جاوید اختر بھٹی
سعودی ذوقِ جہاد اور ایرانی شوقِ شہادت کے درمیان پاکستان کی علتِ مصالحت کیوں ضروری ہے؟ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ دونوں شیعہ اور وہابی برادر اسلامی ملک ہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ ایران کے ساتھ آج کل ہمارے اچھے تعلقات ہیں ، معاہدے بھی ہور ہے ہیں اس کے علاوہ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات کبھی کشیدہ نہیں ہوئے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب ہمارا بڑا بھائی ہے ، ہمیں خرچہ پانی دیتا ہے، جب افغانستان پر ’’کافر‘‘ روس نے قبضہ کیا تھا تو عرب نوجوان اپنی تلواریں اور ریال لے کر آئے تھے۔ اور اس ’’جہاد‘‘ میں شریک ہوئے تھے۔ اُسامہ بن لادن نے یہاں رہائش اختیار کی، شادیاں کیں، جہاد کیا اور بالآخر مقامِ شہادت سے سرفراز ہوئے۔
بڑے بھائی کے جہاں اور بہت سے احسانات ہیں وہاں ایک احسان یہ بھی ہے کہ جب میاں حکومت کو جنرل مشرف نے ’’ تہ فوج‘‘ کیا تو سعودیہ نے ان کی قیمتی جان بچائی اور آٹھ سال انہیں پناہ دیں۔ اس مصالحت کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ سعودی بادشاہوں کی خواہش ہے کہ یمن او ر ایران کو ایک ہی وقت میں تباہ و برباد کیا جائے۔
سعودی بادشاہ بہت مختصر گفتگو کرتے ہیں وہ بس اتنا پوچھتے ہیں کہ ’’یمن اور ایران کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر کیا خرچ آئے گا‘‘؟ بادشاہ تو خیر بادشاہ ہوتا ہے، متحدہ ہندوستان کی سر زمین نے بہت سے بادشاہ دیکھے ہیں وہ صبح بادشاہ ہوتے تھے اور شام کو بد ترین قیدی ہوتے تھے۔ کچھ قید میں مرتے تھے اور کچھ سوئے دار چلے جاتے تھے ۔
اس دھرتی پر خاندانِ غلاماں اور خواجہ سرا بھی بادشاہ رہے۔ ہر طرح کا بد کردار حکمران متحدہ ہندوستان کی تاریخ میں دستیاب ہے۔ اب اِدھر نواز شریف، اُدھر مودی اور بنگلہ دیش میں حسینہ واجد ہے، کہیں بھی سکون نہیں ہے، پاکستان اور بنگلہ دیش میں انتہائی بوڑھے اور معذور لوگ پھانسی لگ گئے ہیں ہندوستان میں ’’مقدس قتل‘‘ بہت آسان ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس گھر میں گائے کا گوشت پک رہا ہے اس کے بعد اس گھر کے تما م لوگ واجب القتل ہیں۔ ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جا سکتی، ہر طرف انصاف میں موت دی جاتی ہے۔
ہمارے صاحب چلے ہیں مصالحت کرانے اور اپنی حفاظت کی صورت یہ ہے کہ چارسدہ میں باچاخان یونیورسٹی میں اساتذہ اور طالب علموں کو اس وقت قتل کیا گیا جب تدریس جاری تھی، آپ قاتلوں کے بچوں کو پڑھاتے رہیں لیکن قاتل اپ کے بچوں پر رحم کرنے کے لئے کسی طرح تیار نہیں ہے،اس میں قاتل کے بچوں کا کوئی قصور نہیں، لیکن ان قاتلوں کو اَن پڑھ نہ سمجھا جائے یہ تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے دینی مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ہے، یہ دین اور دنیا کی خبر رکھتے ہیں، معاملہ اتنا آسان نہیں ہے کہ بچوں کے گیت سے ان ظالموں کو عقل آ جائے۔
یونیورسٹی کی دیواریں بھی اونچی تھیں، خاردار تاریں بھی لگی ہوئی تھیں ، کیمرے بھی نصب تھے، اس کے باوجود چار حملہ آوروں نے 21افراد کو شہید کردیا۔ 30زخمی ہوئے، اب حکومت تعلیمی اداروں کو مزید کیا حکم جاری کرے گی دراصل پہلے بھی ڈراما کیا گیا تھا اور اب کوئی اور تماشا کیا جائے گا اور فضول اور احمقانہ قسم کا کوئی اور حکم جاری کیا جائے گا۔ لیکن حکومت کبھی اپنی نااہلی کو تسلیم نہیں کرے گی۔ 2016ء دہشت گردی کے خاتمے کا سال ہے، صدر اور وزیراعظم نے اس واقعہ کی فوراً مذمت کردی اور دہشت گردی کے خاتمے کا عہد کرلیا۔ چاروں دہشت گردوں کو مار دیا گیا۔ اب کوئی خطرہ نہیں رہا۔ حکومت نے اپنا کام مکمل کرلیا۔ حکومت آخری دہشت گرد ختم کرکے دم لے گی۔ یہ حکمرانوں کا مملکت خداداد پر آخری احسان ہوگا۔
ابھی تو ہم ہندوستان کی مدد کر رہے تھے پٹھان کوٹ ائیر بیس کے حملہ آوروں کو تلاش کر رہے تھے۔ مشتعل دشمن نے ایک بار پھر ہمارے بچوں کی جان لے لی۔ یہ حکومت 2018ء تک اپنی کسی نا اہلی کو تسلیم نہیں کرے گی اور آخر الیکشن آجائیں گے، سیاسی جماتیں عوام سے معافی مانگیں گے اور نئے وعدے کریں گے۔
پاکستانی عوام کی قسمت میں بیوقوف بننا ہے اس لئے وہ اگلے الیکشن میں انہیں ضرور منتخب کرلیں گے، پھر نئی امید وابستہ کریں گے اور ہم کر بھی کیا سکتے ہیں، یہ عمل ہم بار بار دھراتے ہیں کہ ’’ ہم زندہ قوم ہیں‘‘ اگر ہم زندہ قوم نہ ہوتے تو یہ لوگ بار بار اسمبلیوں میں نہ جاتے ، دراصل زندہ قوم ہونا ہی ہمارا قصور ہے۔
♣