باچا خان یونیورسٹی پر حملے نے کئی نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار فلوریان وائیگانڈ کے مطابق پاکستانی سول سوسائٹی کی واضح اور جرأت مندانہ مزاحمت کے بغیر دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ممکن نہیں ہو گا۔
فلوریان وائیگانڈ کے مطابق اس حملے نے ایک سال سے زائد عرصہ پہلے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔ اگرچہ اس میں ہونے والا جانی نقصان کہیں کم ہے لیکن یہ ایک کمزور دلاسا ہے کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ دہشت گرد ایک واضح پیغام دینا چاہتے تھے اور اس مقصد میں وہ کامیاب رہے ہیں:۔
’’یہ واحد پیغام یہ ہے کہ ملک کا مقتدر طبقہ ایک بار پھر انتہا پسندوں کے نشانے پر ہے۔ ایک بار پھر فوجیوں، سیاستدانوں، کاروباری شخصیات اور تعلیم کے شعبے میں چوٹی کے ماہرین کے بیٹے اور بیٹیاں موت کا شکار ہوئے ہیں‘‘۔
فلوریان وائیگانڈ کے مطابق معمول کے دہشت پسندانہ حملوں پر مقتدر حلقوں کا عمومی ردعمل ہمدردی اور افسوس کے بیانات تک ہی محدود رہتا ہے۔ دہشت گرد جانتے ہیں کہ حقیقی رد عمل تب نظر آتا ہے، جب مقتدر طبقوں کے اپنے مفادات پر زَد پڑتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گرد چاہتے کیا ہیں؟ غالباً اُن کے اس طرح کے حملوں کا تعلق نواز شریف حکومت کے اُس نئے کردار سے ہے، جو وہ خطّے میں امن کے قیام کے سلسلے میں ثالثی کے لیے ادا کر رہی ہے۔
آج کل پاکستان، افغانستان، امریکا اور چین افغان طالبان کو پائیدار امن کی جانب لانے کے امکانات پر غور کر رہے ہیں۔ نواز شریف شیعہ سنّی تنازعے کے خاتمے کے لیے سعودی عرب اور ایران کے دورے سے بھی حال ہی میں لوٹے ہیں۔ باچا خان یونیورسٹی پر حملہ ایسے لوگوں کی کارستانی ہو سکتا ہے، جن کی آنکھوں میں نواز شریف حکومت کا یہ نیا کردار کانٹا بن کر کھٹک رہا ہے۔
ان کے مطابق پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد فوج نے ایک بڑے آپریشن کا تو آغاز کیا، پھانسیوں پر بھی پھر سے عملدرآمد شروع ہو گیا لیکن اب ایک بار پھر پیچھے نظر ڈال کر دیکھا جائے تو فوج اور حکومت کے اس جوابی اقدام کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے، جیسا کہ باچا خان یونیورسٹی پر تازہ حملے سے ثابت ہوتا ہے۔
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کے مطابق دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے دوران اصل اہداف سے صرفِ نظر کیا جا رہا ہے۔ مذہبی مدرسے، جہاں سے نئے دہشت گرد بھرتی کیے جاتے ہیں، بدستور اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اُنہیں باہر سے ملنے والے مالی وسائل کے آگے بھی بند نہیں باندھا گیا۔
تبصرہ نگار لکھتے ہیں کہ اسی طرح سیکرٹ سروس آئی ایس آئی کو بھی راہ پر لانے کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا، جس کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ پورے خطّے میں اسلامی انتہا پسندی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہے اور جمہوری حکومت کے راستے میں باقاعدگی کے ساتھ رکاوٹیں کھڑی کرتی رہتی ہے۔
تبصرہ نگار کے خیال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ خاص طور پر ملک کے مقتدر طبقے واضح طور پر مزاحمت کریں۔ برصغیر میں صدیوں سے جو لبرل اسلام رائج چلا آ رہا ہے، مقتدر طبقے گھر کی چار دیواری کے اندر تو اُس پر عمل کرتے ہیں لیکن باہر کھلے عام اُس کا پرچار نہیں کرتے۔
فلوریان وائیگانڈ کے مطابق یہ طبقے ایسا اس لیے نہیں کرتے کیونکہ وہ توہینِ مذہب کے قوانین کی زَد میں آنے یا دیگر سو طرح کے استحصالی رویوں کا نشانہ بننے سے ڈرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان معاملات پر کھل کر بحث کی جائے اور واضح طور پر بتایا جائے کہ انتہا پسندی کی جڑیں کیسے ہر گھر کے آس پاس ہی موجود ہیں۔ ایسا نہ کیا گیا تو دہشت گردی کو بھی ختم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
One Comment