اسد اللہ بلوچ
صحافت کسی بھی سماج میں انسانی شعور و تربیت اور علم آگاہی کے لئے ایک کامیاب ستون کے طور پر تسلیم شدہ ہے جو پروپیگنڈہ مہم کے زریعے حقائق کو لے کر واقعات کی منظرکشی کرتا ہے ۔ انسانی سماج میں گرد وپیش کے حالات، تغیر و تبدل اور روز مرہ واقعات کو آشکار کرانے یا سماج میں لا کر وہاں رہنے والے انسانوں کو باخبر رکھنے میں صحافت ایک ذمہ دار ادارہ کے طور پر قابل بھروسہ ہے جس کی ضرورت ہر سماج یا ہر سماج میں رہنے والے انسانوں کو ہے ۔
میڈیا نے موجودہ دورمیں نہ صرف اپنے وجود کو منوایا ہے بلکہ ریاست سے لے کر ریاست کے تمام اداروں پر اپنی اہمیت اور طاقت ثابت کردی ہے ۔ ترقی یافتہ دنیا میں میڈیا آزادانہ انداز میں خبروں سے لے کر اہم اور بڑے مسائل پر رائے زنی کرنے اور تجزیہ سامنے لانے میں بڑی حد تک آزاد ہے جس کے سبب وہاں لوگ حالات و واقعات سے باخبر ہوتے ہیں ۔
اس کے برعکس ترقی پذیر ممالک یا غیر آزاد ریاستوں میں جہاں آزادی کی تحاریک چل رہی ہیں میڈیا پابند سلاسل ہے یا ریاست کی پالیسیوں کو لے کر قومی ایشوز پر ریاستی پروپیگنڈہ مہم کا قابل بھروسہ حصہ بنا ہوا ہے ۔خاص طور پرپاکستانی میڈیا کا کردار بلوچستا ن میں مکمل طور پر ریاست کی پابند ایک ادارے کی طرح ہے جو بلوچستان کے ہر معاملے میں ریاست کی ہم آواز نہیں بلکہ ریاست اور ان کے سیکیورٹی اداروں کے بنائی گئی پالیسیوں پر چل رہی ہے جس کے سبب وہاں کے حالات اور لوگوں کو درپیش مسائل پاکستانی میڈیا میں مکمل نظر اندازہیں بلکہ میڈیا بلوچستان کے معاملات پر گونگا، بہرہ اور اندھا بن گیا ہے۔
اسی لئے اس ضرورت امرکی ہے کہ بلوچستان کی سطح پر بلوچ معاملات کو لے کر ایک ایسی توانا آواز میڈیا کی صورت میں موجود ہو جو نہ صرف مقامی لوگوں کی تعلیم و تربیت کا باعث ہو بلکہ ریاستی پروپیگنڈہ مہم کا بھی ایک موثر جواب ہوتاکہ یہاں ہونے والے تمام ظلم و ستم ، زیادتیوں اور آئے روز وقوع پذیر ہونے والے انسانی المیوں کو سامنے لائے یا اکم ازکم بلوچستان کے حالات کو صحیح صورت میں پیش کرسکے۔
بلوچستان میں چونکہ پاکستانی میڈیا کا کبھی بھی موثر کردار نہیں رہا ہے ماسوائے چند ایک صحافیوں یا چند ایک غیر جانبدار میگزین یا آن لائن اخبارات و رسائل کے جو سو میں سے آدھے واقعات کو کانٹ چھانٹ کے بعد کچھ نہ کچھ حد تک بہتر بنا کر پیش کرتے یا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلوچستان کی خبروں یا حالات پر غیر جانبدار تجزیے کی کوشش میں معروف سماجی کارکن سبین محمودکا قتل حیران کن نہیں کیوں کہ بلوچستان میں موجودہ مسلح بغاوت کے بعد سے اب تک تقریبا دو درجن مقامی صحافیوں کو قتل کیا جاچکا ہے جن کی لاشوں پر نوحہ کرنے والے بھی نہ دکھائی دیئے ۔
