تہران حکومت اس وقت سعودی عرب میں شیعہ اقلیت کے ساتھ ناروا سلوک کی آواز بلند کیے ہوئے ہے لیکن خود ایران سُنی اقلیت کے خلاف امتیازی سلوک جاری رکھے ہوئے ہے اور درجنوں سُنیوں کو پھانسی کی سزائیں سنا چکا ہے۔
تہران حکومت غصے میں ہے کہ سعودی عرب اپنے ملک میں شیعہ اقلیت کا تعاقب جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہفتے کی شب شیعہ مذہبی رہنما النمر کی پھانسی کے بعد ایران بھر میں احتجاجی مظاہروں کا طوفان امڈ آیا لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ایران خود اپنے ملک میں سُنی اقلیت کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔
ایران میں سُنی قیدیوں کے لیے مہم چلانے والی تنظیم آئی سی ایس پی آئی کے مطابق اس وقت ایران کی صرف رجائی شہر جیل میں 27 سنی قیدی اپنے سزائے موت پر عملدرآمد کے انتظار میں ہیں۔
ایران میں شیعہ عقیدے کو سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہے اور ہر دس ایرانیوں میں سے نو کا تعلق شیعہ عقیدے سے ہے۔ اس ملک میں سنیوں کی تعداد تقریباً دس فیصد بنتی ہے جبکہ دیگر اقلیتوں میں مسیحی، یہودی اور دیگر گروپ شامل ہیں۔
ایرانی کے مشہور صحافی اور مصنف بهمن نیرومند کے مطابق ایرانی آئین تو سُنیوں کو برابر کی آزادی فراہم کرتا ہے اور ایرانی وزارت خارجہ بھی یہی کہتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ڈی ڈبلیو سے ان کا گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’عملی طور پر ایران میں سُنی اقلیت کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔‘‘
آئی سی ایس پی آئی کے مطابق، جن ستائیس سُنیوں کو سزائے موت سنائی گئی ہے، ان کو قومی سلامتی کے خلاف جرائم کا مرتکب ٹھہرایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان پر ’’خدا سے دشمنی‘‘ کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق ان قیدیوں کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے سُنی عقیدے کی تبلیغ کی اور اسی عقیدے کی کتابیں تقسیم بھی کیں۔
تہران میں سُنی مساجد پر ’پابندی‘
اعداد و شمار کے مطابق ایران بھر میں سنی عقیدے والوں کی مساجد کی تعداد تقر یباً دس ہزار بنتی ہے جبکہ شیعہ عقیدے والوں کی مساجد تقریباً ستر ہزار ہے۔ اگر تناسب کے لحاظ سے دیکھا جائے تو سنیوں کی مساجد کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ لیکن حقیقت میں ان کو پابندیوں کا سامنا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا اپنی سن دو ہزار پندرہ کی سالانہ رپورٹ میں تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دارالحکومت تہران میں کسی بھی سنی مسجد کی تعمیر پر عملاً پابندی ہے جو کہ مذہبی آزادیوں کے برخلاف ہے۔
فرانسیسی ٹیلی وژن فرانس24 کا حال ہی میں دو ایرانی سنیوں کے انٹرویو جاری کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہیں خفیہ کمروں میں نماز ادا کرنا پڑتی ہے کیوں کہ وہ شیعہ مسجد میں نماز نہیں ادا کرنا چاہتے اور حکام کو پتہ چلتے ہی اس طرح کی ایک عبادت گاہ کو مسمار کر دیا گیا۔ اس انٹرویو کے مطابق، ’’بعض سخت گیر شیعہ یقین رکھتے ہیں کہ شیعہ اکثریتی ملک میں سنیوں کواپنی مسجد بنانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔‘‘
اسی طرح دوسرے شعبوں میں بھی سنی اقلیت کو امتیازی سلوک کا سامنا رہتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سول سروس اور سیاسی سطح پر بھی سُنیوں کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ سن دو ہزار تین میں اٹھارہ سنی اراکین پارلیمان نے ایران کے روحانی پیشوا کے نام ’کھلا خط‘ لکھا تھا کہ ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق ایران میں پہلی مرتبہ سن دوہزار پندرہ میں کسی سنی عقیدت کے حامل شخص کو سفارتکار بنایا گیا ہے۔
DW