تنازعات اور اس کا حل۔دوسری کڑی

kamrani

ڈاکٹر سنتوش کامرانی

پچھلے ہفتے دی گئی تفصیل کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ تنازعات کا رونما ہونا ایک حقیقت ہے ۔یہ حقیقت واضح ہونے کے بعد دوسرا مرحلہ ان کے حل کا ہے۔ کسی بھی تنازعے کو حل کرنے کے لیے اس کا تجزیہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اس تجزیے کی روشنی میں ہم کسی تنازعے کی اہمیت، نوعیت اور پس منظر کے بارے میں جان سکتے ہیں، جن کو دو اہم حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔

عارضی نوعیت کا تنازعہ

کوئی انسان کامل نہیں ہوتا۔ ہر انسان میں کمزوریاں ہوتی ہیں۔ ان کمزوریوں کی بناء پر معنوی رابطے کا فقدان پیدا ہوسکتا ہے، یا رابطے میں رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ مثلاً کسی اجلاس میں کوئی ممبر اچانک غصہ ہوسکتا ہے اور غصے کی حالت میں دوسروں کو برا بھلا کہہ سکتا ہے۔

ایسے تنازعات کا حل یہ ہے کہ جذباتی فرد کو پانی پلایا جائے اور اس نکتے کو عارضی طور پر روک لیا جائے جو تنازعے کا حل نہیں ہے۔ غصہ مسائل کو جنم دے سکتا ہے، مسائل کبھی حل نہیں کر سکتا۔ لہذا اس بات کو اصولی طور پر مان لینا چاہیے کہ اگر دو افراد کے درمیان گفتگو کے دوران ایک غصہ ہو جائے تو دوسرے کو کبھی بھی غصہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں خاموشی کو بہترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

دائمی نوعیت کا تنازعہ

بعض تنازعات عارضی نوعیت کے نہیں ہوتے بلکہ ان کے پس منظر میں ایک لمبی تاریخ ہوتی ہے جس کی جڑیں مذہبی، سیاسی، لسانی، اقتصادی یا نظریاتی عقائد میں ہوتی ہیں۔ ایسے تنازعات کو حل کرنے کے لیے علم وشعور کے ساتھ ساتھ عقل وتجربہ بھی ضروری ہیں۔ یہاں چند ایک بنیادی نکات کو شعور کی گہرائیوں سے سمجھنا بہت ضروری ہے۔

۔1۔ مذہبی عقائد صدیوں پرانی روایات سے تشکیل پاتی ہیں جو ہمارے معاشرے میں کسی فرد کی شخصیت کا اہم جزو ہوتے ہیں۔ ان کو دلیل برائے دلیل کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنا بےثمر ثابت ہوگا۔ لہذا علم و شعور، عقل و تجربہ میں اس کا حل یہ ہے کہ ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کیا جائے۔

۔2۔ گفتگو کے دوراں ایسے نکات سے گریز کیا جائے جو دوسروں کے عقائد کے منافی ہوں۔ یہی انسانیت کی پہچان ہے۔

۔3۔ انسان اپنی تعلیمی اور خاندانی پس منظر کے نتیجے میں کسی شخصیت سے محبت کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ گفتگو کے دوران اس شخصیت کا احترام کیا جائے جن کے ساتھ ہمارے مخاطب کی روحانی یا جذباتی وابستگی ہو۔

۔4۔ کسی انسان کے فطری نقص کو تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز کیا جائے اور اس بات کو اصولی طور پر تسلیم کیا جائے کہ کوئی بھی انسان نقص سے پاک نہیں ہوتا۔

۔5۔ گفتگو کے دوران ان رویوں سے گریز کیا جا ئے جو غرور، تکبر، مذہبی، خاندانی، لسانی، گروہی یا جنسی برتری کی طرف اشارہ کرتے ہوں۔

۔6۔ لسانی اشاروں کا استعمال موئثر اور نتیجہ خیز انداز میں کیا جا ئے اور گفتگو کا لہجہ احترامِ آدمیت سے لبریز ہو۔

ان اصولی باتوں کے علاوہ چند ایک جزیات کو مدنظر رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ کسی فرد یا افراد کے ساتھ گفتگو کا آغاز کرنے سے پہلے ان کے بارے میں پیشگی ٹھوس معلومات حا صل کرنا ضروری ہے تاکہ ہم ان کے روایات، عقائد، پسند، نا پسند اور مذہبی حقائق کے بارے میں اندازہ کر سکیں۔

