گریٹ گیم کے لفظ کو بعض ناقدین سازشی نظریے کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں اس لفظ کے مبہم مفہوم کے باعث عام شہریوں کو اس لفظ کی گہرائی سے متعلق سمجھانا بھی قدرے مشکل ہے۔
ایک بات تو طے ہے کہ انسانی تہذیب کی تاریخ میں ہمیشہ وسائل کو طاقتور اقوام نے اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے منصوبہ بندیاں کیں یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔سلک روڈ نے مشرق سے مغرب تک تجارتی تعلقداری کو زمانہ قدیم سے ہی بذریعہ خشک زمین قائم کیا ۔139قبل مسیح سے لیکر 1271ء عیسوی تک سلک روڈ کی توسیع کی جاتی رہی ،سلطنت منگول کے دُور میں مغرب کے ساتھ تجارتی تعلق مضبوط کرنے کی غرض سے خصوصی پاسپورٹ جاری کیا گیا جسے گولڈن ٹیبلٹ کہا جاتا تھا ۔
مغرب سے آنے والے جن سیاحوں اور تجارت پیشہ افراد کے پاس گولڈن ٹیبلٹ ہوتا اُنہیں مفت سفری سہولیات فراہم کی جاتی جس کا مقصد مشرق و مغرب کے درمیان تجارت کو فروغ دینا تھا۔مشرق کی مغرب اور مغربی ممالک کی مشرق سے شناسائی اسی سلک روڈ سے ہی ممکن ہوئی جس نے مختلف تہذیبوں ، ثقافت، زبانوں اور رسوم ورواج سے واقفیت دی۔پورے مغرب میں پھیلی رومن ایمپائر ایشیائی مصنوعات کو سلک روڈ سے ہی درآمد کیا کرتی تھی حتیٰ کہ نوآبادیاتی دور میں بھی اس شاہراہ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔
چین نے اس سلک روڈ کو دوبارہ سے اہم ترین تجارتی گزرگاہ کے طور پر دُنیا کے سامنے متعارف کرایا ہے، 6000کلو میٹر طویل پھیلی اس سڑک کے ذریعے سے چین وسطی جنوبی ایشیاء، وسطی ایشیائی ممالک ، مشرق وسطیٰ اور پھر مغرب کے ساتھ زمینی رابطے کا سہار ا لیکر نئی تجارتی راہیں کھولنے جارہا ہے۔ ناقدین ، سیاسی ماہرین اسے سلک ورلڈ آرڈر سے منسوب کر رہے ہیں اور اسی آرڈر کو بریٹن ووڈ اور ڈالر کی عالمی اجارہ داری کے خاتمے سے بھی جوڑ رہے ہیں۔
ایشیا میں نئی معاشی طاقتوں کے اُبھرنے سے ترقی کے نئے مواقع پیدا ہورہے ہیں، سرمایہ کاری کا دائرہ کار بڑھ رہا ہے عالمی سطح پر اس قدر تیزی سے بدلتے حالات کے پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے؟ ملکی سیاستدانوں، دانشوروں، طلباء اور حب الوطنوں کو اس کی فکر رہنی چاہیے۔
اب گریٹ گیم کی اصطلاح سلک ورلڈ آرڈر کے ساتھ جڑنے لگی ہے اس گریٹ گیم کے کھلاڑیوں کا تعلق بھی ایشیائی ممالک کے ساتھ ہوگا۔ جنوبی ایشیاء کے اس خطے میں ایک عالمی طاقت اور دو علاقائی طاقتیں اُبھر رہی ہیں جو خطے کے ممالک کے ساتھ معائدات کر رہی ہیں، یہ معائدات معاشی بھی ہیں اور دفاعی بھی۔ چین پاکستان کے ساتھ سلک ورلڈ آرڈر کے تحت نئے معاشی معاہدات کر چکا ہے جسے پاکستان میں اقتصادی راہداری کا نام دیا گیا۔
اس سلک ورلڈ آرڈر میں چین اپنی اقتصادی ترقی کے منصوبے میں پاکستان کو بھی شامل کر چکا ہے جس کے لیے چین باون ارب ڈالرز خرچ کرنے تیار ہوا ہے۔ اس سلک ورلڈ آرڈر میں پاکستان کی شمولیت کا ایران نے بھی خیر مقدم کر دیا ہے جبکہ روس نے اوفا میں ہونے والی علاقائی ممالک کی کانفرنس میں نئے علاقائی اتحاد کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔
علاقائی اتحاد جسے یورویشیا کا نام دیا جارہا ہے اس اتحاد میں پاکستان کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے ، اتحاد کی کامیابی پاکستان کے اندرونی حالات کے پُرامن ہونے سے مشروط ہے،یہی آج چین اور روس کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے کیونکہ ان دو ممالک کی خواہش ہے کہ علاقائی اتحاد میں امریکہ بہادر کا عمل دخل نہیں ہوگا ۔لہذا روس نے پاکستان کی دفاعی شعبے میں معاونت کے لیے ہاتھ بڑھایا ہے اور پاک روس دفاعی معاہدات ہوئے۔
