اسلامو فوبیا

خالد تھتھال

1935489_1668899836714068_3390646784944814416_n

تاریخ اسلام کی کتابوں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بہت بار یہ پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے کہ آپ کے دور خلافت میں ایک عورت زیورات سے لدی پھندی جنگل میں بغیر کسی ڈر کے سفر کر پاتی تھی۔ میری بد قسمتی کہ میں ان مبارک وقتوں میں پیدا نہیں ہوا۔

لیکن جب ناروے آیا تو اوسلو کی گلیوں سڑکوں پر نارویجن لڑکیوں کو انتہائی قابل اعتراضلباس پہنے رات کے سناٹوں میں گھومتے پایا۔ مجھے خود بھی ایک بار سڑک پر لیٹی، نشے سے چُور لڑکی نظر آئی۔ میں نے گاڑی روک لی۔ اور اسے گھر ڈراپ کر دیا۔

جس ملک کے سیالکوٹ نامی شہر میں سینکڑوں لوگوں اور پولیس کی موجودگی میں دو بھائیوں کو ڈنڈوں سے مار مار کر ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو ٹرک کے پیچھے باندھ کر گھسیٹے جانے کا واقعہ ہو چکا ہو، ان کو شائد یہ جان کر اچنبھا ہو کہ ناروے میں اگر کہیں ایسی جگہ پر ٹریفک کا کوئی حادثہ ہو جائے جہاں ویرانہ ہے۔ تو آپ کا فرض ہے کہ گاڑی روکیں، پولیس اور ایمبولینس کو فون کریں اور تب تک وہیں موجود رہیں جب تک کوئی امداد پہنچ نہیں جاتی۔ بصورت دیگر آپ کو مجرم ٹھہرا کر سزا دی جا سکتی ہے کہ آپ نے انسانوں کی جان کی پرواہ نہ کی۔

جب میں 1970 میں ناروے آیا تو اس وقت پاکستانیوں کے تعداد ساٹھ ستر سے زائد نہ تھی، یہی حال ترکوں، مراکو سے تعلق رکھنے والوں اور سابقہ یوگوسلاویہ کے باشندوں کا تھا۔ سویڈن اور ڈنمارک کے باشندے بھی تھے لیکن انہیں عام زندگی میں غیر ملکی تصور نہیں کیا جاتا۔ یہ سب ہی ایک ہی نسل سے تعلق رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، وائکنگز کی اولادیں ہیں۔ سوائے زبان کے فرق کے ان میں کچھ بھی ایسا نہیں کہ انہیں ایک علیحدہ قوم سمجھا جائے۔ ویسے بھی یہ اپنے آپ کو ایک دوسرے کا بھائی ہی سمجھتے ہیں۔

پناہ گزینوں کا پہلا ریلہ یوگنڈہ سے تعلق رکھنے والے ایشیائی تھے جنہیں عدی امین نے ملک بدر کیا تھا۔ میرے گیمبیا کے ایک دوست کے بقول یہ ایشیائی اس ملک کی معیشت پر چھائے ہوئے تھے۔ مقامی باشندوں سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ مقامی لوگوں کا ان ایشیائیوں کی مسجد میں داخلہ تک بند تھا۔ یہ ایشیائی آئے اور کچھ ہی عرصہ بعد مقامی آبادی میں یوں گھل مل گئے کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ انہیں زمین کھا گئی کہ آسمان نگل گیا۔

پناہ گزینوں کا اگلا ریلہ جنوبی ویتنام سے آیا جب امریکی افواج نے جنوبی ویتنام کو شمالی ویتنام کے حوالے کیا۔ انہیں boat people بھی کہا جاتا تھا کہ ان کی بڑی تعداد کشتیوں میں بیٹھ کر تھائی لینڈ جیسے نزدیکی ممالک پہنچی تھی۔ شروع میں ان کے گینگ بھی بنے، پاکستانی گینگز کے ساتھ ان کے مقابلے بھی ہوئے، پاکستانیوں کے اس وقت کے گینگ کا نام young guns تھا۔ ویت نامیوں نے پاکستانیوں کو بہت مارا لیکن پھر یہ کہیں غائب ہی ہو گئے۔

شہنشاہ ایران کا تختہ الٹے جانے کی وجہ سے بہت سے ایرانی پناہ گزین ناروے آئے۔ یہ پڑھے لکھے اور مڈل یا اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔ تعلیم یافتہ تھے، ایکدم سے معاشرے میں گھل مل گئے۔

سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کی علیحدہ ملک کیلئے جدوجہد کے نتیجے میں ہونے والی بدامنی کی وجہ بھی بہت سے تامل ناروے پہنچے۔ یہ بھی بہت پڑھے لکھے لوگ تھے۔ کئی تامل لوگوں سے جب پوچھا کہ تم یہاں برتن دھو رہے ہو، اپنے ملک میں کیا کرتے تھے، تو کوئی الیکٹریکل انجینئر ہونے کا کہتا اور کوئی کچھ اور۔ یہ جہاں شروع میں ریستورانوں میں برتن دھوتے تھے، وہیں ان میں سے کچھ مقامی یونیورسٹی میں پڑھائی بھی کر رہے تھے۔ لہذا کچھ عرصہ برتن دھونے کے بعد یہ کہیں بہتر ملازمت کی کیلئے سرگرداں نظر آتے تھے۔

اس سے اگلا گروہ افغانیوں کا تھا، یہ ہمارے بھائی بند تھے، تعلیم کا فقدان، ایک قبائلی معاشرے سے تعلق۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ ناروے میں ان کا سماجی مرتبہ پاکستانیوں سے بلند ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ایک افغانی نے گالی کے طور jævla pakkis کہا جس کا مطلب bloody paki ہے۔ اور مجھے کچھ نہ سوجھ سکا کہ اسے واپس کیا گالی دوں۔ مجھے صرف یہی جواب بن پڑا کہ تم لوگ تو ہمارے ملک میں پناہ گزین ہو اور یہاں بڑے بنتے ہو۔ اس نے جواب دیا تو کون سا احسان کیا ہے، یہ تو عالمی قانون کے تحت تمہاری ذمہ داری تھی۔

ناروے میں اگلا بہت بڑا گروہ صومالی مسلمانوں کا تھا، ایک انتہائی پسماندہ معاشرے سے تعلق، ان کی عادتیں، رویئے اور پھر سمندر میں غیر ملکی جہازوں کو لوٹنے کی تاریخ ان کا پیچھا کرتی رہی، یہ وہ واحد گروہ ہے جنہیں پاکستانیوں سے بھی گھٹیا سمجھا جاتا ہے۔ ان کا ناروے آنے کا ہمیں یہ فائدہ ہوا ہے کہ اب ہم معاشرتئ درجہ بندی میں ایک درجہ اوپر چلے گئے ہیں۔ ان کے بعد عراقی اور اب شامی مہاجرین ناروے اور دیگر یورپی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔

سال نو کو ہونے والی رات کو جرمنی کے شہر کولون میں تحرش جمعیت نام عربی کھیل نے دنیا میں تھرتھلی مچا دی ہے۔ اس وجہ سے تمام مغربی ممالک محتاط ہو چکے ہیں۔

جرمنی نے پچھلے سال گیارہ لاکھ لوگوں کو پناہ دی، پناہ دینے کے حوالے سے جرمنی کو دنیا کا سب سے بڑا پناہ گزین دوست ملک کہا جاتا ہے۔ لیکن ابھی پرانے واقعے کی دھول بھی نہیں بیٹھی تھی کہ کولون سے بیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع بورن ہائیم شہر میں پناہ گزنیوں نے وہاں کے پبلک سوئمنگ پول میں نہاتی لڑکیوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا۔

جرمن اخبار دیر شپائیگل کے مطابق ان پناہ گزینوں نے وہاں سوئمنگ کرتی لڑکیوں کے علاوہ عملے کی خواتین کو بھی جنسی طور پر ہراساں کیا۔ جرمنی کے شہر بون کے اخبار گینرال آنزائگر (General-Anzeiger ) کی خبر کے مطابق بورن ہائیم نامی شہر کے پبلک سوئمنگ پولز میں پناہ گزینوں کا داخلہ وقتی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔

جرمنی کے دوسرے شہر رائن برگ میں ہر سال ہونے والے کارنیوال جشن کو منسوخ کر دیا گیا ہے، کیونکہ اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے، کہ جب یہ جلوس پناہ گزینوں کے سنٹر کے پاس سے گزرے گا تو مبادہ تحرش جمیعت کا کوئی اور ناگوار واقعہ نہ پیش آ جائے۔ ( جو دوست کارنیوال کے متعلق نہیں جانتے وہ carnival rio de janeiro کو گوگل کریں، یہ برازیل کا شہر ہے اور کارنیوال کی جائے پیدائش، وہیں سے یہ جشن دیگر ممالک میں پہنچا ہے)

مجھے اب سمجھ نہیں آ رہی کہ پناہ گزین شامیوں کے پبلک سوئمنگ پول میں داخلے کی بندش کو نسل پرستی کہہ کر مذمت کروں یا اسلامو فوبیا۔

Comments are closed.