عرفان احمد خان۔ فرینکفرٹ
ایک وقت وہ تھا جب پاکستانی معاشرہ نظریاتی اعتبار سے صرف دو حصوں میں تقسیم تھا۔ دینی رحجان رکھنے والوں کو زیادہ تر دائیں بازو سے منسلک سمجھا جاتا تھا جبکہ لبرل خیالات رکھنے والے بائیں بازو میں شمار کیے جاتے تھے۔پھر ضیاء الحق کی اسلام پسندی نے معاشرہ اس حد تک بگاڑدیا کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں میں اس قدر دراڑیں پڑ گئیں کہ مسلک کی پہچان کو نمائندگی کا حق دے دیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بیماری تحریر و تقریر سے نکل کر لباس کا حصہ بن کر اپنی مخصوص پہچان میں تبدیل ہو گئی۔
اس کے بعد وہ وقت بھی آیا کہ موٹر سائیکلوں اور گھروں کی چھتوں پر اپنے اپنے مسلک کے جھنڈے فخر سے لہرائے جانے لگے۔راہ جاتے مسافر مسجد میں داخل ہونے سے قبل اس امر کی تصدیق کرنے لگ پڑے کہ مسجد دیوبندیوں کی ہے یا یہاں کے امام بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ تفریق جو صرف دائیں اور بائیں بازو تک محدود تھی اس کی تقسیم در تقسیم نے ہمیں قوم بننے سے محروم رکھا ۔ پاکستان میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا گیا ہے جہاں دوستی سے زیادہ دشمنیوں نے راہ پالی ہے۔
دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی تفریق دنیا کے ہر ملک میں موجود ہے۔ یورپ کے جمہوری، ترقی یافتہ معاشرہ میں بھی سیاسی دنگل دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی تفریق پر لڑے جاتے ہیں۔ عیسائیت میں بھی فرقوں کی تعداد کچھ کم نہیں لیکن یہاں مذہب کبھی معاشرہ کی ترقی میں حائل نہیں ہوا اور نہ ہی ریاست کے روز مرہ امور میں مذہب کی حاضری کو اتنا ضروری خیال کیا جارہا ہے۔ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ چرچز کا رول عبادت اور اخلاقیات کی ترغیب تک محدود ہے۔
ہمارے ہاں دیوبندیوں ، بریلویوں اور شیعہ سنی کی تفریق جس خوں ریزی کا باعث بنی ہوئی ہے اس کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ قومی ایکشن پلان میں سب سے پہلے مذہبی تفرقہ بازی کو ختم کرنے کی طرف توجہ دی جاتی۔ جن مذہبی تنظیموں اور ان کے ہمدرد کالم نویسوں نے معاشرہ کو یرغمال بنایا ہوا ہے ان کے خلاف اقدامات اٹھائے جاتے۔ چار سدہ یونیورسٹی میں ہونے والی دہشت گردی کے تازہ واقعہ کے بعد یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ قومی ایکشن پلان پر پوری طرح عمل نہیں کیا جارہا۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ کراچی اور وزیرستان میں کی جانے والی کاروائیوں کے علاوہ قومی ایکشن پلان جمود کا شکار ہے ۔ جو کام سیاسی حکومتوں کے کرنے کے تھے وہ اس طرف جان بوجھ کر غفلت دکھا رہی ہیں۔ حالانکہ ہم سب متفق ہیں کہ دہشت گردوں نے انتہا پسندوں کی گود میں پرورش پائی ہے اور انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے ان ٹھکانوں کا خاتمہ ضروری ہے جہاں انتہا پسندی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ریاست کا چہرہ لبرل نظر آنا چاہیے۔
لیکن ریاست کو لبرل بنانے کے خلاف دائیں بازو کے انتہا پسند مذہبی تشخص کا پرچار کرنے والے کالم نویس میدان میں موجود رہتے ہیں ۔ وزیراعظم نے پاکستان کے روشن مستقبل کو لبرل ازم سے کیا تشبیہ دے دی کہ دائیں بازو کے انتہا پسند کالم نویسوں کی رات کی نیندیں حرام ہوگئیں ہیں۔
یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ پاکستانی معاشرہ کسی طور پر بھی اسلامی معیار پر پورا نہیں اترتا یا اسلام کے اعتبار سے مثالی معاشرہ نہیں ہے ان کا اصرا ر اپنی جگہ قائم ہے کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے اور اس کا اسلامی تشخص برقرار رہنا چائیے۔ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ بنگلہ دیش سیکولر ملک ہونے کے باوجود اپنا اسلامی تشخص برقرار رکھے ہوئے ہے۔ تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔
جنگ کے کالم نگار انصار عباسی اسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ کئی سال بطور سزا بندش کے بعد یو ٹیوب والے اسلام مخالف پراپیگنڈہ سے باز رہیں گے ۔ حالانکہ موجودہ حالات میں مخالفین سے زیادہ خود مسلمانوں کا کردار اسلام مخالف پراپیگنڈہ کا موجب بن رہا ہے ۔ جس کی طرف مسلمانوں کی توجہ دلانے کے لیے انصار عباسی کا شرمسار قلم تیار نہیں۔
