منیر سامی
صوفیائے کرام کے اہم افکار اور اقوال میں یہ فکر بھی شامل ہے کہ ایک کامل انسان وہ ہوتا ہے جو مرنے سے پہلے مرنے کے لیئے تیار ہو اور جب موت آئے تو اس کا استقبال خوشی خوشی کرے اورسکون سے اس دارِ فانی کو چھوڑ جائے۔ نیک لوگوں اور قلندر وں کی پہچان بتاتے ہوئے اقبالؔ نے کہا تھا کہ ’اگر چہ سر نہ تراشد قلندری داند‘۔ اور غالبؔ نے بھی تو کہا تھا کہ، ’تجھے ہم ولی سجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا‘۔ اس کے ساتھ ہی مجھے یہ اصول بھی یاد آیا کہ کامل انسانوں، قلندروں ، اور صاحبانِ وَلایت کا کوئی مذہب، رنگ، نسل ، اور ذات پات نہیں ہوتے، وہ صرف اور صرف انسان ہوتے ہیں جن کے دلوں میں انسانی درد اور انسانوں سے محبت کا جذبہ موجزن ہوتا ہے۔
یہ سب افکار و اشعار مجھے عصرِ حاضر کے عالمِ موسیقی پر جاوداں نقش چھوڑنے والے فنکار’ ڈیوڈ بووی‘ ؔ کی موت پر یاد آئے، جوجنوری ۲۰۱۶ ء کی دس تاریخ کو بہت ہی سکون کے ساتھ اپنے خاندان سے رخصت ہوتا ہوا موت کا ہاتھ پکڑ چلا گیا۔ اس کی زندگی میں اُس کی ایک سو چالیس ملین سے زیادہ البمیں فروخت ہوئی تھیں۔
موت سے دو دن پہلے اس کی آخری البم ’بلیک اسٹار‘ کے عنوان سے جاری ہوئی تھی۔ اس البم میں اس کے ایک گانے کا عنوان ’لِزارَس ‘ہے جس کے بول اس طرح سے ہیں۔۔۔
“Look up here, I’m in heaven,
I’ve got scars that can’t be seen,
I’ve got drama, can’t be stolen,
Everybody knows me now.”
ان بولوں کا سادہ سا ترجمہ یو ں کیا جاسکتا ہے،’ ’ذر ا اوپر دیکھو، میں اب جنت میں ہوں۔۔میں اپنے ساتھ وہ زخم لایا ہوں جو دکھائی نہیں دیتے۔۔میرے پاس وہ تمثیل ہے جوکوئی چرا نہیں سکتا ۔۔۔اب مجھے ہر شخص جانتا ہے‘‘۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ’لِزارَس ‘کا ادبی اور تخلیی کردار عالمِ ادب میں اس کردار پر مبنی ہے جسے حضرت عیسیٰ نے اُس کی موت کے چار دن بعد زندہ کر دیا تھا۔ ادبی استعاروں میں ’لِزارَس‘ موت کے بعد دوبارہ زندگی پانے کا استعارہ ہے۔
ڈیوڈبوویؔ ،کی ساری موسیقی اور خصوصاً اس کی اہم ترین موسیقی کا تعلق بہ ہر طور کہکشاؤں اور انسانوں سے ہے۔ اُس کی معروف ترین البم کا عنوان، جسے بلا شبہ مغربی دنیائے موسیقی کی اہم ترین البموں میں شمار کیا جاتا ہے، مندرجہ ذیل ہے:
The Rise and Fall of Ziggy Stardust and the Spiders from Mars
جس کا کردار ’زِگّی اسٹار ڈسٹ‘ یا ’غبارِانجم ‘ کہکشاؤں سے آیا ہوا ،ایک نوجوان ہے۔ یہ دراصل ڈیوڈبوویؔ ۔ کا ہم زاد ہے ، جودنیا اور انسانیت کے آخری پانچ سالوں میں انسانوں کے لیئے امید کا پیغام لے کر آیا ہے۔ وہ نوجوانوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ زمین اور دنیا قدرتی وسائل کے خاتمہ کی وجہہ سے فنا ہونے کو ہیں، لیکن اس کے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی نوجوانوں کو خواہش ہے۔ دنیا کے بزرگوں نے ہر حقیقت کو فراموش کردیا ہے ، اور نوجوان اب کس مپرسی کے عالم میں جہاں سے جو ملے لوٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