بعد ازتنازعات صورتحال

اگرتنازعہ رونما ہوجائے تو بحثیت ذی عقل وشعور اور ذی علم مخلوق ہمیں چاہیے کہ تنازعے کو حل کریں اور اگر تنازعہ ہماری اپنی کسی غلطی سے رونما ہو جائے تو فوراً معافی مانگ کر معاملے کو حل کیا جائے، نہ کہ ضد کے راستے کو اپنا کر معاملے کو طول دیا جائے۔ اگر غلطی کسی دوسرے سے سرزد ہو جائے تو معاف کرنے کے اصول کی پیروی کی جائے نہ کہ اپنی انا پرستی کو ہوا دی جائے۔ یہی اچھے لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے۔

اگر تنازعہ دو گرہوں کے درمیان ہو تو اپنی تمام لسانی، علمی اور عقلی وسائل کو دو گروہوں یا اداروں کے درمیان صلح کرنے پر صرف کیا جائےاور کسی تیسرے فریق کو بطور ثالث مقرر کر کے ان کی مدد کی جائے۔ لیکن یہ بات ذہن نشین کر لینی چا ہیے کہ یہ ہمارا اخلاقی اور مذہبی فریضہ ہے۔ اس سیاق میں انبیاء صوفیاء شعرا اور علمی شخصیات کی زندگی کے حالات وواقعات کو بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کی مذہبی تاریخ میں چند ایک بنیادی واقعات کا حوالہ ضروری ہے۔

٭ نبی آخر زمان حضرت محمد صلعم مخالفوں سے زخم کھانے کے بعد بھی ان کے حق میں دعا فرماتے رہے جس کو رہنما اصول کے طور پر اپنایا جا سکتا ہے۔

٭ مولانا روم ایک دفعہ راستے سے جا رہے تھے۔ ایک شخص نے راستہ روک کر کہا کیا تم اچھے ہو یا کتا؟تو مولانا نے کچھ دیر سوچنے کے بعد فرمایا اگر ایمان کے ساتھ مر جاوں تو میں اچھا ہوں لیکن ایمان کے بغیر مر جاوں تو کتا اچھا ہے۔

٭ ایک مست نے بایزید بسطامی کے سر پر بربط مارنے کی کوشش میں اپنے آلے کو بھی توڑا اور خود اپنے سر کو بھی زخمی کیا۔ بایزید دوسرے دن کچھ درہم لے کر ان کے پاس تشریف لے گئے تا کہ اپنے زخم کی مرہم پٹی کروائے اور اپنے لیے نیا بربط خریدے۔

قرآن پاک میں واللہ مع الصبرین” ( خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) کو بار بار دہرایا گیا ہے۔ صبر کا مظاہرہ زندگی کے ان لمحوں میں کرنا چا ہییے جن لمحات میں ہم حق پر ہوں اور دوسرے نا حق پر۔

خود شناسی و خود سازی

موئثر اور بامعنی زندگی گزارنے کا مرحلہ خود شناسی سے شروع ہوتا ہے اور خود سازی کا عمل مرتے دم تک جاری رہتا ہے۔ خود شناسی یہ ہے کہ میں انسان ہوں اور انسان میں خامیاں ہوتی ہیں لہذا مجھ میں بھی خامیاں ہیں۔ دوسروں کی خامیاں گنوانے سے پہلے اپنی خامیوں سے آگاہی اور ان کا شمار عقلمندی ہے۔ اسی طرح کوئی بھی ادارہ یا معاشرہ خامیوں سے پاک نہیں ہوتا۔

کسی ادارے یا معاشرے کی خامیوں کو طشت ازبام کرنے سےپہلے اپنے ادارے یا معاشرے کی خامیوں کی اصلاح خود شناسی کا دوسرا اہم مرحلہ ہے۔ ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہم دوسروں کی غلطیوں کی اصلاح پر کبھی توجہ نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نت نئے تنازعات جنم لیتے ہیں لیکن ان کو حل کرنے کی کوشش کی ہی نہیں جاتی ،یا اگر کی جاتی ہے تو اس میں سنجیدگی کا عنصر کم دیکھنے کو ملتا ہے۔

خود سازی کا تقا ضا ہے کہ ہم بحیثیت فرد، ادارہ یا تنظیم اپنی غلطیوں پر توجہ دیں۔ ان کو شعوری طور پر سمجھنے اور دور کرنے کا سوچیں۔ اگر اس اصول پر عمل کرتے رہیں گے تو معاشرے میں تنازعات کو کم سے کم کرنے میں مدد ملے گی۔

خلاصہ

زندگی ایک مسئلہ ہے، ایک تنازعہ ہے۔ اس تنازعے کا حل ہمارے پاس ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم عقل و شعور اور علم و تجربےکو بطور ہتھیار استعمال کرکے اس مسئلے کا موئثر اور دیرپا حل ڈھونڈ سکتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو مسئلہ ددسرے مسائل کو جنم دے گا، جس کے اثرات مختلف ہونگے اور وہ کبھی ہمیں معاف نہیں کریں گے۔

Tags:

One Comment