ایک مصدقہ اطلاع کے مطابق سب سے زیادہ فحش ویب سائٹس دیکھنے والے ممالک میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی شامل ہے جن دنوں یو ٹیوب پاکستان میں بند تھی پاکستانی میڈیا کے مطابق چار لاکھ سے زائد غیر اخلاقی ویب سائٹس پاکستان میں دیکھی جارہی تھیں۔ اگر پاکستانی میڈیا کی یہ خبر درست ہے تو پھر انصار عباسی کو انوشہ درحمان کو دی جانے والی مبارک باد واپس لے لینی چاہیے۔
انصار عباسی اس خبر پر بھی خوش ہیں کہ قومی اسمبلی رولز میں تبدیلی کا بل پیش کیا گیا ہے جس کے بعد ہرروز اسمبلی کی کاروائی کے آغاز پر کلام الہیٰ کی تلاوت کے بعد اب نعت بھی پڑھی جائے گی۔ قومی اسمبلی رولز میں تبدیلی کا بل پیش کرنے والے وزیراعظم کے داماد اور رکن اسمبلی کیپٹن صفدر ہیں جن کو مبارک باد دیتے ہوئے انصار عباسی نے وزیر اعظم پر سوار لبرل ازم کا بھوت اتارنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔
اگر تو انصار عباسی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہمارے اراکین اسمبلی کے شب و روز نعت سن کر اسلامی تعلیم کا نمونہ بن جائیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ ہمارے اراکین قومی اسمبلی کی اخلاقی برائیوں کی کہانیاں اکثر اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ اسمبلی کے ہوسٹلز میں راتوں کو کیا ہوتا ہے۔ اس پر سب ایک دوسرے کے کرتوتوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔ کمروں پر ناجائز قبضے ، غیر مستحق افراد کو فلیٹ الاٹ کروانے کی شکایات روز کا معمول ہے۔ استحقاق سے بڑھ کر سرکاری گاڑیوں کا استعمال رکھتے ہیں ۔ ان جیسے اراکان اسمبلی جن پر کلام الہیٰ کی تلاوت اثر نہیں کرتی ان میں انسانوں کی لکھی نعت کیا تبدیلی لا سکتی ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے پاکستان میں دین کی دکانداری چمکانے کے لیے استعمال کرنے کا جو کلچر رواج پا گیا تھا وہ اب بھی جاری ہے۔ جنرل ضیاء الحق سے پلاٹ اور لفافے لینے، سرکاری خرچ پر عمرے اور حج کرنے والوں میں ہمارے اسلام پسند صحافی ہی شامل تھے جنہوں نے صحافت کے پیشے کو قابل فروخت بنادیا ہے۔
الطاف حسین قریشی فخر سے بتایا کرتے تھے کہ ضیاء الحق کے زمانے میں قومی ائیر لائن میں پرواز سے قبل دعائے سفر پڑھنے کو رواج میں نے شروع کروایا۔ وہ دعائے سفر اب صرف دعا تک محدود نہیں بلکہ اصل دعا سے پہلے اور بعد قاری کی آواز میں اور بھی بہت کچھ سننے کو ملتا ہے جس کا سفر کی کامیابی سے کوئی تعلق نہیں۔ محض رسمی الفاظ دہرانے والوں نے قومی ائیر لائن کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ پی آئی اے 22ارب کی مقروض ہے ۔ 48جہاز تھے جو اب 38 رہ گئے ہیں۔ ان 38 جہازوں کے لیے 416 پائلٹ تنخواہ لے رہے ہیں۔ 210 مسافروں کو لے جانے والی ائیر بس پر 319 افراد کا عملہ کام کر رہا ہے۔
لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اصل چیز کردار ہے ، لامذہب صاحب کردار ہے تو معاشرہ کے لیے مفید وجود ہے۔مذہبی تشخص کا اظہار کرنے، تلاوت اور نعتیں سننے والا اگر صاحب کردار نہیں تو معاشرہ پر بوجھ ہے۔ ہمارے اسلام پسند صحافی ، عالم دین اور دانشور ایسا دینی ماحول بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ بے وقوف عوام اس میں کھوئے رہیں اور یہ لوگ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا کر گوہر مقصود حاصل کرتے رہیں۔
معاشرہ واقعی حقیقی معنوں میں اسلامی نظر آئے ، لوگوں میں خوف خدا پیدا ہو، ہر مسلمان شہری تقویٰ سے زندگی بسر کرے ، حقوق العباد کی طرف لوگوں کی توجہ ہو۔بظاہر ایسا کوئی نہیں چاہتا۔ ان کا اسلام یہی ہے کہ لوٹ مار کرنے والے ، سرکاری املاک اور ذرائع کے بے دریغ غلط استعمال کرنے والوں کے ایوان کا آغاز نعت پڑھنے سے شروع ہو۔
میرے نزدیک ایسے لوگوں کے سامنے نعت پڑھنا ، نعت کے ساتھ زیادتی ہے۔ قومی اسمبلی ریاستی ادارہ ہے جہاں مسلمانوں کے ساتھ عیسائی ، ہندو و دیگر مذاہب کے لوگ ممبر بن سکتے ہیں بلکہ ایوان میں موجود ہیں۔ ایسے ریاستی اداروں کا ماحول سیکولر ہونا چاہیے۔
♣