چار سدہ میں باچا خان یونیورسٹی میں قتل عام ، جس میں بیس افراد ہلاک ہو ئے تھے،کے بعد پاکستانی طالبان کے ایک رہنما نے ایک ویڈیو میں ملک کے تمام تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔
طالبان کمانڈر عمر منصور نے اپنی اس ویڈیو میں واضح الفاظ میں کہا:’’ اب ہم فوجیوں کو چھاؤنیوں میں نشانہ نہیں بنائیں گے، نہ ہی عدالتوں میں وکلاء پر اور پارلیمان میں سیاستدانوں پرحملے کیے جائیں گے بلکہ ہم اس بنیاد کو ہلائیں گے، جہاں پر ان سب کو تیار کیا جاتا ہے، یعنی اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو‘‘۔
اس موقع پر منصور کے اطراف چند دہشت گرد بھی موجود ہیں، جن میں تین کے چہرے چھپے ہوئے ہیں۔
اس ویڈیو سے طالبان کی قیادت میں اختلافات اور بھی نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں۔ کیونکہ طالبان کے ترجمان محمد خراسانی نے اپنے بیان میں باچا خان یونیورسٹی پر حملے میں طالبان کے ملوث ہونے کو مسترد کیا تھا۔ خراسانی نے اس طرح کی کارروائی کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔
تاہم اسی روز عمر منصور نے رائٹرز کو بتایا تھا کہ اس کے جنگجوؤں نے یونیورسٹی کو نشانہ بنایا تھا کیونکہ یہاں پر نوجوانوں کو فوج اور سرکاری اداروں میں نوکریوں کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
منصور کا شمار مُلا فضل اللہ کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے، جو تحریک طالبان کا سربراہ ہے۔
عمر منصور اور محمد خراسانی کے ایک متضاد بیان جاری کرنے کی وجہ ابھی تک غیر واضح ہے۔ تاہم اس سے یہ اشارہ ضرور ملتا ہے کہ طالبان کی قیادت تقسیم کا شکار ہے اور تنظیم میں ٹوٹ پھوٹ جاری ہے۔ عمر منصور کے بقول’’ اللہ کے فضل و کرم سے تمام جامعات اور اسکولوں پر حملےجاری رہیں گے‘‘۔
اگر آپ ہمارے بچوں اور خواتین کو ماریں گے تو پھر آپ کے بچے بھی بچ نہیں سکیں گے ،اس کا انتقام لیا جائے گا۔ مُلا منصور نے کہا
اس ویڈیو میں چار حملہ آور بھی موجود ہیں، جن میں دو نو عمر دکھائی دیتے ہیں۔ ان افراد کو چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی تیاری کرتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کو تیز کر دیا گیا تھا۔ اس دوران اب تک سینکٹروں مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد پاک فوج کے وہ تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں کہ جس میں کہا جاتاہے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔سوشل میڈیا پر آپریشن ضرب عضب کی کارگردگی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد ، جس میں ڈیڑھ سوطالب علم اور سٹاف کے لوگ مارے گئے تھے، بلند وبانگ دعوے کیے گئے تھے ، نیشنل ایکشن پلان کا شوشا بھی چھوڑا گیا تھا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست ابھی تک دہشت گردی کو ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ریاست صرف دہشت گردوں کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے تاکہ ان سے اپنی مرضی کا کام لیا جا سکےاور انہی دہشت گردوں کو نشانہ بناتی ہے جو سیکیورٹی اداروںکی حکم عدولی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کالعدتنظیموں کے ارکان کسی روک ٹوک کے بغیر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
♦