بھارتی پریس سے۔۔۔غضنفر علی خان
پٹھان کوٹ جیسے حساس علاقہ میں واقع انڈین ایئرفورس کے بیس پر دہشت پسندوں کا حملہ اور متواتر تقریباً 6 دن تک جاری سیکورٹی فورسز کی لڑائی جس میں بارڈر سیکورٹی فورس نیشنل سیکورٹی گارڈ اور فوج نے حصہ لیا ، ہر اعتبار سے ایک تشویشناک بات ہے ۔ حملے میں پاکستان کے تربیت یافتہ دہشت پسندوں کی شرکت بھی اظہر من الشمس ہے جس کے واضح اور مکمل ثبوت بھی ہندوستان نے پاکستان کے حوالہ کردیئے ہیں ۔
وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کا ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی سے ٹیلی فون پر بات چیت اور یہ وعدہ کہ اس اندوہناک واقعہ کی وہ چھان بین کریں گے اس بات کا ثبوت ہے کہ نواز شریف کو یہ اگر معلوم نہیں تو اس بات کا اندازہ ضرور ہے کہ لشکر طیبہ ، جیش محمد اور ایسی ہی کئی انتہا پسند تنظیموں پر مشتمل متحدہ جہادی محاذ نے یہ بدبختانہ کارروائی کی ہے ۔
پاکستانی دہشت گرد زمینی راستے سے ہندوستانی پنجاب کی سرحد سے جو عام طور پر اسمگلنگ کے لئے استعمال کی جاتی ہے انڈین ایرفورس کے اڈہ میں داخل ہوئے تھے ۔ اس بات کا اعتراف تو ہمارے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے بھی کیا ہے کہ پٹھان کوٹ پر حملہ کے دفاع میں کئی خامیاں ہوئی ہیں ۔ اس مقابلہ میں نیشنل گارڈ کمانڈو کے بشمول فوج کا عہدہ دار اور پانچ سیکورٹی کے جوان مارے گئے ۔ مذکورہ کمانڈو ایک دہشت پسند کو پکڑنے کی کوشش میں ہلاک ہوا ہے ۔ 3 دن قبل تک بھی دو دہشت گرد ایک عمارت میں چھپے ہوئے تھے ۔
یہ بھی غلطی ہوئی کہ نیشنل سیکورٹی گارڈ کو حملہ کے چار دن بعد تک بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ حملہ آوروں کی تعداد کیا تھی ۔ ابتداء میں کہا گیا تھا کہ ’’تمام چار انتہا پسند ہلاک کردئے گئے‘‘ ۔ بعد میں پتہ چلا کہ ابھی دو حملہ آور عمارت میں چھپے ہوئے ہیں ۔ چوتھے دن کے بعد اعلان کیا گیا کہ جملہ 5 حملہ آور ہلاک ردئے گئے ہیں ۔ چھٹے کی تلاش جاری ہے ۔ دہشت پسندوں کے کسی حملہ سے نمٹنے کے لئے ایسی حکمت عملی اگر اختیار کی جائے تو ظاہر ہے کہ مقابلہ کرنے والوں کو عملی طور پر کئی دشواریاں ہوئی ہوں گی ۔
وزیر دفاع منوہر پاریکر نے یہ بھی کہا کہ ایسی خامیاں اس سچائی کے باوجود ہوئی ہیں کہ ہندوستانی انٹلیجنس ایجنسیوں نے ممکنہ حملہ کی قبل از اطلاع دی تھی ۔ تاہم سیکورٹی کے عہدہ داروں نے اس اعتراض کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ حملہ سے نمٹنے میں اصل غلطی یہ ہوئی کہ ’’خود حکومت نے پٹھان کوٹ کی صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لئے فوج کے اس شعبہ کو خبردار کرنے میں تاخیر کی جو مخالف دہشت گردی کاموں کے لئے مہارت رکھتا ہے۔
جبکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ فوج ایسی کارروائیوں کے لئے ایک خصوصی اسکواڈ بھی رکھتی ہے ۔ جو نزدیکی ہماچل پردیش میں مقیم ہے ۔ اس قریبی ذریعہ کو استعمال کرنے کے بجائے حکومت نے دہلی سے نیشنل سیکورٹی گارڈز کی خدمات حاصل کی حالانکہ یہ این ایس جی ایسی صورتحال سے نمٹنے میں مہارت نہیں رکھتا ہے ۔ پٹھان کوٹ پر حملہ کی تفصیلات سے واقف حلقوں کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں یہ تحقیقات بھی کی جانی چاہئے کہ آیا بی ایس ایف بارڈر سیکورٹی فورس سے کہیں کوئی کاہلی تو نہیں ہوئی ہے ورنہ یہ حملہ اور اس کے خلاف پوری کارروائی کے لئے تقریباً ایک ہفتہ کا وقت نہیں لگتا ۔
ان ماہرین کا اعتراض یہ بھی ہے کہ خود پنجاب پولیس نے کیسے دہشت گردوں کو وہ راستہ اختیار کرنے کی مہلت دی جو منشیات ناجائز طور پر لانے والے گروہوں کے استعمال میں عام طور پر ہوتا ہے ۔ اس حملہ کی اطلاع مقامی پولیس سپرنٹنڈنٹ سلویندر سنگھ نے دی تھی جو سب سے پہلے دہشت گردوں کے ہاتھ لگے تھے۔
انھوں نے اس کی اطلاع اعلی عہدہ داروں کو دی لیکن ان کی اطلاع کو غیر اہم سمجھ کر فوراً کارروائی نہیں کی گئی ۔ اپنی اطلاع میں سلویندر سنگھ نے یہ بھی کہا تھا کہ جن دہشت گردوں نے انھیں پکڑا تھا ان کے پاس اے کے 47 رائفلز اور دیگر اسلحہ تھے ۔ کیوں ان کی اطلاع کو اہمیت نہیں دی گئی ۔ ان رائفلز کے علاوہ دہشت گردوں کے پاس 4 درجن میگزین اور مارٹر بھی تھے ۔
