گلگت بلتستان۔ یہ لفظ آج کل اقتدار کی غلام گردشوں میں عام سنائی دینے لگاہے۔ایسا پاکستان چین اقتصادی راہدری کے منصوبے کے بعد ہوا ہے۔اس سے قبل بیشتر لوگوں کے لیے گلگت بلتستان گمنام دشوار گزار پہاڑی علاقے تھے جن کا کوئی مصرف نہیں تھا۔نصف صدی تک ان علاقوں کو اس طرح نظر انداز کیا گیا گویا ان کا وجود ہی نہ ہو۔نصف صدی کے دوران پاکستان میں بہت سیاسی اتھل پتھل ہوئی۔مارشل لاز لگے۔ جمہوریتیں ائیں۔مگر گلگت بلتستان کے بارے میں ساٹھ سالہ پرانی پالیسی پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
یہ پالیسی بھی پاکستان کی بیشتر بانجھ پالیسیوں کی طرح مسئلہ کشمیر پر استوار تھی۔ مسئلہ کشمیر نے یوں تو اس پورے خطے پر بہت ستم ڈھائے، مگر اس مسئلے کے نام پر جو ستم گلگت بلتستان کے عوام پر ڈھایا گیا تاریخ میں شاید ہی اس کی کوئی مثال موجود ہو۔تقسیم بر صغیر سے قبل گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا حصہ تھا۔مہاراجہ ہری سنگھ نے یہ علاقہ انگریزوں کو لیز پر دے رکھا تھا۔یکم اگست 1947کو جب یہ لیز ختم ہوئی تو مہاراجہ ہری سنگھ نے بریگیڈئیر گھنسار سنگھ کو گلگت بلتستان کا گورنر تعینات کر دیا۔
اکتوبر میں کشمیر میں رونما ہونے والے خون آشام واقعات کے بعد کشمیر تقسیم ہو گیا۔بریگیڈئر گھنسار سنگھ کو گرفتار کر کے پاکستان لایا گیا اور بعد میں رہا کر دیا گیا۔ابتدا میں گلگت بلتستان کو آزد کشمیر حکومت کی عملداری میں دے دیا گیا۔لیکن 1949 میں پاکستان نے ان علاقوں کو متنازعہ معاہدہ کراچی کے تحت اپنے کنٹرول میں لے لیا۔تب سے یہ علاقے براہ راست پاکستان کے زیر انتظام ہیں۔سابقہ ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہونے کے باعث ظاہر ہے یہ علاقے مسئلہ کشمیر کا حصہ گئے۔اور مسئلہ کشمیر کے نام پر یہاں کے عوام کو ابتلا کے ایک طویل دور سے گزرنا پڑا۔
ان کا شمار دنیا کے ان معدودے چند علاقوں میں ہوتا رہا جن سے اکیسویں صدی میں بھی ایک نو آبادی کا سا سلوک کیا گیا۔ان علاقوں کی نہ تو کوئی قانونی حیثیت متعین کی گئی، نہ ہی یہاں کے عوام کو جمہوری اور بنیادی انسانی حقوق دئیے گئے۔وجہ اس کی یہ بتائی جاتی رہی کہ چونکہ یہ علاقے مسئلہ کشمیر کا حصہ ہیں اس لیے ان میں کسی قسم کی تبدیلی مسئلہ کشمیر پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کے حالیہ دور میں ارباب اختیار یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی جمہوری حقوق دینے سے مسئلہ کشمیر پر کئی اثر نہیں پڑے گا جس کے بعد یہاں کے لوگوں کو کچھ ادھورے اور ناکافی حقوق حاصل ہوئے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کا یہ شائد اہم ترین کارنامہ تھا جسے تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔مگر اس سے گلگت بلتستان کے لوگوں کے نہ تو سارے دکھ دور ہوئے نہ ہی وہاں پہ ایسا قابل اعتبار ڈھانچہ قائم ہوا جو حقیقی معنوں میں بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق کی ضمانت دے سکے۔ اس کے بر عکس شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کی دوڑ وہاں بھی شروع ہو گئی۔مخالفین کی غدار قرار دینے اور پابند سلاسل کرنے کا عمل بھی۔پاکستان چین اقتصادی راہدری ان علاقوں کے لیے حقیقی معنوں میں گیم چینجر ثابت ہوئی۔اور تاریخ میں پہلی بار حکمران ان علاقوں کی آئینی و قانونی حیثیت کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور ہوئے۔
چنانچہ ان علاقوں کا نام اقتدار کی راجدھانیوں میں عام سنائی دیا جانے لگا۔ اس کے ساتھ ہی یہ آوازیں آنے لگیں کہ اگر گلگت بلتستان کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا گیا تو اس کے مسئلہ کشمیر پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ ایسی زیادہ تر آوازیں مظفرآباد اور سرینگر سے آرہی ہیں۔ مظفرآباد سے ان آوازوں میں ایک اونچی آواز اہل اقتدار کی بھی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کشمیر کو ہڑپ کرنے یا تقسیم کرنے کی سازش ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ ریاست جموں کشمیر 1947 میں ہڑپ بھی ہو گیا تھا اور تقسیم بھی۔اس سے زیادہ نہ تو کسی علاقے کو ہڑپ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی تقسیم۔ اب جہدو جہد ان علاقوں کو تقسیم یا ہڑپ ہونے سے بچانے کی نہیں بلکہ ان علاقوں کے عوام کے حقیقی جمہوری حقوق کی بحالی، شہری آزادیوں اور ملکیت کی بنتی ہے۔
زمین کے کسی بھی ٹکڑے پر حق ملکیت اور حق حکمرانی صرف ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو اس ٹکڑے کے اصل وارث اور مالک ہوتے ہیں۔ اس اصول کو ہم جدید پولیٹیکل سائنس میں آزادی یا خود مختاری کہتے ہیں۔ یہ انسان کا نا قابل چیلنج اور نا قابل تنسیخ حق ہے۔ اس اصول کے تحت یہ حق صرف اور صرف گلگت بلتستان کے عوام کا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔۔ مسئلہ کشمیر کا حصہ ہونے کے باوجود اٹھائیس ہزار مربعہ میل پر آباد یہ بیس لاکھ لوگ انسان ہیں۔اور مسئلہ کشمیر کا حصہ ہونے کے باوجود یہ انسان انسانی سلوک کے حقدار ہیں اور اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
مظفرآباد اور سرینگر کے لوگوں کا کردار اس ساری کہانی میں صرف اتنا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ گلگت بلتستان کے عوام پر کوئی فیصلہ ان کی مرضی کے بغیر نہ تھوپا جائے۔اگر ان کو آزادانہ اور جمہوری فیصلہ کرنے کا اختیار مل جائے ، اگر وہ جذبات سے اوپر اٹھ سکیں، اگر وہ ماضی کے اسیر نہ بنیں،تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ وہ فیصلہ کریں گے کہ وہاں پر آزاد کشمیر طرز پر ایک سیٹ اپ قائم کیا جائے جس کے تحت یہاں کے عوام کو حقیقی معنوں میں سیلف رول کا اختیار حا صل ہو۔یہاں پر ایک سچی جمہوری حکومت قائم ہو اور عوام کو ان کا غیر مشروط حق حکمرانی لوٹا دیا جائے۔ایسے کسی اقدام سے مسئلہ کشمیر پر بہت ہی مثبت اور خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