبار‘‘ بھی چلنا شرو ع ہوجاتا ہے ۔ اس کھیل میں محکمہ مال، پولیس، وکلاء ، سیاستدان ، کرائے کے قاتل اور دیگر ہمہ قسم کن ٹٹے شامل ہوتے ہیں۔ ہر ایک قانون کے ’’اندر‘‘ رہتے ہوئے موم کے اس قانون کو اپنے حق میں توڑتا مروڑتا ہے ۔ اپنا مقصد حاصل کرتاہے اور ’’معزز ‘‘ بھی کہلاتا ہے۔
یہی ابہام اور قانونی سقم وائٹ کالر کرائمز ، بھتہ خوری ، چور بازاری اور دیگر ہر طرح کے جرائم کا راستہ کھولتے ہیں۔ انہیں الجھنوں ، ابہام اور کجیوں کی آڑ میں قانون کے محافظ اور اس کے نفاذ کے ذمہ دار قانون کو موم کی ناک کی طرح موڑتے رہتے ہیں۔ روپے پیسے کی جھلک نظر آنے کی دیر ہے کہ قانون لونڈی کی طرح صاحبِ ثروت کے قدموں میں ڈھیر ہو جاتا ہے ۔ اس نظام سے کمزور مستفید ہو سکتا ہے اور نہ ہی ریاست کے بنائے گئے قوانین میں اس کی کوئی صورت نظر آتی ہے ۔ زورآور ہر صورت کو اپنے حق میں استعمال کرتا ہے ۔انگریزی زبان میں ایک اور ضرب المثال ہے کہ قانون مکڑی کے جا ل کی مانند ہوتا ہے کمزور جس میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور طاقتور اسے چیر کر نکل جاتا ہے ۔
عدالتیں بھی آجر اور اجیر کے حوالے سے فیصلوں میں حکومتی موقف کی تائید کرتی ہیں کیونکہ وہ بنائے گئے قانون کی تعبیر و تشریح تو کر سکتیں ہیں ، کوئی نیا قانون نہیں بنا سکتیں۔ حکومت کی پرائیویٹائزیشن کی پالیسی ہو یا کنٹریکٹ ملازمین دونوں میں عدالتوں سے ملازمین اور محنت کشوں کو انصاف نہیں ملتا۔ تین سالہ کنٹریکٹ کی ملازمت بھی اگر میرٹ پر نہ ہواور کوئی عدالت کا رُخ کر لے تو اُس کا یہ فیصلہ آیا کہ ملازمت کسی غیر مستحق فرد کو رشوت اور سفارش کی بنیاد پر ملی ہے چھ سال تک چلتا ہے ۔ اگر توہینِ عدالت کسی لکھے ہوئے قانون کا نام ہے تو ایسے تاخیری فیصلے میں تو سزا جج کو ہونی چاہئے۔ لیکن یہاں ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
جنوری 2016 ء میں حکومت نے ٹیکس ایمنسٹی کا اعلان کیا ہے جس کے تحت ایک فیصد ٹیکس ادا کر کے کوئی بھی تاجر اپنےکروڑوں روپے کا کالے دھن کو سفید کر سکتاہے ۔ کیسا تضاد ہے ایک طرف منی لانڈنگ کیسز کو پکڑا جا رہا ہے اور دوسری طرف کالے دھن کو سفید کرنے کے یہ طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔
اسی طرح احتساب آرڈی نینس کے تحت احتساب کا واویلا بھی ہو رہا ہے اور اسی قانون میں پلی بارگین کی شق بھی موجود ہے جس کے تحت کوئی بھی مجرم اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت کو اگر معمولی سی رقم واپس لوٹا دے تو وہ سزا سے بچ سکتاہے ۔
اس کو معاشی دہشت گردی کے سوااور کیا کہا جا سکتا ہے کہ سندھ اسمبلی نے حال ہی میں ایک بل پاس کیا ہے جس کے تحت حکومتِ سندھ کو خصوصی عدالتوں یا ہائی کورٹ کے ماتحت کسی بھی ٹرائل کورٹ بشمول دہشت گردی کی عدالت میں زیرِ سماعت کسی بھی مقدمہ کو فیصلے سے قبل واپس لینے کا اختیار دہو گا ۔ پراسیکیوٹر جنرل اپنے تحریری بیان کے ذریعے عدالت کو آگاہ کرے گا کہ حکومت سندھ ملزم پر مقدمہ نہیں چلانا چاہتی ۔ اس پر ملزم کو رہا کر دیا ہے ۔ اس طرح اب حکومت ایف ۔آئی ۔اے، بیب، اور رینجرز کی طرف سے قائم کردہ مقدمات کو غیر موثر کر دے گی۔
قبل ازیں وفاق اور حکومتِ سندھ کے درمیان رینجرز کے اختیارات پر جو اختلافات سامنے آئے ۔ اس دوران بھی حکومتِ سندھ نے ایک بل اسمبلی سے پاس کرایا جس کے تحت رینجرز کے اختیارات میں توسیع کو حکومتِ سندھ کی منشاء اور منظوری سے مشروط کر دیا گیا۔ اس کا مقصد ڈاکٹر عاصم کو بچانا تھا۔