غبارِ انجم‘ کے پاس ’روک اینڈ رول ‘ موسیقی ہے لیکن نوجوان اسے پسند نہیں کرتے۔ اس وقت دنیا کی حالت یہ ہو چکی تھی کہ موسیقی سنانے کے لیئے بجلی بھی نہیں تھی۔’غبارِ انجم ‘ کا مشیر اسے کہتا ہے کہ خبریں جمع کرو اور گانے بنالو کیونکہ اب خبریں بھی باقی نہیں ہیں۔ سو وہ خبروں کا گانا بناتا ہے ، لیکن اب ہر خبر وحشت ناک ہے۔ پھر اسے ایک خواب میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ’اِسٹار مَین‘، کا ایک کردار بنا لے۔ اس گانے کے سارے کردار ’انسانی ستارے ‘ہیں جو لامحدود ہیں۔ یہ پہلی امید افزا خبر ہے جو نوجوانوں نے سنی ہے، سو وہ ’غبارِ انجم ‘ کے دلدادہ اور مرید ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ ’انسانی ستارے ‘ ہیں جو دنیا کے لیئے باعثِ امید ہیں۔اب سب لوگ کہکشاں در کہکشاں سفر کرنے لگتے ہیں اور کسی کو کوئی فکر نہیں رہتی۔ اب ’غبارِ انجم ’ خود کو مستقبل کے ’انسانی ستاروں ‘ کا پیغمبر سمجھنے لگتا ہے اور خود کو روحانی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔ اُس کے پرستاراس کو زندہ رکھتے ہیں اور اس کے قصیدے پڑھتے ہیں۔
جب مستقبل کے ’انسانی ستارے‘ زمین پر پہنچتے ہیں تو وہ ’ غبارِ انجم ‘ کے بدن سے ریشے نوچتے ہیں کیونکہ وہ خود غیر مادی اور غیر مرئی ہیں اور زمین پر مادی حالت کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ پھر ایک گانے کے دوران جس کا عنوان ’روک اینڈ رول کی خودکشی ہے‘، انسانی ستارے ’غبارِ انجم ‘ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں اور جیسی ہی وہ مرتا ہے، ’انسانی ستارے‘ سب کو نظر آنے لگتے ہیں۔
۱۹۷۶ء میں ڈیوڈ بووویؔ نے ایک فلم ’دی مَین ہُوفَیل اَون دی اَرتھ‘ میں اہم کردار ادا کیا۔ اس فلم میں اس کا کردار ایسے شخص کا ہے جو کسی دوسری سیارے سے زمین پر پہنچا ہے تاکہ یہاں سے اپنے خشک سالی زدہ سیارے کے لیئے پانی حاصل کرکے کسی طرح وہاں لے جائے۔ اسے اس کوشش میں انسانی مدد بھی ملتی ہے ، لیکن پھر وہ گرفتار ہو جاتا ہے ۔ کئی سال کے بعد اسے قید سے فرار ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔
گزشتہ نومبر میں اس فلم کے پس منظر میں نیو یورک میں ’لَزارَس‘، کے عنوان سے ایک تھیٹر شروع ہوا ہے۔ جو ڈیوڈ بوویؔ ، کی موسیقی پر مبنی۔ اس کے ٹکٹ ریکارڈ طور پر فروخت ہوئے ہیں۔ اس میں اُس کے پرانے اور نئے گانوں اور موسیقی کا امتزاج شامل ہے۔ یہ تھیٹر بیس جنوری تک جاری رہنے کا امکان ہے۔
موسیقی اور فن کی دنیا میں ڈیوڈبوویؔ ، کا اثر بہت گہرا اور کائناتی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اس کے انتقال پر پاکستانی نژاد آرٹسٹ ‘مونا سعید کمال ‘ نے ، جن کے فن پاروں کی ایک نمائش کراچی میں جاری ہے ، اپنے فیس بک پیغام میں لکھا کہ، ’’ڈیوڈ بوویؔ ، تم نے مجھ پر بہت طرح سے اثر چھوڑا ہے : لڑکپن میں تمہاری موسیقی پر رقص سے، محبت کی جدید تفہیمات تک، اور پھر اپنے سنِ بلوغت میں تمہارے اولین کام سے خود اپنے فن کے لیئے تخلیقی تحریک حاصل کرنے تک کہ جب میں اپنی شناخت کی تلاش میں تھی، اور آج بھی تمہاری موسیقی میر ے لڑکپن کی یادیں تازہ کرتی ہے ۔ میں خوش ہو ں کہ مجھے اسیّ کی دہائی میں پروان چڑھنے کا موقع ملا۔