کچھ مدت پہلے بلوچستان میں روزنامہ توار اور روز نامہ آساپ ایک توانا صورت میں موجود تھے جوبلوچستان کے عوام کو حقائق سے باخبر رکھنے میں انتہائی ہمت کے ساتھ اپنا کردار ادا کررہے تھے لیکن سکیورٹی اداروں کی دباؤ ، ڈراؤ اور دھمکیوں کی وجہ سے روزنامہ آساپ نے اپنی اشاعت اعلانیہ طور پہ روک دی حتیٰ کہ روزنامہ آساپ کے ایڈیٹر انچیف اور مالک سابق بیوروکریٹ جان محمد دشتی پر حملہ کیاگیا جس میں وہ ایک آنکھ سے معذور ہوگئے ۔
آساپ کے علاوہ روزنامہ توار کا صحافتی کردار نہ صرف بلوچستان کے حالات اور یہاں کے عوام کے مسائل پر زیادہ موثر اور قابل بھروسہ تھا بلکہ دیگر صحافتی اداروں کے برعکس روزنامہ توار واحد اخبار تھا جو اپنی آزادانہ ساکھ اور غیر جانبدارانہ صحافتی کردار کی سلامتی کے لئے ریاستی یا غیر ریاستی اشتہارات کے بغیر اپنی اشاعت ممکن بنائے ہوئے تھا ۔روزنامہ توار نے تمام تر سنگین دھمکیوں، لالچ و مراعات، متعدد بار اخبارات کی کاپیاں دور دراز علاقوں میں ترسیل روکنے اور بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں خفیہ اداروں کی طرف سے زبردستی سرکولیشن روکنے کے باوجود بلوچستان میں صحافت کو نئی شکل اور جدید انداز میں سامنے لانے کی کوشش کی۔
اس دوران روزنامہ توار کےکئی کارکنوں کی قیمتی جانیں بھی گئیں، لیکن ان کی غیر جانبداری، علاقائی و لسانی تعصب خبروں کی اشاعت پر آنچ نہ آئی۔ روزنامہ توار نے بلوچستان کے عوام کی حالت زارکو آشکار کرنے اور سرکار وریاست کی بلوچستان کے معاملے میں کی جانے والی پروپیگنڈہ کو طشت ازبام کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔اشتہارات اور سرکاری مراعات و لالچ کے بغیر غالباً اپنے دس سالہ صحافتی سفر میں روزنامہ توار کو کئی بڑے مسائل اور مشکلات پیش آئیں کئی دفعہ آفس کو نذرآتش کیا ۔
اس دوران وقفے وقفے سے متعدد بار ان کی اشاعت کا سلسلہ رکتا رہا اور دوبارہ شائع ہوتا رہا، مگراب یہ ایک المیہ سے کم نہیں کہ گذشتہ ڈیڑھ سال سے روزنامہ توار کی انتظامیہ نے کراچی سے باہر اخبار کی ترسیل بند کردی تھی اور اب گذشتہ چھ ماہ سے روزنامہ توار کی اشاعت مکمل طور پر بند کردی گئی ہے اور یوں بلوچستان میں صحافت کا ایک اہم ستون اور توانا آواز غائب ہوگئی ہے ۔جس کا سبب بھی ادارہ کی طرف سے نہیں بتایا گیا ۔
اس وقت بلوچستان بھر میں روزنامہ توار کی اشاعت ڈیڑھ سال سے رکی ہوئی ہے البتہ ان کا آن لائن ایڈیشن ویب سائٹ پر موجود ہے جو بھر پور انداز میں صحافت کے اصولوں پر کاربند ہے لیکن افسوس ناک امر ہے کہ بلوچستان میں انٹرنیٹ ہر کسی کی دسترس میں نہیں اس لئے روزنامہ توار بھی اب ہر کسی کے دسترس میں نہیں جو بلاشبہ تعلیم و تربیت اور حقائق کی منظر کشی کے لئے بلوچ عوام کی ضرورت ہے اور بلوچ تحریک یہاں کے ظلم و ستم اور جبر کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا واحد ذریعہ بھی ہے۔
♣