پرائیویٹائزیش کے قوانین کے تحت سرمایہ دار کو اپنے سرمائے کی بڑھوتری اور اضافے کے لئے ٹیکس چھوٹ، آسان بنیادوں پر قرضے اور کمپنی کو ملازمتیں فراہم کرنے کے قوانین ، مزدوروں کی تنخواہوں میں کٹوتیاں ، ملازمتوں سے برخواستگی جیسی تمام آزادیاں دی جاتی ہیں لیکن یہ تمام تر قانون سازی مزدوروں کے زندگی اور زندہ رہنے کے بنیادی حق کے برخلاف کی جاتی ہے۔ مزدور اور محنت کش اسی سماج میں بے یار و مددگار پھرتا رہتا ہے ۔ ایسی قانون سازی کے خلاف عدالتیں بھی دخل اندازی نہیں کر سکتیں۔
2006ء میں جب افتخار محمد چوہدری کا جوڈیشئل ایکٹیوزم چل رہا تھااُس وقت پاکستان سٹیل مل کی پرائیویٹائزیشن کے معاملے کا از خود نوٹس لیا گیا۔ اس میں سٹیل مل کی پرائیویٹائزیشن کے عمل کی مخالفت نہیں تھی بلکہ پرائیویٹائزیشن کے عمل کو حسبِ قانون و قواعد و ضوابط نہ کئے جانے کی مخالفت تھی۔ یہ عدالتی فیصلہ دونوں صورتوں میں ہی مزدوروں کے مفاد کے بارے میں نہیں تھا۔ لیکن افتخار محمد چوہدری کی جوڈیشئل ایکٹیوزم کسی کام نہ آسکی ۔ سیاسی استحصالی ٹولے اور معاشی دہشت گردی کرنے والے ٹولے کو کامیابی ہوئی۔
اسی طرح حکومت کے جاری کردہ بڑے منصوبوں کا جائزہ لیا جائے تو ان بڑے منصوبوں کو اس لئے شروع کیا جاتا ہے کہ ان میں کک بیکس ، کمشن اور ٹھیکیداری شامل ہوتی ہے ۔ جس سے مقننہ میں شامل سیاستدان ، ان کے مشیر اور بیوروکریٹس براہِ راست اور بالواسطہ طور پر مستفید ہوتے ہیں۔ دوسری طرف اگر عوامی فلاح کے منصوبوں کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ حکومت تعلیم پر بمشکل دو فیصد خرچ کرتی ہے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ حکومت سرکاری کالجز کو پرائیویٹ کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ ہر سال بے روزگاروں کی منڈی میں لاکھوں نوجوان شامل ہو رہے ہیں۔ نجی تعلیمی ادارے میں تعلیم انتہائی مہنگی ہے اور روزبروز درمیانے طبقے کی پہنچ سے بھی باہر ہو رہی ہے ۔
تمام صوبائی حکومتوں کی صحت کے حوالے سے پالیسوں پر نظر ڈالنے سے اس شعبہ پر حکومت کی توجہ کی قلعی کھل جاتی ہے ۔ حکومت بمشکل صحت پر اپنے بجٹ کا 1.5 فیصد خرچ کر رہی ہے ۔ اندرونِ سندھ میں آج بھی غذائی قلت ، ادویات کی عدم دسیتابی اور صحت کے مراکز کی زبوں حالی چیخ چیخ کر حکومت کی ان پالیسیوں کا قصہ سنا رہی ہے۔ حالیہ طبی جریدے دا لانسٹ کے رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں یومیہ مردہ بچوں کی پیدائش کے حوالے سے پاکستان پہلے نمبر پر ہے ۔
اگر چہ پاکستان میں خطِ افلاس سے بھی نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد اب ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ ہے لیکن اگر حکومت کے اپنے اعداد و شمار پر بھی اعتبار کرتے ہوئے اس کو چالیس فیصد ہی مان لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کی پالیسیاں اور قانون سازی واقعی ان کی خواہشات اور ضروریات کی آئینہ دار ہے۔
جمہوری عمل میں تو امیر آدمی کا بھی ایک ووٹ ہے اور غریب کا بھی ایک ووٹ ہی ہوتا ہے ۔ تو پھر آخر پالیسیاں بناتے وقت غریب آدمی کے ووٹ کا تقدس کہاں چلا جاتا ہے ۔ حقیقت میں سرمایہ داری نظام میں غریب عوام کی فلاح ہے ہی نہیں۔ اس نظام کے تحت انسانیت پنپ ہی نہیں سکتی۔ یہ نظام انسانیت کو وحشت اور بربریت ہی کی طرف دھکنے کے سوا اور کچھ دے ہی نہیں سکتا۔
◊
One Comment