ارشد لطیف خان
مسلمانوں میں عقلی علوم پھیلانے میں اخوان الصفا کے دانشوروں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ چوتھی صدی ہجری کے آخر میں ابھرنے والے ان دانشوروں نے عقلی علوم کا رابطہ سماج اور اس کے علائق سے پیدا کرنے کی کوشش کی۔اخوان الصفا کے دانشوروں نے اپنے منشور میں لکھا تھا:۔
’’اسلامی شریعت جہالتوں اور گمراہیوں کی آمیزش سے گندی ہو گئی ہے۔ اس کو صرف فلسفے کے ذریعے دھویا اور پاک کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے فلسفہ اعتقادی علوم وحکمت اور اجتہادی مصلحتوں پر حاوی ہے اب صرف فلسفہ یونان اور شریعت محمدی کے امتزاج سے کمال مطلوب حاصل ہو سکتاہے‘‘۔
جون ایلیاء اخوان الصفا کے نمائندوں کی نمائندگی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’ہم نادیدہ افقوں سے اٹھنے والے بادلوں کا انتظار کررہے کہ ہمیں سمتوں کو دھونا تھا آبشاروں سے ہزاروں چھتنار‘ پیٹروں اور پودوں کودھونا تھا جو تاریخ کی گرد افشانی سے آلودہ ہیں۔ تمہارے اور اپنے آنسوؤں سے بے سود گلہ مندیوں کے چہروں کو دھونا تھا۔ شاخوں کو اور صدہاسال سے ان کی جنبشوں کے آہنگ پر چہچانے والے پرندوں کو اور ان کے پردوں اور ان کی منقاروں کو دھونا تھا۔ ہواؤں اور شعلوں کو دھونا تھا۔ بادلوں میں کو ندتی ہوئی بجلیوں کو دھونا تھا۔ ہمیں اس دنیا کو دھونا تھا جس میں ہماری آج تک کی نسلیں سانس لیتی رہی ہیں ۔ ہمیں یزداں ، اہرمن اور انسان کو دھونا تھا مگر کچھ بھی نہ کر سکے‘‘۔
واقعی اخوان الصفا کے دانشور بھی وہ کچھ نہ کر سکے تھے جو وہ کرنا چاہتے تھے۔ جس عظیم مقصد کو وہ لے کر چلے تھے اس کو پورا ہی نہیں کرنے دیا گیا۔ افسوس کہ عقلی تحریکیں مسلمانوں کو کبھی راس نہیں آئیں اخوان الصفا پر بھی ظلم و ستم قائم کیا گیا مگر چونکہ یہ ایک خفیہ تحریک تھی لہٰذا اس کے ارکان کی بجائے ان کی کتب اور رسائل کو جلا کر ہی مقصد پورا کر لیا گیا۔ انہوں نے اپنے خیالات و نظریات باون رسالوں میں شائع کئے تھے ان کو ملحدانہ قرار دے کر جلا دیا گیا۔
سید امیر علی ’’تاریخ اسلام‘‘ میں لکھتے ہیں
’’اخوان الصفا کے رسائل میں ریاضی‘ فلکیات‘ طبعی جغرافیہ‘ موسیقی میکانیات‘ طبیعیات‘ کیمیاء‘ موسمیات‘ ارضیات‘ حیاتیات‘ فعلیات‘‘ حیوانات‘ نباتیات‘ منطق‘ نحو‘ مابعد الطبیعیات‘ اخلاقیات اور مستقبلیات وغیرہ موضوعات کا احاطہ کیا گیا تھا‘‘۔
مقام حیرت یہ ہے کہ اخوان الصفا کی تحریک کے خاتمے کے بارے میں سید امیر علی جیسا تاریخ دان بھی کچھ نہیں لکھتا اور صرف یہ کہتا ہے:۔
’’صلیبی طاقتوں سے بچنے کے لیے مسلمانوں نے اپنی تمام تر توانائی صرف کر دی اور نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کی کوششوں سے وہ کافی حد تک محفوظ بھی رہے تاوقتیکہ تاتاریوں کے حملہ نے مسلمانوں کی تہذیب اور ثقافت کو پسپا کر ختم کر دیا‘‘۔
جیسا کے بیان کیا گیا تھا کہ عقلی علوم کے خاتمے کے بعد تمام تر فکری توانائیاں نقلی علوم پر خرچ کی جانے لگی تھیں جس کی بنا پر وجود میں آنے والے مختلف مکاتب فکر اور فرقے اپنے افکار کی برتری وفضیلت جتانے کے لئے ہر وقت بحث و مباحثے میں الجھے رہتے تھے یہ مباحثے علمی مباحثے سے بہت فروتر ہوتے تھے، اور عین اسی طرح کے ہوتے تھے جس طرح کے مباحثے کلیسائی دور میں ہوتے تھے یعنی آدمی کی ناف تھی کہ نہیں، ایک سوئی کی نوک پر بیک وقت کتنے فرشتے آسکتے ہیں یا کیا خدا اتنا بھاری پتھر بنا سکتا ہے کہ جس کو وہ خود نہ اٹھا سکے۔