یعنی ان کے مذموم عزائم کا اس اطلاع کے بعد پتہ ہوجانا چاہئے تھا ۔ پھر کیسے یہ مٹھی بھر دہشت گرد اپنے ٹارگٹ تک آسانی سے پہنچ گئے ۔ وزیر خزانہ نے جو ہر مسئلہ پر اظہار رائے کو اپنا حق سمجھتے ہیں کہا کہ کوئی بھاری نقصان ہمارے دفاعی اڈہ پر نہیں ہوا جس کی وجہ یہ تھی کہ حملہ کی قبل از وقت اطلاع مل چکی تھی ۔
وزیرخزانہ ارون جیٹلی کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے اہم فضائی اڈہ پر حملہ ضرور ایک سنگین واردات ہے ۔ نقصان بڑا یاچھوٹا نہیں ہوتا سب سے پہلی بات تو ہے کہ کیسے چند افراد کا یہ گروہ ہماری سرحدوں کے پاس واقع اڈہ تک پہنچ سکا۔ پاکستان کے اس وعدہ پر بھروسہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے کہ وہ اس سانحہ کی تحقیقات کرے گا اور ملزمین کو مناسب سزا دے گا ۔
ایسے وعدے تو پاکستان کئی برسوں سے کررہا ہے ۔ ممبئی حملوں کے ذمہ دار حافظ سعید پاکستان میں آزادی کے ساتھ گھوم پھر رہے ہیں ۔ جہادی نعرہ بازی سے پاکستانی عوام کو گمراہ کررہے ہیں ۔ ذکی الرحمن لکھوی کا بھی پاکستانی حکومت کچھ نہ بگاڑ سکی ۔ اب اس مرتبہ کیا توقع کی جاسکتی ہیں کہ وزیراعظم پاکستان اور ہندوستانی وزیراعظم کے درمیان جو ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی اس یقین دہانی پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ۔
اس گفت و شنید کے دوران اگرچہ وزیراعظم نریندر مودی نے نواز شریف سے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا کہ پٹھان کوٹ پر حملہ کے سلسلہ میں پاکستان کو سخت اور فوری اقدامات کرنے چاہئے ۔ کوئی دوسرا موقع ہوتا تو شاید ہندوستان اتنی نرمی سے پیش نہیں آتا ، لیکن 25 دسمبر 2015 کو وزیراعظم نریندر مودی دورہ لاہور کے بعد ایک نیا ماحول دونوں ممالک میں پیدا ہوا ۔ اس کے نتیجہ کے طور پر نئے سال یعنی 15 جنوری کو دونوں ممالک کے معتمدین خارجہ اسلام آباد میں ملاقات کرنے والے ہیں ۔
عام دنوں میں پٹھان کوٹ حملہ جیسا کوئی واقعہ ہوتا تو ہندوستان معاملہ سے نمٹنے میں اتنا نرم رویہ اختیار نہ کرتا ۔ وزیراعظم مودی کے اچانک دورہ لاہور نے برصغیر ہند ۔ پاک کی سیاسی فضا ہی بدل کر رکھ دی ہے ۔ غالباً یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی پاکستانی وزیراعظم ایسی سنگین واردات کے بعد خود سے ہندوستانی وزیراعظم کو ہاٹ لائن کے ذریعہ فون کیا۔
رہا کارروائی کرنے کا وعدہ وہ تو پاکستان ہمیشہ ہی کرتا رہا ہے ۔ پاکستان اس لئے وعدہ کرتا ہے کہ اس کو یقین کامل ہوتا ہے کہ وعدہ وفا کرنے کی کوشش تک نہیں کرے گا ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے اندر موجود جہادی عناصر اور وہاں کی انتہا پسند تنظیموں پر کیا واقعی حکومت کا کوئی کنٹرول ہے ۔ بات تلخ لگے گی لیکن یہ سچائی پچھلے کئی برسوں سے دیکھنے میں آئی ہے کہ پاکستان کی ہر منتخب حکومت پر ان منفی طاقتوں کا کنٹرول نہیں بلکہ دبدبہ رہا ہے ۔
جنرل ایوب خان کے دور سے آج تک یہ صورتحال نہیں بدلی ۔ انتہا پسند عناصر پاکستان میں جو چاہے کرسکتے ہیں ۔ حکومت ان کے آگے بے بس ولاچار ہو کر رہ جاتی ہے ۔ خود نواز شریف کو اس کا ذاتی طور پر تجربہ ہے کہ کس طرح 1999 میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل مشرف نے انھیں اقتدار سے زبردستی بیدخل کرکے جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور کردیا تھا ۔
نواز شریف اس معاملہ میں تنہا نہیں ہیں۔ پاکستانی فوج نے سابق خاتون وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو کو بھی اقتدار سے محروم کرکے وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا ۔ اب بھی یہ شکوک و شبہات باقی ہیں کہ ان تنظیموں ان کے متحدہ محاذ کو پاکستانی فوج کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ جہادیوں کے حملے (ہندوستان پر) پاکستانی حکومت کی دیدہ دانستہ تائید کے بغیر اور فوج کی سرپرستی کے بغیر نہیں ہوسکتے ۔ اگر نواز شریف فی الواقعی طاقتور وزیراعظم ہیں تو پٹھان کوٹ حملہ کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچا کر وہ ثابت کرسکتے ہیں کہ وہ ’’پاکستان کے طاقتور وزیراعظم ہیں‘‘ ۔
Daily Siasat Hyderabad, India