دوسری طرف عصرِ حاضر کی مشہور ترین گلوکار اور فنکارہ ’مَیڈَونا‘ نے کہا کہ’’میری حالت غیر ہے۔ ڈیوڈ بوویؔ نے میر ے فن کی سمت ہمیشہ کے لیئے بدل کر رکھ دی تھی۔ ڈیوڈبووی ؔ میں تمہاری شکر گزار اور مقروض ہوں۔‘‘ یہ جذبات صرف میڈوناؔ اور موناؔ کمال تک محدود نہیں۔ عصرِ حاضر میں موسیقی، ثقافت، فلمی دنیا، اور فن کاری سے متعلق ہر بڑے شخص نے ڈیوڈ بووی کے انتقال پر اپنے درد اور جذبات کا اظہار کیا ہے۔برطانیہ میں موسیقی کے ایک اہم جشن کے بانی’مائکل اِیوِس‘ نے کہا کہ دنیائے موسیقی کے عظیم ترین نام تین ہیں، فرینک سناترا،ایلووِ س پریسلی، اور ڈیوڈ بووی۔ اس کے علاوہ کوئی ان کی ہم سری کے قریب بھی نہیں ہے۔
۲۰۱۳ء میں کینیڈاکی اہم آرٹ گیلری، ’اے۔جی۔اَو‘، میں ڈیوڈ بوویؔ کی زندگی اور فن پر ایک اہم نمائش لگی تھی۔ یہ میری اور میرے اہلِ خانہ کی خوش نصیبی تھی کے ہمیں اس میں اس اہم فنکارا ور انسان کی زندگی کو قریب سے سمجھنے کا موقع ملا۔ کل ٹورونٹو میں پہلے سے طے شدہ ایک پروگرام کے تحت ڈیوڈ بووی ؔ کا ایک کنسرٹ منعقد ہوگا۔ اس میں کینیڈا کے وہ فنکار شرکت کریں گے جو مختلف اوقات میں اس کے ساتھ پروگرام کرتے رہیں تھے۔ ایک فرضِ کفایہ کے طور پر میری بیوی اور بیٹا اس میں حاضری دیں گے۔
’ اِسٹار مَین‘، اَسپیس آڈِٹی، اور مَین ہُو فَیل اَون اَرتھ‘، جیسی لافانی موسیقی کے خالق کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے گزشتہ سال خلائی جہاز سے کینیڈین خلاباز ’کِرِس ہَیڈفِیلڈ‘ نے ’اِسپیس آڈِٹی‘ پیش کی تھی۔ جس پر ڈیوڈ بوویؔ نے اس کی بے پناہ تعریف کی تھی۔ اس نغمہ کے ایک بول کے الفاظ ہیں:
This is Major Tom to Ground Control
I’m stepping through the door
And I’m floating in the most peculiar way
And the stars look very different today
میجر ٹومؔ گراؤنڈ کنٹرول سے مخاطب ہے۔۔میں اب دروازے سے باہر جا رہا ہوں۔۔اور خلا میں عجیب طرح سے محوِ پرواز ہوں۔۔ آج سب ستارے مختلف طرح سے دکھائی دے رہے ہیں۔۔۔‘‘
ڈیوڈ بوویؔ کو یاد کرتے ہوئے خلابا ز ’ہیڈفیلڈ‘ نے کہا ’’کہ ڈیوڈ بوویؔ کی موسیقی میں کہکشاؤں اور انسانوں کا ذکر شاید یوں بھی تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ کہکشاؤں کی بے پناہ وسعت کے سامنے کسی خود سر انسان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔“
خود اپنے فن کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈیوڈ بوویؔ نے کہا تھا کہ، ’’میں ہمیشہ صرف ایک ہی موضوع پیش کرتا رہا ہوں ، چاہے میر ے کرداروں کا لبادہ کچھ بھی ہو، اور وہ تنہائی، ترک و تیاگ، خوف، اور بے چینی اور بے اطمینانی کے موضوع ہیں۔ اور یہی ہر انسان کی زندگی کے اہم معاملات ہیں۔“
ڈیوڈبوویؔ ، اپنی تمام زندگی درماندہ ، افتادہ، اور معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے طبقات کے گیت لکھتا رہا ۔ اُس کی موت پر دنیا بھر میں انسان، فنکار، پرستار، سیاستدان، سب کے سب اُس کی زندگی کا جشن منارہے ہیں، اور کہکشاؤں سے اترے ہوئے انسان کو اس ہی کے ترانوں کے ساتھ رخصت کر رہے ہیں۔ شاید ایسی ہی رخصتی کے لیئے جونؔ ایلیا نے لکھا تھا کہ، ’’جیسا نکلا اپنا جنازہ ایسے جنازے کم نکلے۔“