پہلی بار روسی فوج کے سربراہ نے پاکستان کا دورہ کیا جو انتہائی غیر معمولی نوعیت کا تھا۔ کیونکہ سلک ورلڈ آرڈر کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ شدت پسندوں کو شکست دی جائے اور ان کی امداد کے تمام راستوں کو بند کیا جائے اسی مقصد کے تحت روس اور چین نے پاکستان کی فوج کے ساتھ براہ راست نئی شراکت داری بنائی جس کا ہدف پاکستان میں موجود شدت پسند مذہبی و سیاسی تنظیموں کا خاتمہ کرنا ہے۔
پاکستان کی فوج نے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کو متعارف کرایا اور اس میں ملکی سیاسی و جمہوری جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ ملایا۔ صرف یہی نہیں پاکستان کی جمہوریت کو بھی چیلنج ہے کہ لسانی، گروہی اور فرقہ وارانہ تحریکوں کو بھی قابو میں کرنا ہے اور صوبائیت و لسانی تعصب کی شدت کو بھی کم کرنا ہے۔ وفاق کو قومی تصور کے تحت اندرونی اختلافات کو حل کرنا ہوں گے جس کے لیے لوگوں کے نچلی سطح تک مسائل کو حل کرنا ہوگا۔
پاکستان خوش قسمت ہے کہ 70برس تک جن شدت پسند جماعتوں نے ملک میں تقویت حاصل کی آج ان سے درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے علاقائی ممالک معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان اور بھارت کو مستقل رُکنیت دینا اور اوفا میں ان دو ممالک کو بھی ساتھ لیکر چلنا علاقائی اتحاد کی خاطر ایک بہترین سنگ میل ہے۔علاقائی اتحاد کو مضبوط بنانے کے لیے ہی ایشیا کی معیشت کو دوام بخشنے کی خاطر ایشین انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ بنک تشکیل دیا گیا، افغانستان سے شدت پسندی کے نیٹ ورک کو توڑنے کی خاطر خفیہ معلومات کے تبادلے کے لیے دونوں ممالک کی ایجنسیوں کے درمیان معاہدہ بھی ہوا۔
امریکہ اور یورپ کی جامعات میں یہ بحث کئی سالوں سے چل رہی ہے کہ یہ صدی ایشیاء کی صدی ہے کیونکہ ایشیاء کے پاس نہ صرف تمام تر وسائل موجود ہیں بلکہ بہترین ذہن و افرادی قوت کی بھی ایشیائی ممالک کے پاس کمی نہیں ہے۔ پاکستان کی تزویراتی حیثیت جغرافیائی پھیلاؤ کی وجہ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے ، جنوبی ایشیاء میں امن، معاشی نمو اور سیکورٹی کو موثر بنانے میں پاکستان کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان کو اب طے کرنا ہے کہ وہ سلک ورلڈ آرڈر اور یوریشیا کے تصور کو کامیاب بنانے کے لیے علاقائی ممالک کے اتحاد میں کس طرح سے موثر کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان کے پاس معاشی ترقی کرنے کے بہترین مواقع ہیں لیکن اس کا انحصار پاکستان کے سیاستدانوں کی منصوبہ بندی پر ہے۔
میرے ذاتی خیال کے مطابق پاکستان کو سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرنے کے لیے علاقائی طاقتوں کے ساتھ معاہدات کرنے چاہیے اور تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے روس و چین کو آمادہ کیا جائے ۔ پاکستان کا کردار علاقائی ممالک کے اس اتحاد میں صرف راہداری فراہم کرنے کی حد تک نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنی قومی ضروریات کے تناظر میں ترقی کی نئی راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔
2 Comments