ان مباحثوں سے مسلمان مزید فرقہ بازیوں میں پھنس گئے۔ دن رات ان میں مصروف رہنے کی بناء پر عسکری وحدت کو بھی نقصان پہنچا۔ مذہبی معاملات کی بناء پر خلیفہ وقت بھی سخت احکام جاری نہ کرسکتا تھا کیونکہ اس سے بغاوت کا اندیشہ رہتا تھا۔ ویسے بھی خلیفہ صرف نام کا تھا اور اپنی مرکزیت کھو بیٹھا تھا۔دقیانو سیت اتنے عروج پر پہنچ چکی تھی کہ ایک دوسرے سے مخالف نقطہ نظر رکھنے والے ایک دوسرے کی بات تک سننے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے۔ اور بغداد کی گلیوں میں آئے دن جدال قتال ہوتا رہتا تھا۔ مختلف عقیدہ اور نظریہ رکھنے پر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا خون بہا دیتا تھا اور اس فعل میں خلیفہ وقت سب سے آگے ہوتا تھا اور شاید ہی کوئی خلیفہ ایسا گزرا ہو جس کے ہاتھ بے گناہ سے نہ رنگے ہوں۔
ایسی دقیانوسیت کی پامال راہوں پر چلنے کے انتخاب اور روشن خیالی کے عنقاء ہونے کی بناء پر ہی ہلاکو خان کے بغداد پر حملہ آور ہونے کی رائیں ہموار ہوئی تھیں۔
ہلاکو خان کا حملہ:۔
سنہ 1258ء میں ہلاکوخان نے بغداد پر حملہ کیا وہ ایک کالی آندھی کی طرح اٹھا اور ہر چیز کو تاراج کر کے رکھ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب اس نے قتل و غارت شروع کی تو حملہ آور فوجوں کے گھوڑے گھٹنوں تک خون میں ڈوب گئے تھے۔ بغداد کی لائبریریوں کو جب آتش برد کیا گیا تو ان قیمتی کتب کی راکھ سے دریائے دجلہ کا پانی سیاہ ہو گیاتھا۔ مورخ کے الفاظ میں’’دریا کا پانی کبھی سرخ ہو جاتا اور کبھی سیاہ‘‘ یہ صورت حال کئی دن تک جاری رہی۔ یوں بغداد جو ایک زمانے میں مسلمانوں کی علمی رفعت و تزئین کا شاہکار اور مرکز تھا ایسا برباد ہوا کہ چشم فلک نے دوبارہ اس کو ابھرتے نہ دیکھا۔
اوسوالڈ اسپنگلر نے اپنی کتاب’’زوال مغرب‘‘ میں تاریخ کے حیاتیاتی نظر یہ کے حوالے سے یہی بات ثابت کی ہے۔کوئی بھی سماج، تمدن یا معاشرہ جو اپنی توانائی خرچ کر چکا ہو طبعی عمر پوری کر چکا ہو کبھی واپس اسی حالت میں نہیں آتا جو اس پر پہلے گزر چکی ہو۔
اسپنگلر لکھتاہے:۔
’’سب تمدنوں کے ساتھ یہی ہوا مصر کے مقبروں سے سریانی تہذیب پیدا ہوئی پھر اسے بھی زوال آیا۔یونان کے فکری کھنڈرات سے روم کا عظیم الشان قانون ابھرا۔ پھر اس پر بھی موت طاری ہو گئی۔ ہزاروں نہیں لاکھوں مختلف قومیں تمدنوں کی علمبرداربن کر اس دنیا کے اسٹیج پر ابھریں، تاریخ کے صفحات نے ان کا خیر مقدم کیا، وہ بڑھیں اور ان کے افکار و نظریات پھلے پھولے، انہوں نے طاقت کو غلام بنایااور دنیا پر چھا گئیں پھر جب موت کی ساعت آئی تو ہمیشہ کے لئے سو گئیں۔ بچاؤ کے سارے حیلے پھر اس تنزل کو روک نہیں سکے کیونکہ یہ ان کی اجل تھی اور جب اجل آجائے تو ٹل نہیں سکتی۔ تاریخ کے اوراق ہی پھر ان کے مدفن بنے۔ اب ان گذری ہوئی اقوام کی جامعہ روایات باقی ہیں۔ ایک تن جس کے جسم سے جان نکل چکی ہو اس کے لئے بقراط وجالینوس کی حکمت بھی چارہ گر نہیں ہوسکتی۔ بالکل اسی طرح ایک تمدن جو مٹ چکا ہے اس کے لئے احیاء کی جدوجہد بالکل بے سود ہے۔ اور اس سلسلہ کی تمام کوششیں ناکام ونامراد ثابت ہوں گی‘‘۔